مدرسہ ڈسکورسز کا یہ تیسرا بیچ ہے اور اس تیسرے قافلے میں راقم بھی شریک ہے۔ آغاز سے تاحال یہ پروگرام تنقید کی زد میں ہے۔ جوں جوں یہ متعارف ہورہا ہے تنقید کی لہر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر تنقید میں سواد اعظم کا اجماع دکھائی دیتا ہے۔ دیوبندیت، سلفیت، بریلویت، غامدیت، جامعیت، جوہریت غرض نگاہ کے سبھی زاویے اس پر ترچھے پڑ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ناقدین کے اعتبار سے اس پر ہونے والی تنقید کے محتویات اور محرکات مختلف ہیں۔ اس پر ڈسکورسز کے شرکا اور فضلا کی طرف سے بھی لکھا جارہا ہے۔ عمومی تاثرات پر مولانا سمیع اللہ سعدی کی تحریر بہت جامع ہے۔ اس موضوع بالخصوص تنقید کے جواب میں مزید کچھ لکھنا کارِ عبث ہے۔ تاہم ایک دو ملاحظات پیشِ خدمت ہیں۔
ویسے تو دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں مگر مدرسہ ڈسکورسز کے ڈھول کا تجربہ مختلف رہا۔ یہ ہمیں دور سے بہت کرخت محسوس ہوا تھا تاہم جوں جوں قریب آئے تو اس کے سُروں نے دل موہ لیے۔ میں نے اس سے متعلق احباب سے جب معلومات لیں اور اس کی بنا پر داخلہ لینے کا سوچا تو شرکت کے بعد حاصل شدہ معلومات سے بھی مفید تر پایا۔ موضوعات کے حوالے سے اس کی افادیت پر ان شاء اللہ وقتا فوقتا لکھوں گا۔ تاہم سر دست جو انقلاب محسوس ہوا وہ علم کی نہ بجھنے والی پیاس ہے۔ جس میں گذشتہ کچھ عرصے سے سیری کی کیفیت محسوس ہوتی تھی اور ہم اسے قدرت کے طرف سے "شرح صدر” کا مقام سمجھ رہے تھے۔ یہ وہ واحد "گمراہی” ہے جو میں نے اس پروگرام میں آنے کے بعد محسوس کی۔ ذاتی طور پر میری اس پروگرام میں دلچسپی کے کئی محرکات ہیں ان میں بالخصوص یہ موضوع کہ استشراق کے بعد مغربی فکر (western scholarship) کے مطالعہ اسلام کے حوالے سے کیا رجحانات ہیں؟ اس کے نتیجے میں فہم دین کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟ کیا یہ رجحانات ہماری علمی تاریخ میں پیدا شدہ رجحانات کی ارتقائی شکل ہیں یا ان کا منشا جدید ہے؟ اگر سابقہ رجحانات کے مماثل ہیں تو ہماری قدیم روایت انہیں کیسے دیکھتی ہے؟ اس عنوان پر مطالعہ اور مناقشہ میرے لئے بہت دلچسپ رہا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ مدرسہ کی روایت پر اعتماد میں حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ مدرسہ پر ہم جتنی بھی تنقید کریں مگر یہ بات بالکل درست ہے کہ مادیت کے اس ماحول میں اگر علمی و فکری خدمات کے لئے کسی طبقے نے خود کو حقیقی معنی میں وقف کیا ہے تو وہ اہل مدرسہ ہی ہے۔ کل جو فکری ازمات ابھرے تو اسی طبقے سے غزالی، رازی، ابن رشد اور ابنِ تیمیہ پیدا ہوئے۔ آج کے ازمات میں بھی امت اسی طبقے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ان شاء اللہ یہی امید کی کرن ہے۔ ان تمام ایجابی تاثرات کا سہرا مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ اور فائق رفقا کو جاتا ہے۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء
فی الجملہ تنقید کے حوالے سے بھی مجھے بہت اطمینان ہوا۔ الحمد للہ ہمارے بڑوں کی سرپرستی قائم ودائم ہے۔ وہ ہمیں اون (Own)کرتے ہیں۔ ہمیں پرخطر راستوں پر چلتا دیکھ کر احتیاط کی تلقین کرتے ہیں۔ ہمارے اندر بغاوت کے جذبات ابھرتے دیکھتے ہیں تو ہماری مناسب گوشمالی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تاثر اس قدر خوبصورت ہے کہ تصور سے ہی دل ودماغ روشن ہوجاتے ہیں اور دہن میں چاشنی محسوس ہوتی ہے۔ الحمد للہ یہ بھی مدرسے کی دین ہے۔ اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو مدرسے کی روایت سے جڑا ہوا ہے۔ ہم بڑوں کے اس ناقدانہ مزاج کی قدر کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ایسے مخلص احباب اور اکابر کے ہوتے ہوئے کوئی اندھیرے میں گمراہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں گمراہی اپنا انتخاب ہو تو اور بات ہے۔
اٗئیر پورٹ پر فارن کرنسی کا آڈٹ ہورہا تھا تو میں نے ایک دوست سے از راہ تفنن کہا کہ یار اگر مدرسہ ڈسکورسز سے پہلے ہدایت اور ضلال کے ہمارے اثاثوں کا اس طرح کا آڈٹ ہوجاتا تو بہت اچھا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ جس قدر "گمراہی کے اثاثوں” کے ہم پہلے ہی مالک ہیں وہ مدرسہ ڈسکورسز کے کھاتے میں پڑجائیں۔ اس لئے ناقدین سے میری ایک گزارش ہے کہ تنقید میں اسے ضرور ملحوظ رکھیں۔