افغان سائنسدان امریکہ میں ایسے چاول تیار کرتا ہے جو اُسے کروڑپتی بنا دیتے ہیں اور وہ اپنی دولت کا نصف حصہ میر تقی میر اور مرزا غالب کی شاعری کے انگریزی میں ترجمے کے لیے عطیہ کر دیتا ہے اور یہ کام جرمن مستشرق ڈاکٹر این میری شمل مکمل کرتی ہیں۔
ایک محقق جان کے بیڈن کہتے ہیں کہ یہ افغان سائنسدان، عطااللہ اوزئی۔درانی، ایک طالب علم کی حیثیت میں سنہ 1923 میں پیٹرو کیمسٹری کی تعلیم کے لیے امریکہ جاتا ہے۔ اس کی ڈاکٹر این میری شمل سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور یہ بھی یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ خود بھی میر تقی میر یا مرزا غالب کی شاعری کو سمجھ سکتا تھا یا نہیں۔
‘ون منٹ رائس’
افغانستان کے صوبے ہرات سے تعلق رکھنے والے طالب علم، عطا اللہ خان اوزئی-درانی 1897 میں پیدا ہوئے تھے۔ ایک متمول گھرانے سے تعلق کی وجہ سے پہلے انھوں نے کچھ عرصہ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ روانہ ہو گئے۔ مقصد پیٹرو کیمسٹری پڑھنا تھا تاکہ پیٹرولیم انڈسٹری میں کام کیا جاسکے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
جب وہ امریکہ پہنچے تو ان کے ایک واقف، ڈاکٹر ہربرٹ بیکر نے، جو بعد میں امریکن کین کمپنی کے سربراہ بنے، ان کے گھر پر کھانا کھاتے ہوئے ان کے بنائے ہوئے چاولوں کی تعریف کی اور مشورہ دیا کہ اس چاول کو یہاں وسیع سطح پر متعارف کرایا جائے۔ عطااللہ اوزئی-درانی کی یہ مشورہ پسند آیا اور وہ اس تحقیق میں لگ گئے۔
چاول اگائے، مختلف تجربات کیے، اور دس برس کی تحقیق کے بعد انھوں نے وہ مقصد حاصل کرلیا جس کے لیے انھوں نے پیٹرو کیمسٹری کا مضمون چھوڑا تھا۔
سنہ 1939 میں انھوں نے چاول کی ایک ایسی قسم دریافت کرلی جو نہ صرف ایک منٹ میں پک کر تیار ہوجاتی تھی بلکہ ایسے چھوٹے سے سفری چولھے کا ڈیزائن بھی تیار کرلیا جس کے استعمال سے چاول ایک چھوٹی سی ہنڈیا میں چولھے پر رکھنے سے لے کر پکنے تک صرف ایک منٹ کا وقت لیتے تھے۔
خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے
ایک آدھ برس کے بعد ایک دن عطااللہ اوزئی۔درانی اپنے اس سفری چولھے اور چاولوں کے ایک پیکٹ کے ساتھ نیویارک میں جنرل فوڈز کارپوریشن کے دفتر میں داخل ہوئے اور اس کے ایک اعلیٰ عہدیدار، کلیرنس فرانسِس کو کہا کہ وہ ایک منٹ میں چاول تیار کر سکتے ہیں۔ اُس زمانے میں اسی کارپوریشن نے ایک منٹ میں ساگودانہ پکانے کا پراجیکٹ شروع کیا تھا۔
عطااللہ کو ایک سائنسی محقق کے طور پر جانا جاتا تھا۔ جنرل فوڈز کے دفتر میں کارپوریشن کے سربراہ اور دیگر افسران کے سامنے انھوں نے سفری چولھے کی کِٹ کھولی اور واقعی ایک منٹ کے بعد چاول کھانے کے لیے تیار تھے۔ جنرل فوڈز کارپوریشن کے عہدیدار اچھل پڑے اور انھوں نے فوراً معاہدہ کر لیا۔
عطااللہ اپنی رائلٹی کا معاہدہ طے کر کے دفتر سے اپنا سامان اٹھا کر چل دیے۔ اس کے بعد ان چاولوں اور سفری چولھے کی کِٹ دھڑا دھڑ بننا شروع ہوگئی اور رائلٹی ملنا شروع ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ’ون منٹ رائس کِٹ‘ کی وجہ سے اتنا چاول بکا کہ امریکہ میں چاول کی کھپت بڑھ گئی۔
شروع میں تو خیال تھا کہ یہ کِٹ اور چاول گھروں میں استعمال ہوں گے، لیکن جلد ہی اس کِٹ کی ایک نئی مارکیٹ نظر آئی۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت امریکی فوجی مختلف محاذوں پر لڑنے بھیجے جارہے تھے۔ جنرل فوڈز کارپوریشن نے ‘ون منٹ رائس’ کی یہ کِٹ فوج کو بیچنا شروع کردی جو ہر فوجی کے راشن کا حصہ بن گئی۔ کارپوریشن نے خود بھی بہت منافع بنایا اور عطااللہ بھی کروڑپتی بن گئے۔
اوزئی درانی کا انڈین مسلمان دوست
لیکن وہ ایک سائنسدان تھے اور انھیں ملنے والی دولت نے خراب انھیں بدلا نہیں۔ پڑھنے لکھنے کا اعلیٰ ذوق تھا اور اپنے ہی جیسا شغف رکھنے والوں میں ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا۔ سنہ 1920 کی دہائی کے اوائل میں ان کی ملاقات ایک انڈین مسلمان سے ہوئی جن کا نام سید حسین تھا۔
سید حسین اس وقت انڈیا کی آزادی کے لیے امریکہ میں لابی کر رہے تھے۔ بعد میں وہ انڈیا کے مصر میں سفیر بھی رہے۔
بعض محقیقین لکھتے ہیں کہ اوزئی-درانی اور سید حسین کے درمیان دوستی کی بنیادی وجہ دونوں کا شاعرانہ ذوق تھا۔ بعض بلاگرز یہ بھی کہتے ہیں کہ سید حسین کی وجہ سے اوزئی-درانی کو میر اور غالب کی شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اس کی حقیقت جو بھی ہو، عطااللہ اوزئی-درانی کی سید حسین سے گہری دوستی ہوگئی۔
سید حسین انڈیا کی تحریک آزادی کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی سے بہت متاثر تھے۔ انڈین صحافی اور مصنف سعید نقوی اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ سید حسین نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت کے عشق میں گرفتار رہے، لیکن تمام ہندو۔مسلم بھائی بھائی کے نعروں کے باوجود، ان دونوں کو شادی کی اجازت نہیں ملی۔
ایک بلاگر دانش خان کے مطابق، سنہ 1949 میں ان کے انتقال کے موقع پر ‘میامی ڈیلی’ نے ان کے اس معاشقے کا کچھ اس طرح ذکر کیا: ‘(وجے لکشمی پنڈت) کی امریکہ میں سفیر کی حیثیت سے تعیناتی کے اعلان سے چند ہفتے پہلے سید حسین (قاہرہ کے) معروف شیپرڈ ہوٹل میں اپنے کونے والے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ ان کے قریبی رفقاء کا اصرار تھا کہ وہ ایک ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ موت سے جا ملے۔’
امریکہ کے کئی اخبارات نے اپنے اداریوں میں انھیں خراج تحسین پیش کیا بلکہ ایک اخبار نے تو انھیں رابندر ناتھ ٹیگور کے بعد انڈیا کا سب سے بڑا دانشور قرار دیا۔ سید حسین کی اتنی مسحور کن شخصیت سے عطااللہ اوزئی-درانی کا متاثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔ سید حسین کی موت پر دیگر دوستوں کی طرح وہ بھی بہت غمگین ہوگئے۔
اوزئی-درانی کی وصیت
یہ دکھ ان کے سینے میں ہمیشہ سلگتا رہا۔ جب سنہ 1964 میں اوزئی-درانی علیل ہوئے تو انھوں نے اپنی وصیت بنوائی۔ اپنے دس لاکھ ڈالر کے ترکے میں سے نصف سے زیادہ انھوں نے سید حسین ٹرسٹ کے نام پر چھوڑے تاکہ انیسویں صدی کے اردو زبان کے دو عظیم شعرا، میر تقی میر اور مرزا اسد اللہ خان کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا جا سکے۔
عطااللہ اوزئی۔درانی نے ایک امریکی خاتون سے شادی کی اور ایک بیٹی پیدا ہوئی لیکن یہ شادی زیادہ عرصے نہ چل سکی۔
اپنی وصیت میں اس کے علاوہ انھوں نے 30 ہزار ڈالر سمیت اپنی نجی لائبریری لوئیزیانا یونیورسٹی کو عطیہ میں دی تاکہ وہ چاول کی ثقافت پر تحقیق کرسکے۔ انھوں نے اپنی وصیت کے مطابق، تین لاکھ ڈالر اپنی سابقہ بیوی لوئیزا ایبز ہیریسن اور بیٹی کے لیے ترکے میں چھوڑے۔
کئی محقیقین نے لکھا ہے کہ عطااللہ اوزئی-درانی نے سنہ 1950 کی دہائی میں علی گڑھ یونیورسٹی کو بھی ایک لاکھ روپے میر اور غالب کے انگریزی میں ترجمے کے لیے دیے تھے۔ اس وقت علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین تھے لیکن وہاں کئی برس رقم پڑے رہنے کے باوجود بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
عطااللہ اوزئی درانی کے انتقال کے بعد جب ان کی وصیت کے مطابق پانچ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم سید حسین کے نام سے ان دو شعرا کے ترجمے کے لیے ترکے میں چھوڑی گئی تو ان کے امریکی وکلا کی ٹیم نے اقرار کیا تھا کہ ’ان کی فارسی کمزور تھی۔’ لیکن ایک وکیل نے کہا کہ ‘انھیں یقین ہے کہ ان شعرا کا تعلق فارسی زبان سے ہے یا جو بھی یہ زبان ہے یہ انیسویں صدی میں انڈیا میں بولی جاتی تھی۔’
میر اور غالب: پاکستانی شعرا
نیو یارک ٹائمز کی 19 جون سنہ 1964 کی خبر کے مطابق ان وکلا نے وصیت کے مطابق میر اور غالب کے کلام کو تلاش کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلے انھوں نے ایک خط نیویارک میں انڈین قونصل خانے کو لکھا۔ وہاں سے جواب آیا کہ ’یہ معاملہ آپ کو پاکستانیوں سے معلوم کرنا چاہیے‘۔
اخبار کے مطابق ‘کچھ تحقیق کے بعد قونصل خانے سے یہ اطلاع ملی کہ غالب کی شاعری رومانوی اور فلسفیانہ تھی، جبکہ میر کی شاعری مذہبی نوعیت کی تھی جس میں اسلام کے شیعہ فرقے کا ایک امتزاج نظر آتا ہے۔’
کولمبیا یونیورسٹی میں اس وقت کے مطالعۂِ ایران کے ایک پروفیسر ڈاکٹر احسان یار شاطر نے ان وکلا کو بتایا کہ ان دونوں شعرا نے موجودہ پاکستان کے علاقے میں اپنی زندگیاں بسر کی تھیں۔ ‘فارسی ادب کے بڑے پس منظر میں انھیں دیکھا جائے تو یہ بہت بڑے شعرا نہیں ہیں، لیکن یہ دونوں پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں۔’
نیویارک ٹائمز کی خبر کے مطابق ‘ڈاکٹر شاطری نے کہا کہ غالب کے کلام کو میر کی نسبت زیادہ شہرت حاصل ہے۔ یہ شعرا فارسی اور اردو دونوں میں شاعری کرتے تھے، اردو زبان فارسی سے متاثر ہندوستان کی ایک زبان ہے‘۔
ان پروفیسر نے مزید کہا کہ ’(غالب) کی شاعری میں نغمگی اور تصوف ہے۔’
اسی اخبار کے مطابق، اس وقت نیو یارک کی لائبریری میں دونوں شعرا پر دو دو کتابیں موجود ہیں۔
اخبار کے مطجبق ‘غالب کا ایک مجموعہ، جسے لاہور میں سنہ 1928 میں بہت مزین انداز میں شائع کیا گیا تھا، اس میں کسی ایسے آرٹسٹ نے مِنی ایچر پینٹنگز کی ہوئی تھیں جو کہ (انیسویں صدی کے برطانوی آرٹسٹ) روسیٹی یا برن جونز سے متاثر لگتا ہے۔’
میر تقی میر کے بارے میں اخبار نے لکھا ہے کہ ‘(لائبریری) میں میر کے کلام کی بھاری بھرکم ایک جلد ہے جس پر انگریزی میں درج ہے:
the whole of his numerous and celebrated composition in the Ordoo, or polished language of Hindoostan
اس جلد پر اس کے علاوہ ’سنہ 1811، کلکتہ‘ درج تھا۔
ان چار کتابوں میں سب سے چھوٹی میں میر کے کلام کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ تھا جس میں ‘برے شعرا کے لیے نصیحت’ لکھی ہوئی تھی۔ یہی اس کلام کا موضوع تھا۔ یعنی ‘جب احمق شعر کہتے رہتے ہیں تو وہ لوگوں کی لعن طعن ہی نہیں بلکہ تازیانوں کا ہدف بھی بنتے ہیں۔’
عطااللہ اوزئی۔درانی نے اپنی وصیت میں کہا تھا کہ ان دو شعرا کے مجموعوں کے ترجمے کا مقصد ان کے دوست کی یاد کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھنا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، ‘سید حسین سنہ 1920 اور سنہ 1930 کی دہائیوں میں باقاعدگی کے ساتھ امریکہ آتے تھے اور لیکچر دیا کرتے تھے۔ سنہ 1921 میں امریکہ میں پہلے دورے کے موقعے پر ان کا تعارف اولادِ رسول کہہ کر کرایا گیا تھا۔’
ڈاکٹر این میری شمل اور اردو ادب
جرمنی سے تعلق رکھنے والی تصوف اور اسلام سے گہری وابستگی رکھنے والی ڈاکٹر این میری شمل، جنھیں جرمن زبان کے علاوہ انگریزی، ترکی، فارسی اور اردو پر عبور حاصل تھا، اسی دور میں اپنی قابلیت کا سکّہ منوا چُکی تھیں۔ پہلے وہ مولانا جلاالدین رومی سے متاثر رہیں پھر ان کا رجحان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی طرف ہوا۔
کئی تحقیقی مقالوں اور کتابوں کی مصنف ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر این میری شمل اسلام، تصوف اور ترکی، فارسی اور اردو کے سکالر کی حیثیت سے شہرت پا چکی تھیں۔ علامہ اقبال میں گہری دلچسپی کی وجہ سے انھوں نے 1950 کی دہائی سے پاکستان آنا جانا شروع کردیا تھا۔ وہیں سے انھیں ایک ایسا موقع ملا جو انھیں ہارورڈ یونیورسٹی لے آیا۔
دی ہارورڈ گزٹ کے مطابق، سنہ 1965 میں جب وہ کیلیفورنیا میں مذاہب کی تاریخ پر ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئی ہوئی تھیں تو وہاں ہارورڈ یونیورسٹی کے وِلفریڈ کینویل سمتھ نے ان سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ ‘ون منٹ رائس’ کے موجد نے ایک ترجمے کے منصوبے کے لیے ایک بڑی خطیر رقم ترکے میں چھوڑی ہے۔ ‘کیا آپ اس میں دلچسپی رکھتی ہیں؟’
ڈاکٹر این میری شمل نے انکار کردیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘اردو زبان کا ماہر نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود کو اس منصوبے کا اہل نہیں سمجھتی ہیں۔’ لیکن پروفیسر سمتھ اور ہارورڈ کے دیگر اساتذہ نے انھیں راضی کرنے کی کوششیں مسلسل جاری رکھیں اور بالآخر انھیں ہارورڈ لے آئے اور انھوں نے میر اور غالب کے کلام کے ترجمے کا کام شروع کر دیا۔
سنہ 1968 میں انھوں نے اردو کے تین بڑے شعرا، سودا، میر حسن اور غالب، کے کلام کا کچھ حصہ انگریزی میں شائع ہونے والے ترجمے کی کتاب کا پیش لفظ لکھا۔ یہ ترجمہ ہارورڈ یونیورسٹی نے شائع کیا تھا اور ترجمہ برطانیہ کے مستشرق رالف رسل اور خورشید الاسلام نے کیا تھا۔
‘عالمی شاعری عالمی مفاہمت کا نام ہے’
ڈاکٹر شمل سنہ 1992 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر اب تک خود مسلم سکالروں نے اتنی گہرائی سے نہیں لکھا تھا۔ انھیں نہ صرف امریکہ بلکہ مشرق وسطیٰ کے علاوہ ان کے اپنے وطن جرمنی میں بھی بے انتہا پذیرائی ملی ہے۔ انھیں کئی ایک اعزازی پی ایچ ڈیز بھی دی گئیں۔ ان کی کل ملا کر ایک سو سے زیادہ کتابیں بنتی ہیں۔
افغان طالب علم نے جب ہرات سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا تو اُس نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ وہ دنیا میں اپنی کامیابی اور اپنے شاعری کے ذوق کی وجہ سے اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی اور اپنے وقت کی سب سے بڑی سکالر کے ذریعے مغرب کو میر اور غالب کا کلام اپنے ایک دوست کی یادگار کے طور پر دے جائے گا۔
عطااللہ اوزئی۔درانی، سید حسین اور این میری شمل کا نام نہ صرف ان کی اپنی حیثیت میں امر ہوچکا ہے بلکہ میر اور غالب کے کلام کی وجہ سے انگریزی زبان میں بھی انمٹ نقوش بنا چکا ہے۔ یہ نقوش دنیا کی مختلف تہذیبوں کے لیے رابطے کا ذریعہ ہیں۔ ڈاکٹر شمل اپنے پسندید جرمن شاعر فریڈریش روکرٹ سے منقول بات کہتی تھیں: ‘عالمی شاعری عالمی مفاہمت کا نام ہے۔’
بشکریہ بی بی سی اردو سروس،لندن