چوبیس فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا اور دو روز بعد اسرائیلی ائرلائن ایل آل کی دو خصوصی پروازوں کے ذریعے ڈھائی سو یوکرینی یہودی پناہ گزیں تل ابیب کے بن گوریان بین الاقوامی ائرپورٹ پر اترے۔ باقی ممالک نے یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھولے مگر اسرائیل نے صرف یہودی پناہ گزینوں کو ”آبائی وطن“ میں آ کر بسنے کی دعوت دی ہے۔ انھیں اب نیا گھر ملے گا۔ ہو سکتا ہے، ممکن ہے، کسی ایسے فلسطینی کا گھر جو حال ہی میں زبردستی خالی کرایا گیا ہو۔یعنی نسلوں سے آباد جبری دربدر کے گھر میں ایک تازہ نووارد بسایا جائے گا۔ اس نووارد کو چھت کے علاوہ امدادی رقم، ملازمتی مواقعے، مسلح سیکیورٹی، شہریت، پاسپورٹ، بچوں کے لیے اچھی تعلیم اور صحت کی سہولتیں چند دنوں میں ہی فراہم ہو جائیں گی، اور پھر یہ نووارد اسرائیل کا ایک وفادار آبادکار شہری بن کر فلسطینیوں کو ہر طرح سے کچلنے والے ریاستی ڈھانچے کا حصہ بن جائے گا۔
دوسری جانب میں ہوں جس کے دادا کو اس کے آبائی گھر سے نکالا گیا۔ جس کا باپ بھی پناہ گزیں ہے، اور اس باپ کے ہاں میری پیدائش بھی ایک مہاجر کیمپ میں ہوئی۔ مگر میں اپنے آبائی گھر نہیں لوٹ سکتا۔ میں کسی ملک کا شہری نہیں ہوں، اس لیے میرا پاسپورٹ بھی نہیں، بس رہگزاری یا عارضی قیام کا اجازت نامہ ہے۔ میں نے یا میرے باپ یا اس کے باپ نے کسی کو نہیں مارا۔ تب بھی لگ بھگ سات عشروں پہلے کچھ جرائم پیشہ لوگوں نے میری زمین پر قبضہ کر کے میری آنے والی نسلوں کو بھی تاحیات سزا پناہ گزینی سنا دی اور باقی دنیا نے بھی اس سزا کو من و عن تسلیم کر لیا۔ اب میرے گھر یا زمین پر وہ یوکرینی یہودی خاندان بھی بس جائے گا جس نے بس دو دن کی بے گھری دیکھی اور تیسرے دن مستقل پناہ مل گئی۔ ( محمد ابو شکر )
انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین کیا ٹوٹا، اسرائیل کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اسے مختلف سوویت ریاستوں میں آباد دس لاکھ سے زائد یہودی باشندے مل گئے جنھیں دھڑا دھڑ مقبوضہ فلسطینی اراضی پر ابھرنے والی تازہ بستیوں میں آباد کیا گیا تاکہ نہ صرف زمینی حقائق مزید تبدیل ہو جائیں بلکہ آبادی کا پلڑا ذرا سا اور اسرائیلی یہودیوں کے حق میں جھک جائے۔سوویت یہودیوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی کے بعد اسرائیل میں کوئی بڑی ہجرتی لہر نہیں آئی مگر اب یوکرین میں آباد دو لاکھ یہودی باشندوں کو راغب کرنے کے لیے یوکرین سے متصل چار ممالک ( پولینڈ، مالدووا، رومانیہ، ہنگری ) کی سرحد پر اسرائیل نواز یہودی فلاحی تنظیموں نے چھ استقبالیہ کیمپ قائم کیے ہیں۔
وہاں اسرائیل منتقل ہونے کے خواہش مند پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے اور پھر خصوصی پروازوں کے ذریعے تل ابیب روانہ کیا جاتا ہے جہاں ان کی عارضی رہائش کا پیشگی بندوبست ہے تاوقتیکہ مستقل ٹھکانے کا انتظام نہ ہو جائے۔ نئے ہجرتیوں کی دلجوئی کے لیے اسرائیل میں پہلے سے ہی یوکرینی یہودیوں کی اچھی خاصی برادری موجود ہے۔ زیادہ تر نوے کی دہائی میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ہی یہاں منتقل ہوئے۔
اندازہ ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں دس ہزار یوکرینی یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا جائے گا۔ روس کے یوکرین پر حملے کے دو روز بعد اسرائیل کے وزیر آبادکاری نے یوکرینی یہودیوں کو دعوت دی کہ ”وہ جلد از جلد اپنے مستقل گھر یعنی اسرائیل واپسی کے بارے میں سوچیں۔ ان کی آباد کاری ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔“اس سرکاری نیوتے کے بعد ورلڈ زائیونسٹ آرگنائزیشن نے اعلان کیا کہ وہ یوکرینی پناہ گزینوں کے لیے جوڈیا سماریا ( مقبوضہ غرب اردن ) میں ابتدائی طور پر ایک ہزار گھر تعمیر کرے گی۔
اسرائیل کے انیس سو پچاس کے ”قانون واپسی“ اور انیس سو باون کے شہریت ایکٹ کے تحت دنیا کے کسی بھی کونے میں آباد یہودی کو اسرائیل میں بسنے کا حق ہے۔
واضح رہے کہ فلسطین میں نئے یہودی آبادکاروں کی آمد سلطنت عثمانیہ کے دور میں اٹھارہ سو اسی کے عشرے سے شروع ہوئی۔ انیس سو اٹھارہ میں جب برطانیہ نے یہ علاقہ ترکوں سے چھین لیا تو اس وقت یہاں یہودی آبادی تین فیصد تھی۔ مئی انیس سو اڑتالیس میں جب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تب تک یہودی آبادی کا تناسب تینتیس فیصد تک پہنچ چکا تھا۔اگلے دو برس میں ساڑھے سات لاکھ عربوں کو جبراً ہمسایہ ممالک میں دھکیلا گیا توتناسب تھوڑا اور یہودی آبادی کے حق میں ہو گیا۔ لیکن اب بھی اسرائیلی ریاست کے خیال میں لاکھوں مزید آبادکاروں کی ضرورت ہے۔ لہٰذا کسی بھی ایسے ملک میں جہاں یہودی برادری موجود ہے وہاں کسی بھی قسم کا بحرانی دور اسرائیل کے لیے تازہ آبادکاری کا سنہری موقع خیال کیا جاتا ہے۔ جب کہ اسرائیل کے ہمسایہ ممالک میں قائم اٹھاون پناہ گزین کیمپوں، خلیجی ریاستوں اور دیگر ممالک میں آباد لگ بھگ ساٹھ لاکھ رجسٹرڈ فلسطینیوں کی اپنے آبائی گھروں تک رسائی قانوناً ممنوع ہے۔
گیارہ مارچ کو اسرائیلی پارلیمان نے نئے قانون کی منظوری دی جس کے تحت کسی بھی اسرائیلی شہری کی اگر فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں (غرب اردن اور غزہ ) میں شادی ہوتی ہے تو باہر سے آنے والی بیوی یا شوہر کو اسرائیل میں رہنے کا عارضی اجازت نامہ تو دیا جائے گا البتہ مکمل شہریت نہیں دی جائے گی۔اس قانون کا نشانہ اسرائیل میں آباد اکیس فیصد عرب آبادی ہے۔ جو بظاہر تو مکمل اسرائیلی شہری ہے مگر اس طرح کے امتیازی قوانین سے سب سے زیادہ یہی آبادی متاثر ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی چند اسرائیلی تنظیموں نے نئے قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عدالت بھی تو آئین اور پارلیمنٹ کے منظورکردہ قوانین کے تابع ہے۔ اسرائیل چونکہ عملاً نسل پرست ریاست ہے لہٰذا وہاں جو بھی حکومت آتی ہے وہ انتہائی نسل پرست یا کم نسل پرست تو ہو سکتی ہے غیر جانبدار ہرگز نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی جگہ لینے والے موجودہ وزیراعظم نفتالی بینیٹ اپنے پیش رو سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
وہ وزیر اعظم بننے سے پہلے برملا کہہ چکے ہیں کہ ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست دیوانے کا خواب ہے۔ آپ نے دو ہزار تیرہ میں اعتراف کیا کہ میں نے اپنی زندگی میں ( فوجی نوکری کے دوران ) کئی عربوں کو ہلاک کیا اور مجھے اس اعتراف میں کوئی جھجک نہیں۔دو ہزار دس میں ایک اسرائیلی عرب رکن پارلیمان احمد طلبی کو ایوان میں براہ راست مخاطب کرتے ہوئے نفتالی بینینٹ نے کہا ”جب تم لوگ درختوں پر بسیرا کرتے تھے تب بھی یہاں ہماری باقاعدہ ریاست تھی“ ۔ ایک اور موقعے پر آپ نے فرمایا کہ فلسطینیوں کا اسرائیل کے لیے وجود ایسا ہی ہے جیسے کسی کی پشت پر مسلسل کیل چبھ رہی ہو۔گزشتہ ہفتے نفتالی بینیٹ نے ماسکو میں ولادی میر پوتن سے تین گھنٹے ملاقات کی۔ اللہ جانے کیا باتیں ہوئی ہوں گی۔