پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خلاف کیس میں ویڈیو پیش کرنے تک فردِ جرم قبول نہیں کریں گے۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ‘میں پیشی پر وکلا کے ساتھ، باقی جو چند ملزمان ہیں ان دوستوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے آیا ہوں لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آج کس مقصد کے لیے سڑکوں پر کنٹینر لگائے گئے ہیں؟ ٹریفک جام کرکے صبح 8 بجے سے لوگوں کو مصیبت میں کیوں ڈالا ہوا ہے؟’
رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہاں پر کم از کم 5 سو پولیس اہلکار سول کپڑوں میں ڈیوٹی کر رہے ہیں تو یہ سمجھ نہ آنے والی بات ہے کہ اس قسم کا خوف و ہراس پھیلانے کی کیا ضرورت ہے؟
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ عدالت میں میرے وکلا نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ہم فردِ جرم کو اس وقت تک قبول نہیں کریں جب تک وہ ویڈیو پیش نہ کریں جس ویڈیو سے متعلق شہریار آفریدی اور ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ویڈیو ہے کہ رانا ثنااللہ خود ہیروئن بیگ سے نکال کر پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہریار آفریدی نے کہا تھا کہ وہ ویڈیو وزیراعظم کو بھی دکھائی ہے اور کابینہ میں بھی اس پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ اگر کوئی ویڈیو ہے تو عدالت میں پیش کریں وہ کب پیش کریں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ وہ عدالت میں موقف اختیار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پوری دنیا کو اور عوام کو دھوکا دینے اور کنفیوژ کرنے کے لیے یہ بات کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ویڈیو ہے، کبھی کہتے ہیں ہمارے پاس فوٹیج ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ ہم نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ ہمیں فوٹیج کی کاپی دی جائے، وہ ویڈیو جو ہے وہ نہیں ہے جو یہ کہہ رہے ہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ وہ ویڈیو ان کا پردہ چاک کردے گی جسے یہ چھپائے بیٹھے ہیں اسے ہم برآمد کروائیں گے، عدالت میں پیش کروائیں گے اور اس وقت تک یہ کیس آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اصل ویڈیو عدالت میں پیش نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جج صاحب کے سامنے یہ بات رکھی ہے کہ یہ اوپن کورٹ ہے اور ہائی کورٹ نے میری ضمانت کے احکامات میں یہ لکھ دیا ہے کہ اس کیس میں سیاسی انتقام کو خارج از امکان نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ یہ سیاسی انتقام ہے کہ عدالت کا محاصرہ کیا گیا ہے، آج بھی سول کپڑوں میں پولیس اہلکاروں نے عدالت کا محاصرہ کیا ہوا تھا، وہاں پر ملزمان کو پیشی کے لیے داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان کی عدالت نمبر ون ہے جہاں چیف جسٹس پاکستان بیٹھتے ہیں وہاں باقاعدہ میڈیا کارنر ہے اور میڈیا کو عدالت کی ہر چیز رپورٹ کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ اوپن کورٹ اسی کا نام ہے۔