چند روز قبل سعودی عرب کی طر ف سے تبلیغی جماعت پر پابندی کے حوالے سے ایک ٹویٹ سامنے آئی جس میں تبلیغ کو دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں سعودی عرب کے ڈاکٹر عبداللطیف آل شیخ نے اپنی ایک ٹویٹ میں مساجد کے ائمہ و خطبا کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دروس وخطبات میں افریقہ کے ایک "الاحباب ” نامی گروہ کی سرگرمیوں بارے عوام کو آگاہ کریں۔ ڈاکٹر عبداللطیف آل شیخ نے اپنی دیگر ٹویٹس میں اس گروہ کی اسلام مخالف اور گمراہانہ سرگرمیوں کے حوالے سے بھی بات کی۔
سعودی عرب کی طرف سے سامنے آنے والی ٹویٹس اور بیانات میں کہیں بھی تبلیغی جماعت کا نام سامنے نہیں آیا مگر پاکستان و ہندوستان کے مختلف مذہبی گروہ یہ تاثر دیتے سامنے آرہے ہیں کہ ” الاحباب” نامی گروہ سے مراد تبلیغی جماعت ہے اور سعودی عرب نے تبلیغی جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔
تبلیغی جماعت برصغیر میں موجود مختلف مسلم مکاتب مفکر میں سے ایک اہم مکتبہ فکر دیوبند کی ایک بڑی جماعت ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں اسلام کی دعوت کو عام کرنا بیان کیا جاتا ہے۔ بھارت میں نئی دہلی کی ایک بستی نظام الدین جبکہ پاکستان میں لاہور کے قریب رائیونڈ کو اس کا مرکز قرار دیاجاتا ہے۔ 180 سے زائد ممالک میں کام کرنے والی تبلیغی جماعت پر نگاہ رکھنے والے محققین کا کہنا ہے سعودی عرب میں کبھی بھی اس جماعت کو تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھا گیا۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں کسی بھی مذہبی و سیاسی جماعت کو بطور جماعت کام کرنے کی قانوناًاجازت نہیں ہے۔
حالیہ دنوں میں لگائی گئی پابندی کو کچھ لوگ سعودی عرب میں سلفی نقطہ نظر رکھنے والے لوگوں کے ساتھ موجود اختلافات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ متعدد محققین اور صحافیوں نے اس پابندی کا سبب سلفی دیوبندی فقہی اختلافات کو بیان کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگوں کی طرف سے سعودی وزیر کی ٹویٹس پر رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ خود دارالعلوم دیوبند نے سعودی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے مختلف علماء نے بھی سعودی عرب کے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ سید سلیمان حسنی ندوی نے اپنی ایک گفتگو میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے مفتی محمد تقی عثمانی پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے خطابات میں اس بات کو اہمیت دیں مگر خلاف معمول اس دفعہ مفتی محمد تقی عثمانی اس حوالے سے نہ صرف خاموش رہے ہیں اور سعودی عرب کے اس اقدام پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے بلکہ آج انہوں نے ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے میں سعودی سفیر نواف المالکی سے ملاقات بھی کی ہے۔ ملاقات میں مفتی محمد تقی عثمانی نے سعودی وزیر ڈاکٹر عبداللطیف آل شیخ کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغی جماعت دنیا میں اسلام کی دعوت کو عام کرنے کا فریضہ انجام دینے والی واحد جماعت ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق مفتی محمد تقی عثمانی نے سعودی سفیر نواف المالکی کو تبلیغی مرکز رائیونڈ کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے ہمراہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری ، جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر طلحہ محمود، مسلم لیگ (ق) کے رہنمااور پنجاب میں صوبائی وزیر معدنیات حافظ عمار یاسر نے بھی سعودی سفیر سے ملاقات کی۔
اگر اس بات کو درست مان لیا جائے، جیسا کہ اصرار کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب میں لگائی جانے والی پابندیوں کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کو تبلیغی جماعت کی پرامن سرگرمیوں کو بند کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
جامعۃ الرشید کراچی کے بانی و سربراہ مفتی عبدالرحیم نے اس سوال کو موضوع بحث بنایا ہے۔ مفتی عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں اس پابندی کی وجہ تبلیغی جماعت میں پایا جانے والا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف” شوریٰ اور امیر” کے اختلاف سے مشہور ہے جس میں ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ پوری جماعت کو امیر کی اطاعت کرنی چاہیے جبکہ دوسرے دھڑے کا کہنا ہے کہ جماعت کو شورائی نظام کا پابند ہونا چاہیے۔یہ اختلاف بنیادی طور پر بھارت میں مولانا سعد کے امیر بن جانے کی وجہ سے سامنے آیا تھا کیونکہ مولانا سعد اس وقت امیر بن گئے جب جماعت میں مولانا سعد سے عمر میں بڑے علماء اور سکالر موجود تھے۔ مولانا سعد تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے پڑپوتے ہیں اور نئی دلی کے قریب نظام الدین میں رہتے ہیں۔ مولانا سعد سے عمر میں بڑے لوگوں نے مولانا سعد کی امارت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور امیر کو تبدیل کرنے کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں پہلے بھارت میں تبلیغی جماعت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی، پھر اس کے اثرات دنیا بھر میں نظر آنے لگے۔ اس تقسیم کا اثر پاکستان میں بھی پہنچا ہے اور تبلیغی جماعت کے بہت سارے لوگ جو مولانا سعد کے حامی ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو رائیونڈ مرکز اور اسکی سرگرمیوں سے الگ کرلیا ہے۔
مفتی عبدالرحیم کے مطابق سعودی عرب میں لگائی جانے والی پابندی کا تعلق اس تقسیم سے ہے۔ مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ بڑی حکمت عملی کے تحت سعودی حکام کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ محض تقسیم کی بنیاد پر اسلام کی دعوت عام کرنے کے فریضے پر پابندی نہ لگائی جائے مگر یہ بات مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ سعودی حکومت اپنے قوانین کی پابندی کو ہر سطح پر لاگو کر نا ضروری سمجھتی ہے۔