جی ہاں، اچھی طرح نوٹ کرلیں کہ یہ یکساں کیسز نہیں ہیں۔
اگر کچھ نیوٹرلز دکھائی دینے کے شوقین تجزیہ نگار ایسا کہہ رہے ہیں، تو ان سے کہیے کہ کچھ نہیں تو صرف اس بنیادی ترین فرق پر غور کریں کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے نا اہل قرار دیا تھا اور وہ بھی تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد، جبکہ یہاں فیصلہ الیکشن کمیشن کا ہے جو عدالت نہین ہے۔ کیسے آپ دونوں فیصلوں کو یکساں کہہ سکتے ہیں؟
پھر دوسرے اہم ترین فرق کی طرف آئیے۔
نواز شریف کے متعلق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جو فیصلہ کیا، اس کی بنیاد آئین کی دفعہ 62، ذیلی دفعہ 1، شق ایف ہے جس کے تحت نا اہلی کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ مذکورہ شخص "دیانت دار اور امانت دار” نہیں ہے، جس کے متعلق صحافیانہ زبان میں کہا جاتا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں ہے۔
عمران خان کے متعلق قومی اسمبلی کے سییکر کی جانب سے ریفرنس اسی دفعہ کے تحت بھیجا گیا تھا، لیکن الیکشن کمیشن اس دفعہ کے تحت فیصلہ نہیں کرسکا، نہ ہی کرسکتا تھا کیونکہ اس دفعہ میں تصریح کی گئی ہے کہ کسی کو اس وقت تک بد دیانت اور امانت میں خیانت کرنے والا نہیں کہا جائے گا جب تک اس کے متعلق عدالت یہ فیصلہ نہ کرے کہ وہ بد دیانت اور امانت میں خیانت کرنے والا ہے۔
چونکہ نواز شریف کے بد دیانت اور امانت میں خیانت کرنے کا اعلان سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کیا ہے، اس لیے وہ آئین کی دفعہ 62، ذیلی دفعہ 1، شق ایف کے تحت نا اہل ہیں اور چونکہ آئین میں یہ نہیں لکھا کہ کب تک نا اہل ہوں گے، نہ ہی نا اہلی کو دھونے کا کوئی راستہ بتایا گیا ہے، اس لیے سپریم کورٹ نے نواز شریف سے پہلے بھی اور نواز شریف کے متعلق بھی یہ قرار دیا تھا کہ اس دفعہ کے تحت بندہ نا اہل ہوجائے، تو وہ تا حیات نا اہل ہوگا۔
دوسری طرف چونکہ عمران خان کے خلاف کسی عدالت کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ موجود ہی نہیں ہے، اس لیے الیکشن کمیشن اس دفعہ کے تحت اسے نا اہل قرار نہیں دے سکتی تھی۔ ایسی صورت میں اس کے پاس واحد راستہ یہ تھا کہ وہ ریفرنس خارج کردیتی،
تاہم اس نے ریفرنس خارج کرنے کے بجاے یہ راستہ اختیار کیا کہ عمران خان کو آئین کی دفعہ 63، ذیلی دفعہ ایک، شق پی کے تحت نا اہل قرار دیا۔
اب آئیے اس فیصلے کی طرف کہ یہ فیصلہ کیوں بالکل ہی غلط ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تبصرے سے قبل نوٹ کرلیں کہ آئین کی دفعہ 63، ذیلی دفعہ 1، شق پی کہتی کیا ہے؟
دفعہ 63 میں نا اہلیت کی مختلف صورتوں کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں یہ شق کہتی ہے کہ کسی اور رائج الوقت قانون کی رو سے اگر کسی کو نا اہل قرار دیا گیا ہو، تو وہ بھی نا اہل ہوگا۔ یہ وہ بات ہے جس کو میڈیا میں اس طرح رپورٹ کیا جارہا ہے کہ عمران خان کو for the time being نا اہل قرار دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت کی غلط تعبیر ہے۔ یہ ترکیب for the time being in force قانون کےلیے استعمال ہوئی ہے، نہ کہ نا اہلی کےلیے، اور مراد یہ ہے کہ جو قانون اس وقت رائج ہے۔
اب آئیے اس بات کی طرف کہ الیکشن کمیشن نے کون سا ایسا قانون دریافت کرلیا ہے جو اس وقت رائج ہے (for the time being in force) اور جس کے تحت عمران خان کو نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے قانونی سورماؤں نے بہت محنت کی تو 2017ء کے الیکشنز ایکٹ میں تین دفعات ڈھونڈ لائے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ تین دفعات کیا کہتی ہیں۔
ان میں پہلی دفعہ ہے 137۔ اس میں قرار دیا گیا ہے کہ ہر سال 31 دسمبر کو ہر رکن پارلیمان اپنے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کرائے گا اور یکم جنوری کو الیکشن کمیشن ان اثاثوں کی تفصیل شائع کرے گا۔ اگر کسی نے اثاثوں کی تفصیل جمع نہیں کرائی، تو 16 جنوری کو کمیشن اس کی رکنیت معطل کر دے گا۔ آپ نے اکثر اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ اثاثوں کی تفصیل جمع نہ کرانے کی وجہ سے اتنے ارکان اسمبلی کی رکنیت معطل کردی گئی۔ بعد میں تفصیل جمع کرا لیتے ہیں، تو رکنیت بحال ہوجاتی ہے۔ بہرحال یہاں تک تو اس دفعہ میں نا اہلی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس دفعہ میں آگے لکھا ہے کہ اگر کسی رکن نے اثاثوں کے متعلق بنیادی طور پر غلط تفصیل دی (found to be false in materials particulars)، تو اس کے خلاف 120 دن کے اندر اس بنیاد پر کارروائی کی جائے گی کہ وہ "غلط طرز عمل” (corrupt practice) کا مرتکب ہے۔
اب یہاں پہلے تو یہ بتائیے کہ عمران خان کے خلاف ریفرنس تو اگست میں بھیجا گیا تھا، جبکہ آخری دفعہ اثاثوں کی تفصیل وہ دسمبر میں دے چکے تھے، تو ان کے خلاف تو زیادہ سے زیادہ اپریل کے آخر تک اس دفعہ کے تحت کارروائی ہوسکتی تھی۔ اب اگست میں بھیجے گئے ریفرنس پر اکتوبر میں فیصلہ کیسے دیا جاسکتا تھا؟
بہرحال آگے بڑھیے۔ یہاں تک تو آپ نے دیکھ لیا کہ دفعہ 137 کے تحت عمران خان کو نا اہل نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اگر ان پر اثاثوں کے متعلق غلط بیانی کا الزام ہے، تو اس الزام پر کارروائی اپریل تک ہوسکتی تھی۔ پھر بھی آپ نے کارروائی کرنی ہی تھی تو آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ کارروائی براہِ راست نا اہلی کی ہونی تھی یا اس سے قبل ابھی کچھ اور بھی کرنا تھا؟
اب آئیے غلط طرزِ عمل یا کرپٹ پریکٹس کے متعلق الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 167 کی طرف۔ یہ وہ دوسری شق ہے جس پر الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں انحصار کیا ہے۔
اس دفعہ میں کرپٹ پریکٹس کی درج ذیل صورتیں ذکر کی گئی ہیں:
- کسی کو رشوت دینا، کسی اور کا بہروپ بھرنا، پولنگ بوتھ یا الیکشن کے کاغذات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ وغیرہ؛
- کسی مخصوص مذہب، علاقے یا برادری وغیرہ کے نام پر کسی سے ووٹ مانگنا؛
- کسی کو ووٹ ڈالے بغیر جانے پر مجبور کرنا؛ یا دفعہ
- 132 کی خلاف ورزی۔
دفعہ 132 میں الیکشن کے اخراجات کے متعلق قواعد دیے گئے ہیں۔
اس دفعہ 167 کو بار بار پڑھیے اور بتائیے کہ اس کا توشہ خانہ کیس کے ساتھ تعلق کہاں سے بنتا ہے اور اس پر نا اہلی کا کیس تعمیر کرنا چہ معنی دارد؟ یہ دفعہ تو دراصل انتخابات کے دوران میں ووٹ ڈالنے کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے متعلق ہے!
الیکشن ایکٹ کی تیسری شق جس پر الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں انحصار کیا ہے، وہ ہے دفعہ 173۔ آئیے، وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔
دفعہ 173 کا عنوان ہے: جھوٹا بیان یا اعلان گھڑنا یا شائع کرنا۔
لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے سورماؤں نے صرف یہ عنوان پڑھ کر ہی اسے اس کیس میں لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اندر متن پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ورنہ وہ ایک دفعہ بھی پڑھ لیتے تو جان لیتے کہ اس دفعہ کا بھی اس کیس سے تو کوئی تعلق بنتا ہی نہیں ہے۔ یہ دفعہ تو اصل میں اس بارے میں ہے کہ انتخابات میں کسی امیدوار یا اس کے کسی رشتہ دار پر جھوٹے اور بے ہودہ الزامات لگائے جائیں، یا انتخابی نشان کے متعلق ہفوات و خرافات بیان کی جائیں، یا کسی امیدوار کے دستبردار ہونے پر افسانے گھڑے جائیں، یا قرضوں، سرکاری ٹیکسز یا بجلی وغیرہ کے بلوں کے متعلق کوئی بڑی غلط بیانی کی جائے، تو اس کے خلاف کارروائی ہو۔
اس میں زیادہ سے زیادہ اس آخری شق کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اس کا موجودہ کیس کے ساتھ کچھ تعلق بنتا ہے۔ باقی ساری باتیں قطعی غیر متعلق ہیں۔
تاہم اس آخری بات کے متعلق بھی ثابت کرنا ہوگا کہ غلط بیانی بنیادی تفصیلات (material particulars) کے بارے میں ہے اور وہ بھی سرکاری ٹیکس وغیرہ کے امور میں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس تفصیل میں جائیں تو یہ کتنا دشوار اور لمبا سفر ہے جو کم از کم الیکشن کمیشن کے بس میں ہے ہی نہیں۔
پھر بھی مان لیجیے کہ اس ساری داستان میں بس یہی شق تھی جس کے تحت کارروائی ہوئی، تو اب آئیے اس بنیادی سوال کی طرف جو اس تحریر کے شروع میں اٹھایا گیا ہے۔ کیا اس قانون کی اس شق میں اس عمل کی سزا نا اہلی مقرر کی گئی ہے؟ اگر نہیں، تو پھر آئین کی دفعہ 63، ذیلی دفعہ 1، شق پی کے ساتھ اس کا تعلق تو ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہاں تو یہ قرار دیا گیا تھا کہ کسی رائج الوقت قانون کی کسی شق میں کسی کو نا اہل قرار دیا گیا ہو۔ تو کیا اس شق کے تحت کسی کو نا اہل قرار دیا گیا ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں:
الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 174 کا حوالہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں نہیں دیا گیا، لیکن وہ سب سے اہم ہے کیونکہ وہاں کرپٹ پریکٹس کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو 3 سال تک کی قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
تو، عزت مآب چیف الیکشن کمشنر و ارکان الیکشن کمیشن، آپ سے تھوڑی بھول چوک ہوگئی ہے۔ آپ پہلے اس دفعہ کے تحت عمران خان کو سزا دلوائیے۔ اس کے بعد انھیں آئین کی دفعہ 63، ذیلی دفعہ 1، شق جی کے تحت نا اہل کروائیے کیونکہ وہاں قرار دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کو عدالت نے کسی ایسے جرم میں مجرم قرار دیا گیا جس کی سزا 2 سال سے کم نہ ہو تو وہ 5 سال کےلیے پارلیمان کی رکنیت کےلیے نا اہل ہوجائے گا!
اوہو!
لیکن اس کےلے تو ضروری ہوگا کہ اسے عدالت میں، نہ کہ الیکشن کمیشن میں مجرم ثابت کریں، اسے عدالت سے، نہ کہ الیکشن کمیشن سے سزا دلوائیں، اور پھر بھی وہ 5 سال کےلیے نا اہل ہوجائے گا، نہ کہ تا حیات!
تو آگیا ہے سمجھ میں کہ نواز شریف اور عمران خان کے کیسز کیوں یکسر مختلف ہیں؟