تعلیم اور انسانیت کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے، جتنی خود انسانی تاریخ ۔تعلیم ہر معاشرے میں تعمیروترقی کی ضامن سمجھی جاتی ہے ۔ انسان روز اول سے مختلف علوم میں ترقی کرتا چلا آرہا ہے جسکی بدولت آج کی دنیا ایک ایسی علمی جست لگا چکی ہے ،ماضی میں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی شعبہ انسانیت کی اس علمی جست سے پہلے کی کیفیت میں ہے۔
پاکستان جب قائم ہوا تو وہ دور قومی ریاستوں کا دور تھا ۔ قومی ریاستیں جغرافیہ ، تاریخ ،زبان اور ثقافت وغیرہ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں مگر قیام پاکستان کے وقت ملکی جغرافیہ ، تاریخ، زبان اور تہذیب وثقافت کی کیفیت مختلف تھی۔ ایسے میں اس بات کی بے حد ضرورت تھی کہ اس نئی قوم کو ایک نیا تشخص فراہم کرنے والا نظام تعلیم عطا کیا جائے، جو ملک میں پائے جانے والے لسانی، جغرافیائی اور ثقافتی اختلافات کو ایک نئی مشترکہ شناخت میں ڈھال سکے اور ان روایات کو آنے والی نسلوں تک منتقل کردے جو دور جدید میں ترقی کی ضامن ہیں۔ پاکستان میں رائج طبقاتی اور متضاد نظام ہائے تعلیم کے تحت کام کرنے والے تعلیمی ادارے ( سرکاری تعلیمی ادارے، ماڈل سکول ،انگلش میڈیم سکول، دینی مدارس وغیرہ) اس کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستانی ارباب اختیار تعلیمی نظام ونصاب کے اس سنگین مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں ہم پاکستان کا ایک حصہ کھوچکے ہیں اور روز افزوں معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حوالوں سے اختلافات وتقسیم کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد روشنی کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی جب وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے ” ایک قوم ایک نصاب” کا نعرہ لگایا اور وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ اپنے سرلیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ایک نصاب کا نعرہ پہلی بار بلند کیا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی مختلف حکومتیں یہ نعرہ لگا تی رہی ہیں مگر کما حقہ عملی اقدامات میں ایک آدھ آنچ کی کسر رہ گئی۔موجودہ حکومت نے اس حوالے سے عملی اقدامات کا آغاز کیا جن کا اظہار پرائمری سطح تک کے یکساں نصاب تعلیم کا خاکہ سامنے آجانے سے ہوا۔ اس عمل میں اس سوال کی اہمیت بنیادی تھی کہ 18 ویں ترمیم کے بعد ملک میں قومی سطح پر یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ کا مرحلہ کیونکر ممکن ہوپائے گا لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شاید اس جانب ایک سنجیدہ کوشش بتدریج ایک عملی سانچہ میں ڈھل رہی ہے۔
یکساں نصاب تعلیم کے سلسلے میں جب سرکاری سطح پر کوششیں جاری تھیں ، اس موقع پر بہت سارے سوالات زیر بحث تھے جو اپنی جگہ اہمیت رکھتے تھے۔مثلاً پرائیویٹ ادارے، دینی مدارس اور غیر ملکی تعلیمی نظام کے تحت کام کرنے والے ادارے اس پر کس رد عمل کا اظہار کریں گے اور انہیں اس پر امادہ کیسے کیا جائے گا۔ اب یہ مراحل بھی بہت حد تک طے پاچکے ہیں۔ لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے وسیع پیمانے پر جس دانشورانہ سرگرمی کی ضرورت تھی،اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے اس کا اہتمام کیا تاکہ اس حوالے سے موجود تمام ابہامات کو دور کیا جاسکے اور یکساں قومی نصاب تعلیم پر اتفاق رائے قائم ہوسکے نیز اس گرانقدرہدف کے حصول میں درپیش مشکلات و مسائل کا جائزہ لیا جا سکے۔
اس کانفرنس میں کی کل تین نشستیں منعقد ہوئیں۔ پہلی اور افتتاحی نشست میں وفاقی وزیر تعلیم جناب شفقت محمود نے صدارتی خطبہ پیش کیا۔ دوسری نشست میں ملک بھر سے آئے ہوئے ماہرین تعلیم اور قومی نصاب کمیٹی کے ذمہ داران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ تیسری نشست میں سیمینار کے مرکزی موضوع پر ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی، جس کی میزبانی معروف صحافی وکالم نگار جناب سلیم صافی نے کی۔اختتامی اجلاس میں سیمینار سے اخذ کی گئی سفارشات پیش کی گئیں ۔