ہم مسلسل جنگ کے دہانے پر کھڑے لوگ ہیں۔ ہمارے پڑوس میں نیٹو کی فوجیں طالبان کا خاتمہ کرنے آئی تھیں اور طالبان کی حکومت قائم کر کے چلی گئیں۔ یہی فوجیں مہلک ہتھیاروں کی تلاش میں عراق پہنچی تھیں۔ایک ایک اینٹ ہل گئی تو بتایا کہ مہلک ہتھیار تو بس ایک کہانی تھی۔ اب نیٹو اتحاد یورپ کے مشرق میں روس کی سرحدوں تک اپنا دائرہ پھیلانا چاہتا ہے۔ دائرہ تو نہیں پھیل سکا، یوکرین کی فضاؤں میں بارود پھیل گیا۔ جنگ کے نتیجے میں انسانوں کے ہاتھ سوائے المیوں کے کچھ نہیں آیا۔ جنگ چھڑتی ہے تو لوگ پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ ادیب المیوں کو زبان دینے کے لیے کہانیوں کی تلاش میں نکل جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ عظیم تھی کہ امریکی ادیب جان سٹین بیک نے ایک ناول The Moon is Down لکھا۔ ناول کیا ہے فاتح اور مفتوح کے بیچ رہنے والے المیوں کا روزنامچہ ہے۔ ناول میں طاقتور فوج نے ایک شہر پر حملہ کر دیا ہے، جہاں کوئلہ اور مچھلی وافر ہے۔ فاتح فوج کا کمانڈر کرنل لانسر شہر کے میئر سے کہتا ہے، اس شہر کے میئر تم ہی رہو گے۔ ہمیں کوئلہ اور مچھلی چاہیے۔ تم نے امن و امان بر قرار رکھنا ہے اور انسانی وسائل مہیا کرنے ہیں۔ روگردانی سے کچھ حاصل نہ ہو گا اطاعت گزاری میں سب کا بھلا ہے۔ عوام دوست میئر کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا مگر قوم کو مشکل سے نکالنے کے لیے وہ رسوائی کا گھونٹ بھر لیتا ہے۔
کرنل لانسر سیاسی سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے۔ وہ فاتح اور مفتوح کی نفسیات کو خوب سمجھتا ہے۔ دل سے سوچتا ہے اور دماغ سے فیصلے کرتا ہے۔ ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو، ”بیس برس پہلے کرنل لانسر فرانس اور بیلجیم میں تھا۔ مدتوں اس نے کوشش کی کہ وہ واقعات اس کے ذہن میں نہ آئیں، جن کا اسے علم تھا۔ یعنی یہ کہ جنگ دغابازی اور نفرت کا نام ہے۔ نااہل افسروں کی بے جا مداخلت کا نام ہے۔ ایذا رسانی، قتل و غارت، بیماری اور تکان کا نام ہے۔ اور اس کے خاتمے پر بھی سوائے ایک نئی تکان اور نفرت پیدا ہو جانے کے اور کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ لانسر نے خود کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ صرف ایک سپاہی ہے، جس کا فرض حکم بجالانا ہے۔ اس نے گزشتہ جنگ کی تکلیف دہ یادوں کو اور اس یقین کو کہ یہ جنگ بھی ویسی ہی ہو گی بھلانے کی انتہائی کوشش کی۔ یہ جنگ مختلف ہوگی، وہ دن میں پچاس مرتبہ خود سے کہتا، یہ جنگ بالکل مختلف ہوگی۔‘‘
ناول کا ایک دلچسپ کردار کوریل ہے۔ فاتح افواج نے حملے سے پہلے اسے جاسوسی کے لیے مفتوحہ شہر بھیجا تھا۔ فوج کو اس کے کردار پر فخر تھا۔ شہریوں کے دل میں اس نے گھر کر لیا تھا۔ میئر برفباری میں اس کے ساتھ بیٹھ کر برانڈی پیتا تھا اور مشورے کرتا تھا۔ اقتباس پڑھیے، ”دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ ایک سنتری نے جھانک کر کہا، مسٹر کوریل ملنا چاہتے ہیں۔کوریل اندر آیا تو کرنل لانسر دوسروں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، یہ ہے وہ آدمی جس نے یہاں ہمارے لیے راہ ہموار کی۔ کیا اس نے اپنا کام عمدگی سے کیا تھا؟ لفٹیننٹ ٹونڈر نے پوچھا۔ ہاں بڑی عمدگی سے کیا اور اسی لیے وہ اب عوام میں مقبول نہیں رہ سکتا اور کیا خبر خود ہم بھی اسے ناپسند کرنے لگیں۔‘‘کرنل لانسر نے ایک موقع پر عوامی بغاوت سے بچنے کے لیے مصلحت کا مشورہ دیا تو کوریل نے ٹوک کر کہا، کیا آپ خوف زدہ ہوگئے ہیں؟ لانسر بوجھل انداز میں بیٹھ گیا۔ بولا، ممکن ہے یہی بات ہو۔ پھر بیزاری سے کہا، ”میں ایسے لوگوں سے اکتا گیا ہوں، جنہوں نے جنگ دیکھی نہیں اور ان کا خیال ہے کہ وہ جنگ کے متعلق سب جانتے ہیں۔‘‘
لانسر ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر بیٹھ گیا۔ گویا ہوا، ”مجھے برسلز کی ایک بوڑھی عورت یاد آتی ہے۔ معصوم چہرہ چار فٹ گیارہ انچ کا قد۔ نازک نازک جھریوں والے اس کے ہاتھ، جن پر موٹی موٹی نیلی رگیں ابھری ہوئی تھیں۔ سیاہ شال اور سفیدی مائل نیلگوں بال۔ وہ ہمارے لیے ہمارا قومی ترانہ اپنی تھر تھراتی ہوئی دلنشیں آواز میں گاتی تھی۔ اسے معلوم رہتا تھا کہ ہمارے لیے سگریٹ یا لڑکی کہاں سے مل سکتی ہے۔ بظاہر وہ بالکل سیدھی سادی عورت تھی۔ یہ کہہ کر لانسر نے اپنا ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے سے ہٹایا اور اس طرح چونکا جیسے کوئی خواب سے چونکتا ہو۔ بولا، ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس کا بیٹا مارا جا چکا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس نے ایک لمبی سی سیاہ ہیٹ پِن سے ہمارے بارہ آدمیوں کو ایک ایک کر کے مار ڈالا تھا۔ چنانچہ ہمیں اسے اڑا دینا پڑا۔ ابھی تک وہ پِن میرے پاس گھر میں ہے۔ اس پر ایک میناکاری کا ٹین لگا ہوا ہے، جس پر لال اور نیلی چڑیا بنی ہوئی ہے۔‘‘
یہ سب سن کر کوریل کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ کرنل! یہ سب کہنے کی باتیں نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو یاد رکھنے والی باتیں بھی نہیں ہیں۔ لانسر نے کوریل کو دیکھا اور کہا، کاش یہ سب بھولنے والی باتیں ہوتیں۔ کوریل کو مزید چوٹ کرنے کا موقع مل گیا۔ بولا، اگر آپ خائف ہیں تو آپ کو کمانڈر ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ لانسر نے آہستگی سے کہا، مگر مجھے معلوم ہے کہ جنگ کیسے لڑتے ہیں۔ اس علم کی وجہ سے انسان بہت سی بے کار کی غلطیوں سے بچ جاتا ہے۔ کوریل نے کہا، کیا آپ نوجوان افسروں کے سامنے بھی اسی طرح کی گفتگو کرتے ہیں؟ نہیں، شاید وہ میرا یقین ہی نہ کریں۔ تو پھر آپ مجھ سے کیوں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ تمہارا کام ختم ہو چکا ہے مسٹر کوریل۔
فاتح افواج کو دو شہری مطلوب تھے۔ وہ رات کے اندھیرے میں بحری راستے سے فرار ہو کر امریکہ یا انگلستان کی طرف نکلنا چاہتے تھے۔ شہر کا میئر ان کی مدد کر رہا تھا۔ نکلنے سے پہلے میئر نے ان سے کہا کہ تم پہنچ گئے تو وہاں کی سرکار کو کہنا کہ ہمارے لیے چھوٹے چھوٹے بموں کا بندوبست کر دیں، جو ریل پٹریوں کے نیچے بچھائے جا سکیں۔ ایسا ہو جائے تو ہمارے لوگوں کے لیے بغاوت کے راستے کھل جائیں گے۔ اقتباس ملاحظہ ہو، ”ٹوم نے پیشانی سے پسینہ پونچھ کر کہا، اگر ہم زندہ پہنچ گئے تو ضرور کہہ دیں گے، مگر بات یہ ہے جناب کہ انگلستان کی حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے، جو ہتھیار دینے کے حق میں نہیں ہے۔ میئر نے اس کی طرف گھور کر دیکھا اور کہا، اگر اب بھی ایسے لوگ امریکہ و انگلستان پر حکومت کرتے ہیں تو دنیا کا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘
گشت کے دوران شہر کے کمزور و لاغر کتوں کو دیکھ کر فوجی افسر کارپورل اپنے سپاہی سے کتوں پر گفتگو کرنے لگتا ہے۔ گفتگو کا ایک ٹکڑا دیکھیے،’’جب جنگ ختم ہو جائے گی تو خدا خبر ہم پھر سے کتے پال سکیں گے یا نہیں۔ سپاہی بولا، میرا خیال ہے ہمیں امریکہ سے منگوا کر پھر سے ان کی نسل تیار کرنی پڑے گی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکا والے کس نسل اور قسم کے کتے پالتے ہیں؟ کارپورل نے کہا، مجھے نہیں معلوم۔ ان کے کتے بھی شاید انہی کی طرح خبطی ہوتے ہوں گے۔‘‘
ریل کی پٹریاں بچھائی جا چکی ہیں۔ مقامی لوگ کوئلے کی کانوں میں بے دلی سے جُتے ہوئے ہیں۔ فوج کو آئے ہوئے زمانے ہو چکے ہیں۔ دو فوجی بھی قتل ہو چکے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو، ”دستے کے لوگ، جو کچھ کرتے مل کر کرتے۔ مل کر ناچتے، مل کر گاتے۔ رفتہ رفتہ ناچنا بالکل بند ہو گیا۔ جو گانے وہ گاتے ان سے گھر جانے کی دبی ہوئی آرزو جھلکتی تھی۔ وہ ان دوستوں اور رشتے داروں کی باتیں کرتے، جو ان سے محبت کرتے تھے۔ ان کا دل ہمدردی کا متلاشی تھا۔ کوئی شخص دن میں چند گھنٹوں اور سال میں چند مہینوں سے زیادہ سپاہی نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد وہ عام انسان بننا چاہتا ہے۔‘‘
ایک اور اقتباس دیکھیے، ”وہ رات میں سایوں تک کو گولی مارنے لگے۔ سرد اور جامد خاموشی گویا انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئی تھی۔ پھر ایک ہفتے تین سپاہی پاگل ہو گئے۔ وہ رات دن چیختے چلاتے رہے۔ ان کو وطن واپس بھیجنا پڑا۔ باقی سپاہیوں نے اگر یہ نہ سنا ہوتا کہ پاگلوں کو وطن پہنچتے ہی ختم کر دیا جاتا ہے تو وہ بھی ضرور پاگل ہوجاتے۔‘‘اس بات نے لیفٹیننٹ ٹونڈر کو حد سے زیادہ بیزار کر دیا تھا کہ شہر کے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ جب کوئی فوجی کہتا کہ ہم فاتح ہیں تو وہ قہقہے مار مار کے لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ ٹونڈر نے کیپٹن لوف سے پوچھا، ہاں بھئی یہ علاقہ فتح ہو چکا ہے کیا؟ جواب آیا، بے شک یہ علاقہ فتح ہو چکا ہے۔ ٹونڈر خوب ہنسا اور بولا، فتح ہو چکا ہے اور ہم اس قدر خوف زدہ ہیں؟ فتح ہو چکا اور ہم محصور ہیں؟ واہ بھئی واہ!
ٹونڈر ایک جگہ اپنے ساتھی افسر پراکل سے پوچھتا ہے، ”کیا کبھی ایسا بھی ہو گا کہ میں سڑک پر جا رہا ہوں لوگ مجھ سے دوستانہ انداز میں بات کریں۔ آپس میں کہیں، وہ دیکھو ایک سپاہی جا رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوں اور فخر کریں۔ میرے ارد گرد جانے پہچانے لوگ ہوں۔ یہ خوف دل سے نکل جائے کہ ابھی کوئی پیچھے کی طرف سے حملہ کر دے گا۔ کیا کبھی ایسا ہوگا، ایسا کب ہوگا؟‘‘
مولی کے خاوند ایلگز کو کان کنی کے دوران ایک قابض افسر کا تحکمانہ انداز برا لگا۔ اس نے ہاتھ ڈالا اور افسر کی کھوپڑی کھول دی۔ ایلگز کو سزائے موت ہو گئی اور اس کی بیوی مولی تنہائی کی راتیں کاٹنے لگی۔ ٹونڈر ایک رات آنکھیں چرا کے مولی کے گھر پہنچ گیا۔ اقتباس ملاحظہ ہو، ”مولی نے گھبرا کے پوچھا، کون ہو تم تمہیں کیا چاہیے؟ ٹونڈر نے التجا آمیز لہجے میں کہا، مجھے اندر آنے دو میں نقصان پہنچانے نہیں آیا۔ مولی نے دہرایا، مگر تم چاہتے کیا ہو؟ ٹونڈر نے دروازہ بند کر کے کہا، خاتون میں صرف تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہے۔ تم مجھ پر زبردستی کرنا چاہتے ہو؟ نہیں خاتون بالکل نہیں۔ تم مجھے دم بھر ٹھہرنے دو میں چلا جاوں گا۔ کیا ہم تھوڑی دیر کے لیے اس جنگ کو بھول نہیں سکتے؟کچھ دیر کے لیے آپس میں باتیں نہیں کر سکتے جیسے دو انسان کرتے ہیں؟‘‘
اِس آخری اقتباس میں ٹونڈر اور مولی کے بیچ ہونے والا ایک مکالمہ سنیے۔
’’مولی بولی، لیفٹیننٹ یہ بتاو کہ گزشتہ جنگ کے بعد تمہارے ملک کی لڑکیوں پر کیا بیتی؟ ایک روٹی کے ٹکڑے یا انڈے کے بدلے میں جو جسے چاہتا اپنے لیے پسند کر سکتا تھا۔ کیا تم مجھے کچھ بھی نہیں دو گے؟ کیا میری قیمت بہت زیادہ ہے؟ ٹونڈر نے کہا، تم نے ایک منٹ کے لیے مجھے بے وقوف بنا لیا تھا مگر مجھے معلوم ہے تم بھی مجھ سے نفرت کرتی ہو۔ جانے کیوں میرا یہ خیال تھا کہ تم مجھ سے نفرت نہیں کرو گی۔ مولی نے کہا، نہیں میں تم سے نفرت نہیں کرتی۔ میں بھوکی ہوں اور۔۔۔۔ مجھے تم سے نفرت ہے۔ ٹونڈر نے کہا، تم جو چاہوگی میں تمہیں دے دوں گا مگر۔۔۔۔ بات کاٹتے ہوئے مولی نےکہا، مگر یہی نا کہ تم اس کاروبار کو کوئی اور نام دینا چاہتے ہو۔ تم مجھے بازاری عورت کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتے۔کیوں، یہی بات ہے نا؟ ٹونڈر بولا، سمجھ نہیں آتی کہ تم ہر بات کا گھناونا پہلو کیوں دیکھتی ہو؟ مولی ہنسی اور بولی، لیکن بھوکا رہنا بھی تو کوئی ایسا خوش گوار تجربہ نہیں ہے۔ دو سموسے، دو خستہ کرارے سموسے تو دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔‘‘