کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان پر لگائے گئے الزامات سنگین ہیں، لہٰذا انہیں ‘لو پروفائل‘ میں رہنا چاہیے۔ مگر چند مبصرین کی رائے میں ڈاکٹر اے کیو خان ‘محسن پاکستان‘ ہیں اور انہیں ہر طرح کی آزادی ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر عوام کی ایک بڑی تعداد بھی اس بات کے حق میں ہے کہ انہیں ہر طرح کی ذاتی آزادی میسر ہونا چاہیے۔ تاہم کئی شہری اس رائے سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔ علمی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی یہی صورت حال نظر آتی ہے۔
مختصراﹰ اے کیو خان کے نام سے جانے جانے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں قومی ٹی وی پر اعتراف کیا تھا کہ وہ جوہری پھیلاؤ میں ملوث رہے تھے۔ اس کے بعد اس دور کی حکومت نے ان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی تھیں، جو آج تک برقرار ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک درخواست کے مطابق ڈاکٹر خان کی نقل و حرکت پر سخت پابندی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہی رہائشی علاقے میں رہنے والی اپنی بیٹی اور ان کے بچوں سے بھی نہیں مل سکتے۔ اس کے علاوہ وہ کئی برسوں سے کسی سماجی تقریب میں بھی شرکت نہیں کر پا رہے۔ انہوں نے درخواست کی ہے کہ ان پر عائد یہ پابندیاں اٹھائی جائیں۔
فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی گئی تھیں جو آج تک برقرار ہیں
پاکستان میں کئی حلقے یہ خیال کرتے ہیں کہ اے کیو خان کا یہ مطالبہ جائز ہے۔ جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ کے مرکزی رہنما مولانا جلال الدین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کا یہ مطالبہ بالکل آئینی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”وہ محسن پاکستان ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کو مضبوط کیا۔ تو انہیں بالکل اجازت ہونا چاہیے کہ وہ جہاں چاہیں جا سکیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان کو مکمل سکیورٹی فراہم کرے۔ ان پر عائد پابندیاں بالکل غیر آئینی ہیں۔ جب صدر اور وزیر اعظم بحفاظت ہر جگہ جا سکتے ہیں، تو ڈاکٹر قدیر خان کیوں نہیں؟‘‘
چند حلقوں کا خیال ہے کہ اے کیو خان کے آزادانہ گھومنے پھرنے یا میڈیا سے بات چیت کرنے سے پاکستان کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں اور ملک نئی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر نجم الدین کا کہنا ہے کہ قدیر خان ایک قوم پرست، محب وطن پاکستانی ہیں اور وہ کبھی بھی پاکستان کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔”
ڈاکٹر نجم الدین نے کہا، ”میرے خیال میں وہ ایک عقل مند آدمی ہیں اور پاکستان کے بہت بڑے خیر خواہ بھی۔ اگر وہ کسی بھی عوامی فورم پر جا تے ہیں یا مغربی میڈیا سے بات چیت کرتے ہیں، تو وہ ہمیشہ پاکستان کا دفاع ہی کریں گے۔ وہ کوئی ایسی بات نہیں کر سکتے، جس سے ملک کا نقصان پہنچ سکتا ہو۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نجم الدین نے کہا کہ یہ بات سچ ہے کہ ان پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، لیکن ”وہ مغربی میڈیا میں اپنا بھر پور دفاع کر سکتے ہیں کیونکہ جوہری پھیلاؤ کے لیے کسی ایک شخص کو ذمےدار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تو ایک پورے بین الاقوامی نیٹ ورک کا کام ہے۔‘‘
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟روساسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تاہم دیگر ناقدین کے خیال میں پاکستان پہلے ہی مشکل میں ہے اور اے کیوخان کے معاملے کی وجہ سے پاکستان کی پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے۔ ایسے حلقوں کے مطابق اب اگر ڈاکٹر قدیر خان پھر منظر عام پر آئے، تو ان کے خلاف لگائے گئے الزامات بھی دوبارہ منظر عام پر آئیں گے۔
دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں اے کیو خان کو ‘لو پروفائل‘ میں رہنا چاہیے، ”دنیا ایسے کسی بندے کو کیسے برداشت کر سکتی ہے، جس پر شمالی کوریا، لیبیا اور ایران کو جوہری ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا الزام ہو۔ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ایسا کیا تھا۔ ان کو ان کے ملک نے بچایا تھا، کیونکہ لوگ انہیں ہیرو سمجھتے تھے۔ اب اگر وہ ہر طرف گھومیں پھریں گے، تو یہ ان کی سکیورٹی کے لیے بھی بہتر نہیں ہوگا اور ان کے منظر عام میں آنے سے جوہری پھیلاؤ کو معاملہ پھر سے اٹھے گا۔ یہ پاکستان کے لیے بھی بہتر نہیں ہو گا۔ لہٰذا انہیں لو پروفائل میں ہی رہنا چاہیے۔‘‘
نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کے سابق ترجمان جان بلیدی بھی جنرل امجد کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان پر یہ الزامات اس وقت لگے، جب دہشت گردی کے خلاف جنگ عروج پر تھی اور دنیا کو خطرہ تھا کہ جوہری ہتھیار کہیں دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ انہوں خود اپنے جوہری پھیلاؤ میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تو اب اگر ان کو ہر جگہ آنے جانے کی کھلی اجازت مل گئی، تو اس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہی ہو گا۔‘‘