وسعت اللہ خان
پہلے انھوں نے پورے براعظم پر ڈاکہ ڈالا، پھر افریقہ سے غلام اغوا کیے، پھر ان کی محنت چرا کے تجوریاں بھریں، پھر اس دولت سے کشید ہونے والی اندھی معاشی و عسکری طاقت کے بل پر ممالک خریدنے لگے اور معزز نمبر ون کہلانے لگے۔ اب اوقات پستی کی اس سطح پر آ گئی ہے کہ کمزور ترینوں کی امانتیں بھی ہڑپ کرنے پر اتر آئے ہیں۔
ایسے تو کوئی گھٹیا رسہ گیر بھی نہیں کرتا، تیسرے درجے کا جیب کترا بھی کسی کسی ہدف کے مفلوک الحال چہرے پر ترس کھا کر جیب میں کچھ سکے رہنے دیتا ہے۔ اتنے نوٹ تو بائی جی کا سازندہ بھی آس پاس کے بچوں کی دزدیدہ نگاہوں کے خیال سے مجرئی فرش سے نہیں اٹھاتا۔اتنے قطرے تو کوئی کنگلا شرابی بھی جام میں چھوڑ کر اٹھ جاتا ہے۔ اتنے پیسے تو کوئی قرض میں جکڑا انسان بھی کسی کشکول میں ڈال دیتا ہے۔ اتنی خیرات تو ایک بھکاری دوسرے کو ویسے ہی دے دیتا ہے۔
پر جو کچھ میں نے سنا اور پڑھا، اس کے بعد سے اردو زبان کی کم مائیگی کو یہ سوچتے ہوئے کوس رہا ہوں کہ کاش اس حرکت کو بیان کرنے کے لیے گھٹیا، کفن چور، ڈاکو، رہزن، رسہ گیر سے بڑا بھی کوئی لفظ ہوتا جس کے استعمال سے تھوڑی بہت لسانی تشفی ہو جاتی۔کم بخت کوئی گالی بھی ایسی حرکت کا احاطہ کرنے سے معذرت کر رہی ہے۔
ہم تو پچھلوں کو روتے تھے۔ یہ والا تو ان سے بھی بڑا نکلا۔اس نے تو امداد کے نام پر اپنے ہی دیے ہوئے، اپنے ہی بینکوں میں بطور امانت منجمد سات ارب ڈالر میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر نائن الیون کے متاثرین کو ہرجانہ دینے کے سلسلے میں ایک فیڈرل جج کے دس برس پرانے فیصلے کو بطور برگِ انجیر (فگ لیف) اپنا ننگ پن چھپانے کے لیے اور باقی آدھی رقم اصل مالکوں پر خرچ کرنے کی نوید سنا کر اپنے تئیں ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں حاتم طائی کی قبر توپ دم کر دی۔
جس ملک کی امانت چرائی گئی اس کا کوئی بھی شہری نائن الیون کے ہائی جیکرز میں شامل نہیں تھا۔ اس ملک کی آدھی آبادی نائن الیون کے بعد پیدا ہوئی کہ جن میں سے بہت سوں کے والدین اب دو وقت کی روٹی کے لیے گردے خریدنے والوں کا سب سے بڑا عالمی شکار ہیں۔نائن الیون کے سب سے زیادہ متاثرین افغانستان میں رہتے ہیں۔ اگر وہ ہرجانہ وصول کرنے کے قابل ہوتے تو آج ہر امریکی اپنے گردے بیچ رہا ہوتا۔نائن الیون ہائی جیکنگ میں جن افراد نے براہ راست حصہ لیا یا بلاواسطہ اعانت کی، ان میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔
اگر نائن الیون کے متاثرین کو ازالاتی ہرجانا دلوانا ہی تھا تو سب سے موزوں ملک سعودی عرب ہی تھا کہ جس نے امریکہ میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر کس امریکی انتظامیہ کے بوتے میں اتنا دم ہے کہ سعودیوں سے ہرجانے کی ہ ہی وصول کر پائے حالانکہ سعودی عرب آج بھی پانچ افغانستان سالم خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔اس وقت افغان عوام کی ہنگامی مدد کے بجائے اور ان کی منجمد رقم میں اوپر سے پیسہ ڈالنے کے بجائے ان کی امانت پر سیند لگانا کسی لاش کی کلائی سے گھڑی اور بے جان پیروں سے جوتے اتار کے بھاگنے جیسا ہے۔کوئی فرد یا ادارہ یہ حرکت کرتا تو شاید صبر آ جاتا مگر 80 سالہ عزت مآب نے اس ایک حرکت سے جس طرح خود کو ذلت مآب میں تبدیل کر لیا ہے، اس پر حیرانی بھی انگشت بدنداں ہے۔
نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہیں پایا
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا ( میاں محمد بخش )