تقریباً 40 سال پہلے میں کراچی بار ایسوسی ایشن کا ممبر بنا۔ ملک اور بیرونِ ملک میں مجھے تقریر کےلیے اور کبھی مہمانِ خصوصی کے طور دعوت دی گئی مگر آپ کی طرف سے خاموشی رہی۔ یقیناً آپ کے معیار پر پورا اترنا آسان نہیں تھا۔ یہاں پہنچتے پہنچتے 4 دہائیاں بِیت گئیں۔ کہاجاتا ہے: دیر آید، درست آید۔ امید ہے کہ آپ اس کی نفی نہیں کریں گے۔
سب سے پہلے میں انھیں یاد کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آئینِ پاکستان کے دفاع میں اور اس کے محافظ بن کر سب سے بڑی قربانی ادا کی۔ یہ بہادر اور نڈر اَشخاص اس معزز ایسوسی ایشن کے ممبران تھے۔ جناب راجا محمد ریاض ، جناب پرویز اختر کیانی، جناب شہریار شیری، جناب الطاف عباسی ، آپ کی بہادری کو سلام۔ میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ آپ ان شہیدوں کی یاد میں چند لمحوں کےلیے کھڑے ہوں اور دل میں ان کےلیے دعا کریں۔
صحیح کہا جاتا ہے کہ بہادر کی ایک دن کی زندگی ڈرپوک کی برسوں کی زندگی سے بہتر ہے۔ ان جان نثاروں کے ہاتھ میں آئین اور قلم تھا، دل میں سچائی اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی محبت، جبکہ ان کے مخالفین کے ہاتھوں میں ہتھیارتھے، اور دل میں بغض ، جس کی وجہ سے انھوں نے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کی۔
خواتین و حضرات، اسی کچہری کے سایہ دار درختوں کے نیچے میں نے چائے کی بے شمار پیالیاں پی ہیں اور بھنے ہوئے چنے اور مونگ پھلیاں کھائی ہیں۔ یقین کیجیے کہ بالٹی میں چنگاریوں کی تپش میں بھنے ہوئے چنے اور مونگ پھلیوں کی طرح عمدہ اور لذیذ مونگ پھلیاں اور چنے میں نے کہیں اور نہیں پائے۔ جب دوستوں کے درمیان ہوتے ہیں تو پھر اچھی یادوں کے ساتھ کچھ ناخوشگوار باتیں بھی ذکر کی جاسکتی ہیں۔ چنے اور مونگ پھلیاں تو بے مثال تھیں لیکن بیت الخلا کا بھی کوئی جواب نہیں تھا! مگر اس سے بھی میں نے ایک سبق حاصل کیا۔انصاف کی گاڑی آہستہ چلتی ہے اور سائلین اور وکلا کو بار بار آنا پڑتا ہے تو ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ جب مجھے چیف جسٹس بلوچستان کی ذمہ داری دی گئی تو میں نے پہلے کچہری میں اور پھر دوسری عدالتوں میں وکیلوں اور سائلین کےلیے بیت الخلا کی صفائی ، بیٹھنے کی جگہ اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی۔
کائنات پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے ہی عوام کی امنگوں کی عکاسی کرسکتے ہیں۔
اب کچھ آئین اور قانون کی بات ہوجائے۔ کسی کےلیے بہت زیادہ پڑھنا مشکل ہو، تو وہ صرف آئین کا دیباچہ ہی پڑھ لیں – کائنات پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے ہی عوام کی امنگوں کی عکاسی کرسکتے ہیں۔ اس دیباچے میں ہی عوام کے بنیادی حقوق کا بھی ذکر ہے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ پر ڈالی گئی ہے، اور یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب عدالتیں آزادانہ فیصلے کریں اور عدالتی نظام انتظامیہ سے الگ رہے۔نفرت اور مارنے اور جلانے کا عمل کبھی کامیابی تک نہیں پہنچاسکتا۔اگر آپ دوسروں کو اپنے نظریے یا سوچ پر قائل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تشدد کی ضرورت نہیں۔ سچ کی روشنی ہی کافی ہوتی ہے – نہ کسی سے نفرت، نہ ہی کسی کو مارنےیا جلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ علم، قلم اور سچے دلائل خوش اسلوبی سے بیان کرنا کافی ہوتا ہے۔ یہی رحمت للعالمین ﷺ کا پیغام بھی ہے۔ رسول اللہ نے نہ صرف ایسا کہا، بلکہ عملی طور پر کرکے بھی دکھایا۔ رسول اللہ کو برا بھلا کہا گیا، آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا، مگر جب ایک دن ایسا نہیں ہوا تو آپ دریافت کرنے گئے اور آپ کے حسنِ سلوک پر اس بوڑھی عورت نے اسلام قبول کرلیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے قائد کا بھی یہی طریقِ کار تھا۔ایک طرف برطانوی حکمران اور ان کے اس وقت کے جدید ترین ہتھیار، اور دوسری طرف برصغیر کی سب سے بڑی اور منظم جماعت، مگر آزادی حاصل کرنے اور پاکستان کے قیام کےلیے اسی شہر کے ایک بیٹے نے، جو برصغیر کا سب سے کامیاب ترین وکیل بنا، اپنے قلم اور دلائل کے ذریعے ہتھیار وں سے لیس طاقتور فریق اور برصغیر کی سب سے بڑی جماعت کو شکست دی اور دنیا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک وجود میں آگیا۔ مگر جب جمہوریت کا دامن چھوٹ گیا اور آئین شکنی کی گئی تو ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔
راجا محمد ریاض شہید کوئی امیر شخص نہیں تھے، نہ ہی کوئی بڑے لیڈر۔ وہ صرف آئین کے محافظ تھے۔ ایک دن انھیں "لچا لفنگا” کہا گیا اور دوسرے ہی دن ان کے سر میں پستول کی گولی اتار دی گئی اور بزدل قاتل فرار ہوگئے۔ راجا محمد ریاض شہید کا نام ہمیں معلوم ہے، ہمیں یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گا، مگر قاتل آج تک جھوٹ کے پردے میں چھپے ہوئے ہیں۔ الطاف عباسی شہیداور ہمارے دیگر شہید دوستوں کا نام بلند ہے؛ نہ صرف اس دنیا میں، بلکہ آخرت میں بھی،جہاں وہ شہیدوں کی صفوں میں پائے جائیں گے۔
انسانوں کو جلانے والے یاد رکھیں کہ تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ قرآن شریف میں سورۃ المآئدۃ (5) آیت 32 میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کے قتل کو تمام انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا ہے ۔ اس آیت میں مسلمان کا نہیں، بلکہ انسان کا ذکر ہے ، یعنی اس لحاظ سے سب انسانوں کا درجہ برابر ہے، خواہ وہ غیرمسلم ہوں یا مسلمان۔ قرآن شریف میں ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ کا مقام عطا کیا ہے اور اس مقام کے ساتھ خلیفہ کی ذمہ داریاں بھی عائد کی ہیں۔ حالتِ جنگ میں بھی کسی کو جلا کر مارا نہیں جاسکتا (سنن ابو داود، کتاب الجہاد)۔ نہ صرف کسی انسان کو، بلکہ چیونٹی کی آبادی تک کو جلانے کی ممانعت ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ چیونٹیوں کے گھر کو کسی نے آگ لگائی تھی۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کس نے کیا ہے؟ بعض صحابہ نے کہا کہ ہم نے، تو آپ نے اسے غلط قرار دیا اور اس فعل کی ممانعت کی(سنن ابو داود، کتاب الجہاد)۔ تو جب چیونٹی جیسی بظاہر حقیر ترین چیز پربھی اس ظلم کی ممانعت ہے تو انسان جو احسن تقویم ہے اور جسے خلیفہ کا مقام دیا گیا ہے، جب اس پر ایسا ظلم ڈھایا جائے تو اندازہ کیجیے کہ ان ظالموں سے اللہ تعالیٰ کیسا حساب لیں گے۔
وکیل اور جج کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے سچ تک رسائی۔ جتنا قابل وکیل ہوگا اور جتنا باصلاحیت جج ہوگا، اتنا ہی اس ہدف تک پہنچنا آسان ہوگا۔ اور جب وکیل اور جج اس ہدف تک پہنچتے ہیں تو وکیل عدالت کے کمرے سے اس اطمینان کے ساتھ باہر جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے پیشے کا حق ادا کیا اور جج بھی مطمئن ہوتے ہیں۔ اس سے مجھے یاد آیا کہ جب ایک وفد حضرت عمر فاروق (اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو)سے ملنے آیا تو وفد کے افراد انھیں تلاش نہیں کرپائے۔ انھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ خلیفۂ وقت کا محل کہاں ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ ان کا کوئی محل نہیں ہے اور شاید وہ کسی درخت کے نیچے موجود ہوں گے۔ وفد نے جا کر دیکھا، تو انھیں درخت کے نیچے ہی سوتے پایا، اور معلومات حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے، اور کہا: حَکَمتَ، فَعَدَلت، فَاَمِنتَ، فَنِمتَ، یعنی آپ نے حکمت سے قانون کے مطابق فیصلہ کیا، فیصلے کے بعد آپ پرسکون ہوگئے، تو آرام سے سوگئے۔ جب ہم سب مشترکہ طور پر آئین پر عمل پیرا ہوں گے اور قانون کی پاسداری کریں گے، تو ہم بھی ایک پرسکون قوم ہوں گے جسے یہ اطمینان ہوگا کہ اس قوم کے ہاتھوں کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی گئی جو اسے اس دنیا میں پریشان اور آخرت میں سرگرداں رکھے۔