کالا تو خیر باہر سے ہی کالا ہے مگر بہت سے گورے ایسے بھی ہیں کہ ان کی کھال ذرا سی بھی کھرچو تو اندر سے سیاہی ٹپکنے لگتی ہے۔
جیسے یوکرین پر روسی جارحیت کی صرف مذمت کافی نہیں۔ اسے ناجائز ثابت کرنے کے لیے ’مہذبانِ اکیسویں صدی‘ کو اپنے اندر کا سولہویں، سترہویں، اٹھارویں اور انیسویں صدی کا وہ ’رنگ نواز سامراجی‘ بھی جگانا پڑ گیا جو آج تک غیر یورپیوں کو اپنے کاندھے کا بوجھ سمجھ رہا ہے۔جو آج تک بزعمِ خود وہ بڑھیا بنا بیٹھا ہے کہ جو اپنا اذانی مرغا بغل میں داب کے گاؤں (گلوبل ولیج) سے نکل جائے تو صبح کا سورج ہی نہیں نکلے گا۔
یہی گورے بدھی جیوی یوکرین پر روسی جارحیت کی مذمت کا ایک جواز یہ بھی بتا رہے ہیں کہ سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں اور سیب جیسے سرخ گالوں والی قوم اپنے ہی جیسی کسی دوسری قوم کو آخر اکیسویں صدی میں کیسے کھلم کھلا نشانہ بنا سکتی ہے۔ گویا یورپ نہ ہو بلکہ افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا جیسی ’غیر مہذب دنیا‘ ہو۔ہائے یہ دانشور اور سینئر تجزیہ کار کہ جن کی یادداشت اس قدر منتخب ہے کہ انھیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ابھی کل کی ہی تو بات ہے جب سربرے نیتزا کے قاتل میدانوں میں گورے سرب گورے بوسنیائی لوگوں کو اجتماعی قبروں میں پھینک رہے تھے۔مگر مقتول شاید عظیم یورپی مسیحی تہذیب کے لیے اجنبی مسلم ترک تہذیب کے وارث تھے اس لیے انھیں بھول جانا تو بنتا ہے۔
ابھی پرسوں ہی کی تو بات ہے کہ سرخ بالوں اور نیلی آنکھوں والے نازی یورپ کے ہر ملک میں اپنے ہی جیسے گورے چٹوں کو میدانِ جنگ میں مار رہے تھے اور حراستی مراکز میں دھکیل رہے تھے۔
گورے نازیوں کے ہاتھوں مرنے والوں میں دو کروڑ گورے روسی، یوکرینی اور بیلا روسی بھی تو تھے۔ مگر ہمیں یاد صرف یہ کروایا جاتا ہے کہ 60 لاکھ یہودی اور چند لاکھ جپسی اور کیمونسٹ گیس چیمبر کا رزق ہوئے۔دکھ یہ نہیں کہ پوتن بھی مسولینی، صدام اور بش کی طرح کمزور پر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ گورا پوتن گورے یوکرین پر کیسے ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔پوتن بھلے کیسا ہی نامعقول سہی مگر اس کی ایک دلیل تو بہرحال وزنی ہے۔ یعنی اگر یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا لیا جاتا ہے اور وہاں نیٹو کے ایٹمی میزائل نصب ہو جاتے ہیں تو اس پر روس کو ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، تو کیا روس کو بھی حق ہے کہ وہ میکسیکو، نکاراگوا، وینزویلا یا کیوبا میں ایٹمی میزائل نصب کر سکے؟
یہ سب ممالک بھلے امریکہ کے دیوار جوڑ یا گلی کے ہمسائے سہی مگر ایک آزاد ریاست کے طور پر ان کا بھی تو حق ہے کہ جس سپر پاور سے چاہیں جیسے بھی تعلقات رکھیں۔ہائے ہائے، یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کا پرزور حمایتی وہ ملک ہے جس نے 1962 میں کیوبا میں سوویت میزائل نصب کرنے کی کوشش پر تیسری عالمی جنگ چھڑ جانے کی دھمکی دی تھی۔ نکیتا خروشیف کو کیوبا سے اس لیے میزائل ہٹانے پڑ گئے کیونکہ کیوبا اس روایتی امریکی جغرافیائی حلقہِ اثر میں آتا ہے جہاں پچھلے 200 برس سے کسی بھی غیر امریکی طاقت کی ذرا سی بھی عسکری سرگرمی کو وائٹ ہاؤس اپنی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتا ہے۔
اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان۔ پاکستان جیسے ممالک کو بعینہ یہی چیلنج درپیش ہے۔ جب پاکستان سیٹو اور سینٹو میں شامل تھا تو امریکہ کی جانب دیکھتا تھا کہ کس کا ساتھ دینا ہے اور کس کی مذمت کرنی ہے۔ اب وہ چین کی جانب دیکھتا ہے کہ کس کا ساتھ دینا ہے اور کس کی مذمت کرنی ہے۔بین الاقوامی قوانین کی پاسداری، حرمت اور دوسروں سے عمل کروانے کا مطالبہ اپنی جگہ مگر یہ بھی تو دیکھنا پڑتا ہے کہ مال پانی کہاں سے آ رہا ہے، کون جارح اپنا ہے اور کون مظلوم غیر ہے۔
افغانستان کے خلاف پہلے روسی اور پھر امریکی نیٹوئی جارحیت، عراق کے خلاف امریکی و اتحادی جارحیت اور یمن پر سعودی و دیگر کی جارحیت۔بظاہر آپ کو یہ واقعات ہارورڈ لا سکول کے بین الاقوامی قانون کے کلاس روم میں یکساں کیس سٹڈی محسوس ہوں گے مگر ہر اصولی کیس سٹڈی میں یہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے کہ وقت اور مفاد کا جھکاؤ کس طرف ہے۔پرانے بزرگ اس عمل کو بے غیرتی کہتے تھے۔ آج کل عملیت پسندی کہا جاتا ہے۔