امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں انسانیت کو جس بحران کا سامنا ہے، اس کا پائیدار حل نکالنے کے لیے آج اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم OIC کا17 واں وزرائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس پارلیمان میں جاری ہے۔یہ اجلاس سعودی عرب کی خصوصی دعوت پر طلب کیا گیا ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کا موجودہ چیئرمین بھی ہے جبکہ پاکستان اس اجلاس کا میزبان ہے۔ ا جلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک کے 22 وزرائے خارجہ10 نائب وزرائے خارجہ اور مبصرین کے علاوہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی ادارے، امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس، جرمنی، جاپان اور اٹلی کے مندوبین بھی شامل ہیں۔
OICکا قیام 1969 میں مسجد اقصیٰ میں موجود 8 سوسال پرانے ایک منبر کو جلانے کے واقعہ کے نتیجہ میں سامنے آیا تھا۔ فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی کی اپیل پر مراکش کے شہر رباط میں 25 ستمبر 1969 کو 24 اسلامی ممالک کے سربراہان کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک قرارداد منظور کی گئی کہ مسلم ممالک آئندہ اپنے اقتصادی، سائنسی، ثقافتی اور روحانی شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے لیے باہمی صلاح مشورے کا اہتمام کریں گے۔ یہ قرار داد اسلامی تعاون تنظیم OIC کے قیام کا نقطہ آغاز بنی۔
OIC سے پہلے مسلمانوں کی باہمی مشاورت کے لیے موتمر عالم اسلامی کے نام سے ایک تنظیم موجود تھی سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد وجود میں آئی تھی۔ 1931 بیت المقدس میں موتمر عالم اسلامی کے پہلے انتخابات ہوئے جس میں مفتی اعظم فسلطین کو موتمر کا پہلا صدر ، ایشیا سے علامہ محمد اقبال کو نائب صدر جبکہ ایران سے ڈاکٹر ضیاء الدین طباطبائی کو سیکرٹری جنرل چنا گیا تھا۔ موتمر کی پہلی مجلس عاملہ میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے۔
موتمر عالم اسلامی میں علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر، ضیاء الدین طباطبائی جیسے لوگوں کی موجودگی اور پھر بعد میں رابطہ عالم اسلامی یا اسلامی تعاون تنظیم میں بھی مسلم مفکرین ڈاکٹر فضل الرحمٰن، مولانا مودودی اور دیگر ایسی شخصیات کی موجودگی اس بات کا اظہار ہے کہ ابتدائی طور پر مسلم ممالک کے سربراہان کی یہ خواہش رہی کہ ان تنظیموں کا فعال کردار سامنے آئے ۔ رفتہ رفتہ یہ بات ختم ہوگئی اور اب صرف وزرائے خارجہ اور سربراہان مملکت کی سطح پر اجتماع ہوتے ہیں جو صرف کھانے ،پینے اور گپ شپ سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
اجلاس کے آغاز میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی گفتگو میں مسئلہ افغانستان کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ 41 سال پہلے جب اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان میں ہوا تو بھی موضوع افغانستان اور آج بھی موضوع افغانستان ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ پر زور دیتے ہوئے کہ اسے افغان عوام اور طالبان حکومت میں فرق کرنا چاہیے اور طالبان کو بھی چاہیے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے جامع حکومت بنانے اور خواتین کو مکمل حقوق فراہم کرنے کے وعدے پورے کریں ۔ عمران خان نے افغان عوام کی مدد کرنے کو اسلامی تعاون تنظیم کا مذہبی فریضہ قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان 30 لاکھ افغان مہاجرین کا میزبان ہے جن میں سے دولاکھ ایسے افراد ہیں جو افغان ویزے ختم ہوجانے کے باوجود واپس نہیں لوٹ سکے۔ موجودہ صورت حال سے لگتا ہے کہ شاید یہ کبھی واپس نہ جاسکیں۔ ان حالات میں اگر طالبان حکومت کو استحکام نہیں ملتا اور وہاں خانہ جنگی یا افراتفری کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو ہوگا ۔ غیرمستحکم افغانستان کسی بھی ملک کے لیے مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔
اجلاس میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود خصوصی طور پر شریک ہیں۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے افغانستان میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردی کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری کا تعاون ضروری ہے۔شہزادہ فیصل کا کہنا تھا کہ افغانستان میں معاشی مشکلات انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہیں اور مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں جس سے علاقائی اور بین الاقوامی امن متاثر ہوسکتا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغان عوام کو ضروری مدد فراہم کرنے اور ملک میں معاشی تباہی کو روکنے کے لیے کردار ادا کریں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے ڈائریکٹر جنرل رابرٹ ماردینی بھی اسلام آباد میں جاری اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک ہیں۔ انہوں نے ایک نجی نیوز ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کو خطرناک معاشی تباہی سے دوچار قرار دیا ہے۔
افغانستان کے زرمبادلہ کے ذخائر امریکہ نے منجمد کررکھے ہیں جبکہ طالبان کی آمد کے بعد مالی امداد کا سلسلہ بھی رک گیا ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق افغانستان کو جہاں مہنگائی کا سامنا ہے، غزائی قلت کا کہیں زیادہ سامنا ہے۔
اسلام آباد میں جاری اسلامی تعاون تنظیم کا یہ اجلاس بظاہر افغانستان میں جاری انسانی بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم مسئلہ فلسطین سے لیکر مسئلہ کشمیر تک کسی بھی مسئلہ کے حل میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کرسکی مگر آج اسلام آباد میں پاکستانی پارلیمان میں جاری اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہے، جس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ کے نمائندے بھی شریک ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم میں موجود طالبان حکومت کا وفد آج دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرے گا۔ امید کی جارہی ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم بالخصوص سعودی عرب اور پاکستان عالمی دنیا کو افغانستان میں جاری انسانی بحران کے خاتمے میں مدد فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔