۔1تحریک ط۔ا۔ل۔ب۔ا۔ن اور ا۔ل۔ق۔ا۔ع۔د۔ہ نے پاکستانی ریاست کے خلاف جو بیانیہ پیش کیا تھا اور جس سے ایک پوری نسل متاثر ہوئی، اس کے بنیادی التباس کو نہ سمجھنے بلکہ اس کا شکار ہو جانے کی وجہ سے پوری مذہبی فکر اے پی ایس کے واقعے تک دو ذہنی اور تضاد کا نمونہ بنی رہی اور اپنے گول مول موقف سے دہشت گردی کے بیانیے کو بالواسطہ تائید مہیا کرتی رہی۔ بیانیہ بڑا واضح اور جذباتی لحاظ سے بہت طاقتور تھا: ایک کافر ملک نے ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے شرعا” جہاد فرض ہو چکا ہے۔ افغانستان کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں پر بھی جہاد فرض ہے۔ ریاست پاکستان نے اس کے بالکل برعکس، امریکی کیمپ کا حصہ بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے جو شرعا” کفر ہے۔ اس لیے پاکستانی ریاست اور اس کے نمائندہ اداروں کا حکم بھی کفار کا ہے جن کے خلاف جہاد فرض ہے۔اب اس دوٹوک اور انتہائی طاقتور بیانیے کا مذہبی فکر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، کیونکہ سارے مقدمات اسلامی فقہ سے ہی ماخوذ تھے۔ علماء کرام اور ساری مذہبی جماعتیں ایک طرف یہ کہتی رہیں کہ ہم اس موقف کی حمایت نہیں کرتے، کیونکہ اس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچے گا، لیکن ان کے پاس استدلال کو رد کرنے کی نہ جرات تھی اور نہ علمی بنیاد۔ چنانچہ یہ کہہ کر ایک طرح سے اس کو تائید ہی مہیا کی جاتی رہی کہ یہ ردعمل ریاست کے غلط فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اس لیے ریاست کو ان عناصر کے خلاف اقدام کے بجائے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے۔میرے نزدیک بالکل یہی صورت حال آج پی ٹی آئی کے بیانیے کی بن چکی ہے اور اس پر درست سوال نہ اٹھانے کی وجہ سے قوم کا ایک بڑا حصہ عمران خان کے گمراہ کن بیانیے کا شکار ہو چکا ہے۔
ٹی ٹی پی اور عرب عسکریت پسندوں کے تکفیری بیانیے کا مین اسٹریم مذہبی فکر کے پاس تو، جیسا کہ عرض کیا گیا، ذہنی الجھاؤ اور تضاد فکری کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔ البتہ متعدد اہل علم نے فقہی وکلامی اور سیاسی واخلاقی اصولوں کی روشنی میں اس کو موضوع بنایا اور اس کی غلطی واضح کی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب اور ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی تحریریں کتابی صورت میں بھی دستیاب ہیں۔ راقم نے بھی ایک تسلسل کے ساتھ اس بیانیے کے مختلف پہلوؤں پر تنقیدی معروضات پیش کیں جنھیں ایک مجموعے کی شکل دینے کا کام جاری ہے۔میری تنقید میں ایک اہم سوال جو اٹھایا گیا، وہ یہ تھا کہ کسی بھی صورت حال کی نوعیت اور اس میں مسلمانوں کی دینی ذمہ داری متعین کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ عسکریت پسند صورت حال پر جو شرعی حکم لگا رہے ہیں اور اس کی روشنی میں مسلمانوں کی ذمہ داری طے کر کے خود کو اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مامور کر رہے ہیں، وہ یہ کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟ بالفاظ دیگر انھیں یہ استحقاق کس بنیاد پر حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنے فہم کے مطابق جس نتیجے پر پہنچے ہوں، نہ صرف پوری مسلمان امت یا کسی خاص مسلمان ملک کو اس کا پابند قرار دیں بلکہ امت کی طرف سے کوئی فیصلہ یا اقدام کرنے کا اختیار بھی خود کو تفویض کر دیں؟ یہ وہ سوال تھا جو اس بحث میں نہیں اٹھایا جا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس کے اٹھانے سے اس پورے گمراہ کن بیانیے کی بنیادی غلطی بالکل واضح ہو گئی اور ایک جذباتی ذہنی کیفیت پیدا کر کے فقہی وشرعی تلبیسات کو بطور دلیل استعمال کرنے کا رجحان بتدریج دم توڑتا چلا گیا۔ یہ سوال ویسے تو مختلف اسالیب میں متعدد تحریروں میں اٹھایا گیا۔میرے نزدیک عمران خان کے بیانیے اور سیاسی طرز فکر سے متعلق بھی بنیادی ترین سوال کی حیثیت اب اسی کو حاصل ہے۔ اس کا ایک واضح جواب طلب کیے بغیر عمران خان کے بیانیے پر کسی قسم کی سیاسی گفتگو محض وقت کا ضیاع ہوگا۔
ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْ
قوم کے اجتماعی معاملات سے متعلق کسی بھی بیانیے کے لیے اس سوال کا جواب دینا کہ وہ قوم اور اس کے نمائندہ طبقات کے لیے اس بیانیے کو اجتماعی رائے سے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار مانتا ہے یا نہیں، کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ بیانیے دسیوں ہو سکتے ہیں اور ہر بیانیے کو اپنا استدلال پیش کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن کیا کوئی بھی بیانیہ یا اس کے علمبردار اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ پوری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا طبقہ قوم کی نمائندگی کا جواز نہیں رکھتا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں بار بار زیر بحث آیا ہے اور اس حوالے سے دو واضح رجحان ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک رجحان سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین، ٹی ٹی پی، جامعہ حفصہ کے ذمہ داران اور ٹی ایل پی کی صورت میں ہے جو صرف بیانیہ اور اس کا استدلال قوم کے سامنے رکھنے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ خود ہی اپنے آپ کو وہ مجاز اتھارٹی بھی قرار دیتا ہے جسے فیصلہ یا اقدام کرنے کا حق حاصل ہے۔دوسرا رجحان قائد اعظم کی زیر قیادت مسلم لیگ کی صورت میں اور قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کی صورت میں اپنا ظہور کرتا ہے۔ قائد اعظم نے ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاسی منظر نامے پر تحریک خلافت، جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار اسلام جیسی قوتیں غالب تھیں، جدوجہد کا آغاز کیا اور طویل جدوجہد کے بعد سیاسی عمل کے ذریعے سے اس مرحلے تک پہنچ گئے جب مسلمانوں نے قطعی انداز میں اپنا اجتماعی فیصلہ ان کے حق میں دے دیا کہ مسلم لیگ ہی سیاسی قضیے میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔مولانا مودودی کے بیانیے اور حکمت عملی میں یہ نکتہ کتنی اہمیت رکھتا ہے،خود کہتے ہیں کہ اگر پاکستان خدا نخواستہ ایک غیر اسلامی اور سیکولر ریاست میں بھی تبدیل ہو جائے تو وہ اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھنے اور رائے عامہ کو قائل کرنے کی جدوجہد ازسرنو شروع کر دیں گے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان کے انداز فکر کی جڑیں ان میں سے کس رجحان میں ہیں اور ان کی سیاسی فکر کا شجرہ نسب کس سے جا ملتا ہے؟
گذشتہ ایک دہائی کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر معمولی نظر رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان افتاد طبع اور انداز فکر کے اعتبار سے پہلے رجحان کے حامل ہیں۔ خاص طور پر اقتدار سے محرومی پر انھوں نے جس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ان کی نفسیاتی ساخت کی بہت واضح ترجمانی کرتا ہے۔ان کی سیاسی کارکردگی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اصل بیانیے کو قربان کرتے ہوئے انھوں نے الیکٹبکز کی ایک بڑی تعداد کو پارٹی میں قبول کر کے 2013 کا الیکشن لڑا۔ پھر حکومت بنانے کے لیے انھیں ایسے کئی سیاسی عناصر کے ساتھ بھی معاملہ کرنا پڑا جن پر وہ اس سے پہلے نفرین بھیجتے تھے۔ یہ سارا بندوبست مقتدر قوتوں کی مکمل تائید سے کیا گیا جسے اپنے اصولی اور ابتدائی موقف کے برعکس عمران خان نے قبول کیا۔اقتدار میں آنے کے بعد جب وہ متوقع کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے تدریجا یہ اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ انھیں حکومتی معاملات کا تجربہ نہیں تھا، ان کے پاس مناسب ٹیم نہیں تھی اور انھوں نے پہلے سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی انھوں نے کئی غلط فیصلوں کا اعتراف کیا۔ وہ اور ان کے حواری برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی اس کارکردگی کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت بہت گر گئی تھی اور منتخب اراکین عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔اس ساری صورت حال میں اپنی حکومت کے خاتمے کو حقیقت پسندانہ انداز میں سیاسی شکست کے طور پر قبول نہ کرنے اور ردعمل میں مرنے مارنے پر اتر آنے کی وجہ وہی انداز فکر ہے جو انھیں یہ باور کراتا ہے کہ اس ملک کی تقدیر سنوارنے کے لیے قدرت نے انھیں چن لیا ہے اور انھوں نے کچھ کر کے دکھایا ہو یا نہ ہو، اقتدار بہرحال انھی کا حق ہے۔ اس سے انھیں محروم کرنے کی کوشش کو ایک سیاسی عمل کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا، یہ لازما قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کی سازش ہے جس کی ذمہ داری عالمی طاقتوں کے فیصلے، کرپٹ سیاسی عناصر کی ملی بھگت اور ریاستی اداروں کی فعال یا خاموش تائید پر عائد ہوتی ہے۔ یوں پورا نظام عمران خان کا "مجرم” ہے جس کے محاسبے کے لیے قوم کو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آنا چاہیے۔اس تناظر میں عمران خان کے سیاسی بیانیے اور اس کے استدلال پر گفتگو کی اہمیت بہت ثانوی ہو جاتی ہے۔ بنیادی ترین اور اہم ترین سوال یہ بن جاتا ہے کہ عمران خان کو اس مقام پر آخر کس نے براجمان کیا ہے؟ اگر وہ اور ان کے معتقدین خود ہی انھیں یہ حیثیت دے دینے کے مجاز ہیں تو ان کے طرز عمل میں اور ان عناصر کے طرزعمل میں کیا بنیادی فرق ہے جن کا اس بحث میں اوپر ذکر کیا گیا ہے؟ْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْْ