ہم اصل میں جو معاشرہ قایم کرنا چاہتے تھے وہ فاقتلوہ معاشرہ تھا۔ مبارک ہو کہ وہ قایم ہوچکا ہے۔ کیا جرنیل اور کیا سویلین، کیا سیکولر اور کیا لبرل، کیا عالم اور کیا عامی، کیا استاد اور کیا شاگرد، کیا داعی اور کیا مدعو، کیا لکھاری اور کیا فنکار، کیا عوام اور کیا اشرافیہ— سبھی نے اس آئیڈیل معاشرے کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا۔ سب کو مبارک ہو کہ ان کا مطلوب و مقصود فاقتلوہ معاشرہ پورے آب وتاب سے ساتھ جلوہ گر ہے۔
ہمارے معاشرے کی اصل قدر فاقتلوہ ہے اور الزام، دشنام، اتہام، دوش، بہتان اور تہمت اصل میں اس عمومی قدر سے استثنائی صورتیں ہیں جس کا سہارا کمزور لوگ لیتے ہیں۔ آپ اکیلے ہیں یا کسی جھتے میں، بنیادی قدر یہ ہے کہ ایمان کی مضبوطی دکھا کر ہر مخالف کو تہ تیغ کیا جائے، سر تن سے جدا کیا جائے اور فاقتلوہ پیراڈایم کے ساتھ اپنی وابستگی اور وفاداری کا عہدوپیمان باندھا جائے۔ وفاداری کی یہ حلف برداری سربازار منعقد ہو۔ ہونہار طالب علم مشال خان ہو یا سری لنکن منیجر پریانتھا۔ فیکٹری ہو یونیورسٹی۔ سیالکوٹ ہو یا مردان۔ لاہور کے حافظ قرآن محمد اعظم ہو یا گورنر پنجاب سلمان تاثیر۔ جامعہ کراچی کے پروفیسر شکیل اوج ہو یا مردان کے ڈاکٹر فاروق خان۔ معاشرے کی ریت اور روایت ایک ہی ہے: فاقتلوہ۔
ایسا لگتا ہے کئی دہائیوں کی مسلسل تعلیم و تربیت کے بعد پورے معاشرے نے ایک اخلاقی پستی اور تہذیبی گھٹیا پن کو نہ صرف من عن اپنا لیا ہے بلکہ اس پر اجماع بھی کر لیا ہے۔ کوئی اعلانیہ اس اجماع میں حصہ دار ہے تو کوئی سکوتی طور پر۔ پس یہ اکثریت کا ایک شعوری اور ڈیموکریٹک فیصلہ ہے۔ معدودے چند کے پورا معاشرہ اس ڈیموکریٹک پروسس میں پوری طرح شریک ہے۔ معاشرے جب اجتماعی طور پر ایک روش اپنا لیتے ہیں پھر اس میں چند عالم، دانشور، لکھاری، مبلغ اور مدبر اقلیتی برادری کے مانند ہوتے ہیں۔ وہ چاہیں تو شہادت کے رتبے پر قایم ہوجائیں، ملک بدر ہوجائیں، یا پھر اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی نحیف آوازوں سے ہلکا ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش میں مگن رہیں، ہونا وہی ہے جو معاشرے کی اکثریت نے اپنے لیے نصب العین کے طور پر ایک متعین راستہ چن لیا ہے۔ وہ رستہ فاقتلوہ کا ہے۔ آج سری لنکن منیجر پریانتھا کی باری تھی، کل مشال خان اور سلمان تاثیر۔ انے والا کل کسی کی بھی باری لگ سکتی ہے۔