جب مجھے قتل کی دھمکی دی گئی تب بھی میں نے کارروائی شروع نہیں کروائی، تو کیا عقل یہ بات مانتی ہے کہ کسی جعلی نمبر پلیٹوں والی گاڑی میں موجود نامعلوم افراد کو میں گرفتار کرنے کا کہوں گا؟ یا کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ پولیس زبانی کہنے پر ایسا کرے؟
دو افراد جن سے میں کبھی نہیں ملا، نہ ہی انھیں جانتا تھا، ایک گاڑی میں تھے جو قومی اسمبلی کے سامنے شاہراہِ دستورپر کھڑی تھی۔ گاڑی پر ایک بڑا انٹینا لگا ہوا تھا جو اس قسم کا تھا جس کی اجازت میرے خیال میں صرف مسلح افواج کی گاڑیوں کو ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے سامنے متعدد پولیس اہلکار موجود تھے، جیسا کہ ہمیشہ ہوتے ہیں، لیکن ان میں کسی نے بھی گاڑی کے ڈرائیور کو یہ نہیں کہا کہ گاڑی کو وہاں سے ہٹائے؛ شاہراہِ دستور پر اسمبلی کے سامنے گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ نہ ہی انھوں نے گاڑی کی رجسٹریشن یا ڈرائیور کے لائسنس کی تصدیق کی۔ میں نے گاڑی میں موجود لوگوں سے اپنی شناخت کرانے کا کہا لیکن انھوں نے جواب میں مجھ سے توہین آمیز انداز میں پوچھا کہ میں کون ہوں۔ میں نے انھیں کہا کہ میں ایک شہری اور ٹیکس دہندہ ہوں، اور یہ نہیں بتایا کہ میں ایک جج ہوں۔ میں کالی ٹائی یا کالے کوٹ میں نہیں تھا بلکہ نیلا جیکٹ پہنے ہوئے تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ لوگ اور ان کی گاڑی کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث نہ ہوں کیونکہ گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹس تھیں جن سے گاڑی کی ملکیت چھپائی گئی تھی۔ اس لیے میں نے اپنے موبائل فون سے گاڑی اور اس میں بیٹھے لوگوں کی تصویر لی۔
میں سپریم کورٹ کی طرف چل پڑا جہاں مجھے عدالت کی ذمہ داری ادا کرنے کےلیے بروقت پہنچنا تھا اور جعلی نمبر پلیٹوں والی وہی مشکوک گاڑی قومی اسمبلی میں داخل ہوئی، پھر وہاں سے نکلی اور اس میں سے ایک شخص اترا اور گندی گالیاں دیتا ہوا میری طرف بڑھا۔ میں نے اسے نظرانداز کیا، خاموش رہا اور سپریم کورٹ کی طرف چلتا رہا۔ اس کی تصدیق سی سی ٹی وی کیمروں سے کی جاسکتی ہے، الا یہ کہ عین اسی لمحے وہ کام کرنا ہی چھوڑ گئے ہوں یا ان کی ریکارڈنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا ایڈیٹنگ کی گئی ہو۔
جناب اکرم چیمہ (جنھیں اب میں جان گیا ہوں) قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور وفاقی وزیرِ اطلاعات جناب فواد چودھری (جو اس موقع پر موجود ہی نہیں تھے) نے یک طرفہ پریس کانفرنسز کیں اور کہانیاں گھڑیں۔ اس لیے اب میں مجبور ہوں کہ جواب دوں اور سچائی آشکارا کردوں کیونکہ بصورتِ دیگر میری خاموشی سے ان کی جھوٹی کہانیوں کو تقویت ملے گی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ میں نے گاڑی میں موجود افراد کی گرفتاری کا حکم دیا۔ میں نے ایسا نہیں کیا۔ تاہم ایک مشکوک گاڑی، جس کی نمبر پلیٹس بھی جعلی تھیں، کو حراست میں لیا جاسکتا ہے اور اس گاڑی کو بھی جس پر مطلوبہ کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز ادا نہ کیے گئے ہوں۔
دھونس، گالم گلوچ، جھوٹ اور پریس کانفرنسز سچ کے متبادل نہیں ہوسکتے۔ ان صاحب کےلیے زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ درج ذیل سوالات کے جواب دیتے:
1. گاڑی کس کی ملکیت ہے؟
2. گاڑی کی رجسٹریشن بک کہاں ہے؟
3. گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹس کیوں لگائی گئی تھیں؟
4. گاڑی پر بڑا انٹینا کیوں لگایا گیا تھا؟
5. گاڑی کون چلا رہا تھا اور کیا اس کے پاس لائسنس تھا؟
6. گاڑی کہاں ہے؟
7. وفاقی وزیر، جس نے قانون کی بالادستی کا حلف اٹھایا ہے اور جسے علم ہی نہیں تھا کہ ہوا کیا تھا، نے کیوں آگے بڑھ کر جعلی نمبر پلیٹوں والی مشکوک گاڑی کے مالک/ڈرائیور کو بھرپور مدد فراہم کی؟
8. وفاقی وزرا "قانون کے مطابق عمل کرنے” کا حلف اٹھاتے ہیں، تو پھر کیوں جناب فواد چودھری نے موٹر وہیکلز آرڈی نینس کی پابندی کروانے پر اصرار کرنے کے بجاے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی؟
تاہم ایسا لگتا ہے کہ بعض حلقوں کے نزدیک مجھے اور میرے خاندان کو نشانہ بنانا سچ کا متبادل ہے۔ برا بھلا کہنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب میں نے ایک فیصلہ لکھا جو بعض حلقوں کو گراں گزرا۔ انھوں نے لکھ کر دیا کہ مجھے جج کے طور پر کام نہ کرنے دیا جائے اور پھر فوراً ہی مجھے عہدے سے ہٹانے کےلیے ایک صدارتی ریفرنس دائر کردیا۔ سپریم کورٹ میں میری جانب سے جمع کرائی گئی تمام دستاویزات کو میڈیا میں دبادیا گیا جبکہ میرے خلاف بھرپور انداز میں پروپیگنڈا کیا گیا۔
عوامی سطح پر اپنی صفائی پیش کرنے کےلیے میں نے درخواست دی کہ عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کی جائے لیکن حکومت نے میری درخواست کی مخالفت کی۔ ریفرنس ناکام ہوا۔ اس کے بعد مجھے قتل کی دھمکی دی گئی جو ایک منبر سے نشر کی گئی لیکن متعلقہ حکومتی اہلکاروں نے معمول کے مطابق ایف آئی آر درج نہیں کی۔ میں نے اس معاملے کو نظرانداز کیا لیکن میری اہلیہ نہ کرسکیں۔ وہ اس جرم کی اطلاع دینے کےلیے خود پولیس کے پاس گئیں لیکن ایک وفاقی وزیر نے مداخلت کرکے اس کو درج نہیں ہونے دیا۔
اس کے بعد ایف آئی اے نے ایک کمزور ایف آئی آر درج کی مگر یہ بھی پانچ دن بعد، اور تاخیر کی وجہ شاید یہ تھی کہ نامزد ملزم جرم کا ثبوت ختم یا مٹاسکے۔ پولیس یا ایف آئی اے کی جانب سے ان سنگین الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ میری اہلیہ کا بیان ریکارڈ کیا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ انھیں شبہ ہے کہ مرزا شہزاد اکبر اور ملزم مرزا افتخار الدین کے درمیان کوئی تعلق ہے اور انھوں نے درخواست کی کہ تفتیش کرنے والے آئی ایس آئی سے بھی رابطہ کریں۔ اس جرم کا پھر کچھ نہیں سنا گیا۔
جب مجھے قتل کی دھمکی دی گئی تب بھی میں نے کارروائی شروع نہیں کروائی، تو کیا عقل یہ بات مانتی ہے کہ کسی جعلی نمبر پلیٹوں والی گاڑی میں موجود نامعلوم افراد کو میں گرفتار کرنے کا کہوں گا؟ یا کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ پولیس زبانی کہنے پر ایسا کرے؟
اسلام آباد میں پیدل جانے جیسا معمولی عمل بھی اب ایک بڑی آزمائش بن گیا ہے۔ سیکڑوں پولیس اہلکار ڈیوٹی پر ہوتے ہیں لیکن دار الحکومت کے اس علاقے میں جسے "ریڈ زون” قرار دیا گیا ہے جعلی نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں شاہراہِ دستور پر قومی اسمبلی کے سامنے کھڑی پائی جاتی ہیں۔ کیا قانون نافذ کرنے والے نظر پھیر لیتے ہیں جب وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی صاحبِ حیثیت شخص کی گاڑی ہے؟ میرے خلاف اور میرے خاندان کے خلاف آزمائے گئے ہتھکنڈے، مجھے جان سے مار دینے کی دھمکی اور خاندان اور مجھے دی جانے والی گالیاں مجھے پیدل جانے سے یا قانون کی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کرنے سے نہیں روک سکتیں۔ ہر شہری اور ٹیکس دہندہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون کی بالادستی یقینی بنائے۔ ہمارا ایمان بھی ہم سے غلط کاموں کی نشان دہی کا تقاضا کرتا ہے۔