جب بھی میں سنگین مشکلات کا سامنا کرتی ہوں، مجھ پر ایک حملہ ہوتا ہے۔ مئی 2019ء میں جب میرے والد کی ایک پیچیدہ سرجری ہوئی اور میری بیٹی بچی کو جنم دینے والی تھی، مجھ سے ایک دفعہ بھی پوچھے بغیر یہ فرض کیا گیا کہ میری ملکیتی جائیدادیں میرے شوہر کی تھیں، اور ان کو بہانہ بنا کر میرے شوہر کے خلاف ریفرنس دائر کردیا گیا۔ 25 جون 2020ء کو جب میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، مجھے ایف بی آر کے 9 نوٹسز کا سامنا کرنا پڑا؛ مجھے آپ نے سوگ بھی نہیں منانے دیا۔ مجھے چند روز قبل معلوم ہوا کہ مجھے تھائیرائڈ غدود نکالنے کےلیے گردن کی سرجری کرنی پڑے گی۔ میں فکرمند اور پریشان ہوئی اور فیصلہ کیا کہ (اپنے خرچے پر) سپین کے ڈاکٹروں سے ایک اور رائے لوں اور اس کے بعد ہی سرجری کرواؤں۔
مجھے (میڈیا سے) معلوم ہوا کہ میرے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی چیز دائر کی گئی ہے جسے آپ خفیہ رکھ رہے ہیں۔ مجھے اس کی نقل کیوں نہیں دی گئی؟ لیکن آپ تو اصل میں قواعد کی پابندی ہی نہیں کرتے۔ 27 مئی 2021ء کو میں نے آپ کو خط لکھا اور نقل کا مطالبہ کیا لیکن آپ نے پھر بھی نقل فراہم نہیں کی۔ آپ نے نہ تو خود اور نہ ہی کسی ملازم کے ذریعے میرے خط کا جواب دینے کی زحمت کی۔
مجھے (پھر میڈیا سے ہی) معلوم ہوا کہ جو چیز دائر کی گئی ہے اسے "اصلاحی نظر ثانی” (Curative Review) کہا گیا ہے۔ یہ "اصلاحی نظرثانی درخواست” میری نظر ثانی کی درخواست کے فیصلے کے 30 دن بعد دائر کی گئی۔ آئین، جس کو میں نے آپ کی کرم نوازی سے اب بغور پڑھ لیا ہے ، سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر "نظر ثانی کرے”، لیکن نظرثانی صرف ایک دفعہ کی جاسکتی ہے۔ آئین ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ نظر ثانی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ آئین "اصلاحی نظر ثانی” کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔نظر ثانی کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو قانون کو بگاڑنے کا ماہر ہے، آمروں کی خدمت کرتا ہے، وفاداریاں خریدتا ہے اور آئین کو پامال کرتا ہے، وہ کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم آئین کی پابندی کریں۔
مجھے مزید معلوم ہوا (اور یہ بھی میڈیا سے ہی) کہ اس دفعہ ایک اور کٹھ پتلی کو استعمال کیا جارہا ہے (ظہیر احمدصاحب سے قبل عبد الوحید ڈوگر صاحب استعمال کیے گئے تھے جنھوں نے اپنے آپ کو "آئی ایس آئی کا دلال” کہا۔) ظہیر احمد صاحب کے نام سے انگریزی میں لکھا گیا مضمون بیک وقت دو انگریزی اخبارات میں شائع ہوا، جو صرف تب ممکن ہوتا ہے "جب اوپر سے حکم آتا ہے”۔ اس کٹھ پتلی سے لکھوائے گئے مضمون کو بنیاد بنا کر ایڈیشنل اٹارنی جنرل رجسٹرار کو لکھتا ہے کہ اسے معلومات فراہم کی جائیں جبکہ اس کے اپنے افسر بالا اٹارنی جنرل کو آپ نے "اصلاحی نظر ثانی”میں مسئول الیہ بنایا ہے۔ کیا مضحکہ خیز بات ہے!
مجھے خدشہ ہے کہ "اصلاحی نظرثانی” کو (جسے مجھ سے چھپائے رکھا جارہا ہے) میری علالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے متحرک کیا جائے گا اور ایک ایسے وقت جب میں پاکستان میں نہ ہوں۔ اس لیے اپنے تحفظ کےلیے میں یہ کھلا خط لکھ رہی ہوں۔ کیا آپ سچ کو پھر دبائیں گے اور اس خط کو شائع ہونے اور ٹیلی وژن پر نشر کرنے سے روکیں گے جیسا آپ ماضی میں کرتے رہے ہیں جب بھی میں نے اپنے بارے میں جھوٹ کا پول کھولا؟ کیا لوگوں تک کبھی معمولی سی اطلاع کا پہنچنا بھی آپ سے برداشت نہیں ہوتا اور آپ میڈیا کا منہ مزید بند کریں گے؟
جناب وزیر اعظم، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی پارٹی کا نام "تحریک انصاف” کیوں رکھا ہے جبکہ آپ سے مجھے صرف ناانصافی ملی ہے۔ جناب وزیر اعظم، آپ نے اب تک میری یہ تجویز کیوں قبول نہیں کی کہ ہم براہِ راست نشریات میں آمنے سامنے آئیں اور ہم دونوں اپنے ذرائعِ آمدن، انکم ٹیکس کی ادائیگی، جائیدادوں، بشمول آپ کے گھر کے جو بنی گالا کے (ماحولیاتی تحفظ کےلیے)محفوظ شدہ علاقے میں واقع ہے جہاں تعمیرات ممنوع ہیں، کے متعلق تمام سوالات کے جوابات دیں۔ اگر آپ سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں، تو آپ تحریری سوالات دے دیجیے جو آپ یقیناً قانون کے ممتاز ڈاکٹروں کی مدد سے لکھیں گے اور میں ان کے جوابات دوں گی، بشرطیکہ آپ یہ وعدہ کریں کہ آپ بھی میرے سوالات کے جوابات دیں گے اور یہ سوال و جواب نشریات کے ذریعے لوگوں کے علم میں لائیں گے۔ جناب وزیر اعظم، آخر میں نہایت احترام سے آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ براہِ کرم آپ اپنی بناوٹی وابستگی ظاہر نہ کریں اس عظیم ریاست مدینہ منورہ سے جسے دنیا کے عظیم ترین انسان نے اخوت، دیانت داری، سچائی، شفافیت اور احتساب کے اعلی ترین اقدارپر قائم کیا تھا کیونکہ اس نامناسب وابستگی سے آپ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔