چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ کے درمیان ہونے والی حالیہ خط و کتابت نے پاکستان کی عدلیہ کے اندرونی معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس پر "من پسند فیصلے” کرنے اور "شخصی آمریت” اپنانے کا الزام عائد کیا اور عدالتی انتظامات پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے ایک سخت الٹی میٹم بھی دیا۔ تاہم، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نہایت مدلل اور جامع انداز میں ان الزامات کا جواب دیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ مکمل طور پر حقائق اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے عدلیہ کی شفافیت اور اصلاحات پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ جوابی خط ان الزامات کی بے بنیاد نوعیت کی وضاحت کرتا ہے اور ساتھ ہی سپریم کورٹ میں اہم اصلاحاتی اقدامات اور شفافیت کی بحالی کے عزم کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے عہد میں عدلیہ کے نظام کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیلات فراہم کیں اور کسی آئینی بحران کے تاثر کو سختی سے مسترد کیا۔ ان کے مطابق، ایسے بیانات ججوں کے لیے غیر موزوں ہیں اور یہ ملک کے سیاسی، معاشی، اور مالی استحکام پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
یہ خط ہمارے قارئین کے لیے ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی عدلیہ کے اندرونی معاملات اور اصلاحات کو قریب سے دیکھ سکیں اور جان سکیں کہ کس طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کے نظام میں شفافیت اور بہتری کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افکار پاک پر اس اہم دستاویز کی اشاعت عدلیہ کی شفافیت اور قانون کی بالادستی کے حوالے سے ایک مثبت مکالمے کو جنم دے گی۔ (ایڈیٹر)
میرے پیارے شاہ صاحب،
بہ حوالہ آپ کے خط مورخہ 23 ستمبر 2024 جو ’سپریم کورٹ (عمل اور طریقِ کار) ایکٹ 2023‘ کے تحت قائم کمیٹی کی سیکریٹری‘ کے نام ہے (بالترتیب ’رجسٹرار‘، ’کمیٹی‘ اور ’ایکٹ‘)، اور جس کی نقول ’سپریم کورٹ کے تمام ججز‘ کو بھیجی گئی تھیں۔ کمیٹی کی میٹنگ میں رجسٹرار نے جسٹس امین الدین خان اور مجھے آپ کے خط کی کاپی فراہم کی، لیکن صحافیوں نے ہم سے پہلے ہی اسے حاصل کر لیا تھا۔
ایکٹ نے درج ذیل کام کیے:
- آئینی تشریح کے متقاضی مقدمات کا فیصلہ کرنے والا بنچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا؛
- آئین کی دفعہ 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے براہ راست فیصلے کے خلاف اپیل ہوسکے گی اور ایک بڑا بینچ اس کی سماعت کرے گا؛
- جس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دی جائے اس میں وکیل کی تبدیلی کی اجازت؛
- فوری نوعیت کے مقدمات کو 14 دن کے اندر مقرر کرنا؛ اور
- بینچز کی تشکیل ایک تین رکنی کمیٹی کے ذریعے ہو گی جس کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے۔
- جسٹس منیب اختر، جن کی آپ غیر متزلزل حمایت کرتے ہیں، نے اس ایکٹ کی مخالفت کی۔
میرے فیصلے کی تعریف کرنے اور ’راجا عامر خان بمقابلہ وفاق پاکستان‘ کیس میں میرا حوالہ دینے کے لیے آپ کا شکریہ۔ اس کا سہرا میرے تمام معزز ساتھیوں (جن میں آپ بھی شامل ہیں) کو جاتا ہے جنھوں نے اس سے اتفاق کیا۔ اس فیصلے نے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کیا اور ساتھ ہی بینچز مقرر کرنے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی من مانی کو ختم کیا۔ سماعت کے دوران جسٹس اختر کی طرف سے چیف جسٹس کے مکمل اختیارات کے زبردست دفاع کا بھی ذکر ہونا چاہیے، لیکن ایسا کرتے ہوئے میں یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ انھوں نے یا دوسرے معزز ساتھیوں نے (جو اقلیت میں تھے) ایسا اس لیے کیا کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی راہ پر تھے، اور نہ ہی میں جناب مظاہر علی اکبر نقوی پر سوال اٹھاتا ہوں، جنھیں سپریم جوڈیشل کونسل نے بدعنوانی کا مرتکب قرار دے کر ہٹا دیا تھا۔
سپریم کورٹ رولز 1980ء (’رولز‘) کے تحت چیف جسٹس کو بینچز کی تشکیل کا اختیار تھا، تاہم اس اختیار کا بعض افراد نے، خاص طور پر آئینی تشریحات کے معاملات میں، جن کے دور رس اثرات تھے، غلط استعمال کیا۔ میرے معزز پیشروؤں کی جانب سے بینچز کی ترتیب اور ہر بار جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اختر کو ان میں شامل کرنا اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا ان کی دانشمندی ان کے سینئرز سے برتر تھی۔
ایکٹ کے قانون بننے سے پہلے (جب یہ ایک بل کی شکل میں تھا) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے، جسٹس اختر اور دیگر معزز ججوں کی مدد سے، 13 اپریل 2023 کو چیف جسٹس کے اختیارات کو محفوظ رکھنے کے لیے مداخلت کی، اور ایسا کرنے کے بعد اس کیس کا فیصلہ نہیں کیا؛ یہ پہلا کیس تھا جس کا میں نے چیف جسٹس کے طور پر فیصلہ کیا۔
آپ نے صحیح یاد کیا کہ میں ’قانون کے تحت متعارف کردہ اجتماعیت اور شفافیت پر مضبوطی سے یقین رکھتا تھا، اسی لیے بطور سینئر جج، انھوں نے ]میں نے[ کسی بھی بینچ میں بیٹھنے سے خود کو الگ رکھا اور راجہ عامر کیس کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے کئی مہینوں تک چیمبر کے کام کا انتخاب کیا۔۔۔ اس ایکٹ کی اہمیت۔۔۔ اس طرح اجاگر ہوئی کہ یہ پہلا اور واحد کیس تھا جسے انھوں نے ]میں نے[ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سنا۔‘ آپ میری ’اجتماعیت پسندی‘ کی توثیق کرتے ہیں، لیکن آپ کی جانب سے آپ میرے چیمبر تک چند قدم چل کر اپنے خیالات شیئر نہیں کر سکے اور اس کے بجائے الٹی میٹم دیے۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ آپ نے آرڈیننس نمبر VIII بابت 2024 پر، جسے آپ ’ترمیمی آرڈیننس‘ کے نام سے یاد کر رہے ہیں، رائے دی ہے۔ آپ سے عمر میں بڑے اور قانون میں 42 سالہ تجربے کا حامل ہونے کے ناطے مجھے یہ مشورہ دینے کی اجازت دیجیے کہ ترمیمی آرڈیننس پر رائے دینا، جیسا کہ آپ نے کیا، اور اپنے خط کو ساتھی ججز میں تقسیم کرنا جبکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے فیصلے کے لیے پیش ہو سکتا ہے، مناسب نہیں تھا۔
ترمیمی آرڈیننس نے تین رکنی کمیٹی برقرار رکھی ہے؛ چیف جسٹس اور سب سے سینئر جج کمیٹی کے رکن رہیں گے، تاہم قانون اب چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے ججز میں سے کسی تیسرے رکن کو نامزد کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
شاہ صاحب! آپ نے میری جانب سے کمیٹی کے تیسرے رکن کو تبدیل کرنے پر سوال اٹھایا اور مجھے الٹی میٹم دیا کہ جب تک جسٹس اختر کو دوبارہ کمیٹی میں شامل نہیں کیا جاتا، آپ اس کے اجلاسوں میں شرکت نہیں کریں گے۔ احترام کے ساتھ عرض ہے کہ آپ کی یہ درخواست قانون کے منافی ہے۔
کمیٹی کے تیسرے رکن کی میری جانب سے تبدیلی پر قانونی طور پر آپ سوال نہیں اٹھا سکتے۔ تاہم چونکہ میں ہمیشہ جوابدہی اور شفافیت کا قائل رہا ہوں، اس لیے میں آپ کو جسٹس اختر کی تبدیلی کی وجوہات بتاؤں گا۔ یہ بات یاد رکھیں، مبادا کوئی اس کا برا مانے، کہ میں یہ سب آپ کے اصرار پر کر رہا ہوں۔ جسٹس اختر کو تبدیل کرنے کی وجوہات درج ذیل ہیں:
- جسٹس اختر نے اس ایکٹ کی سختی سے مخالفت کی، جس نے سپریم کورٹ پر چیف جسٹس کی بالادستی بھی ختم کی تھی۔
- وہ ان دو ججز میں سے ایک تھے جنھوں نے مقدمات کے بڑھتے ہوئے بوجھ سے لاتعلقی کرتے ہوئے گرمیوں کی مکمل چھٹیاں لیں۔
- چھٹیوں پر جانے کی بنا پر، جبکہ وہ عدالتی کام کےلیے دستیاب نہیں تھے، وہ کمیٹی کے اجلاسوں میں شرکت پر اصرار کرتے رہے، جس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ انھیں اپنے بعد کے سینئر جج پر اعتماد نہیں ہے۔
- ایکٹ کے مطابق فوری نوعیت کے مقدمات 14 دن کے اندر مقرر کرنا لازم ہے، لیکن اس قانونی شق اور نظرِ ثانی کے آئینی حق کی نفی اس وجہ سے ہوئی کہ انھوں نے اپنی چھٹیوں کے دوران فوری نوعیت کے آئینی مقدمات سننے سے انکار کیا۔
- اپنے سینئرز (عارضی ججز) کا احترام نہ کرنا اور ان کےلیے صرف 1100 مقدمات مخصوص کر کے انھیں صرف ان کی سماعت تک محدود کرنا، جس کی اس سے قبل کوئی نظیر نہیں ملتی۔
- طویل عرصے سے زیر التوا مقدمات کی سماعت کےلیے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ میں شامل نہ ہونے دینا۔
- یہ کہنا کہ ایک عارضی جج ’چیمبر کا کام‘ کرنا چاہیے جب تک ان کے دوسرے معزز ساتھی خاندان میں ایک فوتگی کے باعث چھٹی سے واپس نہ آ جائیں۔
- کمیٹی کے ایک معزز رکن، جس میں تمام چیف جسٹسز، سینئر ججز اور معزز وکلا شامل تھے، کے ساتھ درشت اور غیر معقول رویہ دکھانا اور اجلاس چھوڑ کر چلے جانا۔
- ان کے زیر صدارت بینچ اکثر مقدمات ملتوی کر دیتا ہے اور اکثر 11 بجے سے پہلے کام ختم کردیتا ہے، جس پر ان کے ساتھی ججز نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔
- ان معاملات میں حکمِ امتناعی جاری کرنا جن میں ان کے متعلق بات کی گئی ہو، جیسے آڈیو لیکس مقدمہ۔
- اہم آئینی مقدمات میں فوری ریلیف دینا، لیکن پھر ان کی سماعت نہ کرنا اور فیصلہ نہ کرنا، جیسا کہ مذکورہ بالا دو مقدمات میں ہوا۔
حقائق معلوم کیے بغیر آپ نے الزام لگایا کہ میں نے تیسرے رکن کے طور پر جسٹس یحییٰ آفریدی کو نظرانداز کیا۔ اگر کسی کی خواہش تھی کہ جسٹس آفریدی کو کمیٹی میں شامل نہ کیا جائے، تو وہ جسٹس اختر تھے (جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا)۔ جب کمیٹی کا اجلاس 20 ستمبر 2024 کو ہونا تھا، تو میں نے جسٹس آفریدی سے رابطہ کیا، لیکن وہ دستیاب نہیں تھے۔ لہٰذا میں نے جسٹس امین الدین خان سے درخواست کی، جنھوں نے مہربانی کرتے ہوئے لاہور جانے کا پروگرام منسوخ کیا۔ بعد میں آپ نے رجسٹرار کو (نہ کہ مجھے یا میرے دفتر کو) بتایا کہ آپ کی ایک اور مصروفیت ہے۔ آپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن دو دن بعد آپ نے فیصلہ کیا کہ آپ بالکل شرکت نہیں کریں گے جب تک میں آپ کے الٹی میٹم کو تسلیم نہیں کرتا۔ بہرحال، کل آپ کے سامنے میں نے جسٹس آفریدی سے پوچھا تو جواباً انھوں نے کہا کہ وہ کمیٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔
میرے خلاف ایک اور غیر معقول الزام ’ذاتی پسند و ناپسند اور غیر جمہوری آمرانہ طرز عمل‘ کا لگایا گیا ہے۔ آپ کی بے کار کی لفاظی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ جو کچھ حاصل کیا گیا ہے اس کی فہرست بنانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن چونکہ ایک جھوٹا بیانیہ عوام میں پھیلایا گیا ہے، اس لیے آپ نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے:
- کئی چیف جسٹسز نے خود کو ایک چنیدہ گروہ میں محدود کر لیا تھا (ہم سب جانتے ہیں وہ کون تھے) اور عملاً سپریم کورٹ پر قبضہ جما لیا تھا۔
- سپریم کورٹ کی زیادہ تر کمیٹیوں کی سربراہی چنیدہ گروہ نے کی۔
- فل کورٹ اجلاس نہیں ہوتے تھے۔ چار سال کے وقفے کے بعد اور میرے چیف جسٹس بننے پر ان کا دوبارہ آغاز ہوا۔
- کچھ سابق چیف جسٹسز کی طرف سے سماعت کےلیے مقرر کیے جانے والے مقدمات کی فہرست کی منظوری اور اس میں مقدمات کو شامل کرنے یا ہٹانے کی بے بنیاد روایت کو فوری طور پر روک دیا گیا۔ اب یہ فہرست رولز کے مطابق رجسٹرار تیار کرتی ہیں۔
- مقدمات کو ”پہلے اندراج، پہلے فیصلہ“ کی بنیاد پر سننے کی روایت کو یقینی بنایا، سوائے ان معاملات کے جہاں قانون یا کیس کی نوعیت اس کے برعکس عمل کی متقاضی ہو۔
- ایک ایسے صدارتی ریفرنس کو سنا اور فیصلہ کیا جس کی سماعت اور جس کا فیصلہ بہت پہلے ہونا چاہیے تھا؛ میرے پیشروؤں نے اس کے بہت بعد بھیجے گئے ریفرنسز کو ترجیح دیتے ہوئے ان کا فیصلہ کیا۔
- اہم آئینی مقدمات کو سننے کے لیے فل کورٹ کی تشکیل کی روایت دوبارہ متعارف کروائی؛ ایک سال سے کم عرصے میں دو بار، جبکہ اس سے قبل نو طویل برسوں میں کسی بھی مقدمے کے لیے فل کورٹ کی سماعت نہیں ہوئی تھی۔
- پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سنگین غداری کا مقدمہ سنا اور اس کا فیصلہ کیا جسے میرے پیشروؤں نے محاورتاً سردخانے میں ڈال دیا تھا؛ ایک قانونی نظیر قائم کی اور ان نتائج کا تعین کی جن کا سامنا آئین کو معطل کرنے والوں کو کرنا پڑے گا۔
- انتخابات کے مقدمات کو فوری طور پر مقرر کرنے اور ان کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ پہلے منتخب افراد سپریم کورٹ سے حاصل شدہ اسٹے آرڈرز پر انحصار کرتے ہوئے اپنی مدت یوں گزار لیتے تھے کہ ان کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا تھا۔
- معلومات تک رسائی کا حق (آئین کی دفعہ 19 اے) کو نافذ کیا، اور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم کیا جس نے طے کیا تھا کہ اس بنیادی حق کی پابندی سپریم کورٹ پر لازم نہیں ہے۔
- عوامی مفاد کے اہم مقدمات کی پہلی بار براہِ راست نشریات شروع کیں۔
- سپریم کورٹ نے ’سہ ماہی رپورٹس‘ جاری کرنا شروع کیں، جو دنیا کے چند ہی ممالک میں کیا جاتا ہے۔
- بینچز کی تشکیل میں کسی قسم کی جانبداری یا گروپ بندی کا خاتمہ کیا۔
- جمہوریت کی بحالی کو یقینی بنایا اور 8 فروری 2024 کو پورے ملک میں انتخابات ہوئے۔
- لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم کیا جس نے 8 فروری 2024 کو انتخابات کا انعقاد عملاً ناممکن بنا دیا تھا۔
- تاحیات نااہلی کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کیا، جو آئین سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
- بار کونسلوں، بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے منتخب عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں، ان کے مسائل سنے اور انہیں حل کرنے میں مدد دی۔
- وکلاء اور سائلین کو سہولت دینے کے لیے مقدمات کی ماہانہ اور پھر پندرہ روزہ فہرستیں شائع کیں۔
- ساتھیوں کو معقول وقت میں فیصلے لکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
- ساتھیوں کو ہفتے کے دن کام کرنے کے لیے درخواست کی کیونکہ یہ دن فیصلہ لکھنے کےلیے مختص کیا گیا ہے۔
- گرمیوں کی تعطیلات کو ایک ماہ کم کیا اور ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ وہ سال میں ایک ماہ سے زیادہ چھٹیاں نہ لیں۔
- جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے قواعد 2010 میں ترامیم تجویز کرنے کےلیے ایک کمیٹی تشکیل دی (جس میں آپ شریک صدر ہیں)، اور نامزدگی کے متعلق طے کیے گئے چیف جسٹس/چیئرمین کے مطلق حق کو چھوڑ دیا۔
- چیف جسٹس/چیئرمین کی جانب سے ’ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر‘ سینیئر ججز کو نظرانداز کرکے جونیئر ججوں کو نامزد کرنے کی روایت کو ختم کردیا۔
- سپریم کورٹ میں تمام ججزکی تعیناتی یقینی بنائی۔
- سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ میں ایک عالم رکن کی تقرری کی، اسے فعال کیا اور اس کا اجلاس منعقد کیا، جو 4 سال کے وقفے کے بعد ہوا۔
جب یہ سب کچھ حاصل کیا جا چکا ہے تو آپ کا یہ کہنا کہ ملک ’آئینی بحرانوں‘ میں مبتلا ہے، مجھے تشویش میں ڈال دیتا ہے۔ ایک جج کے لیے ایسی بات کہنا جو سیاسی، معاشی اور مالی استحکام کو نقصان پہنچائے، مناسب نہیں ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس بات کا مقصد کیا ہے؟
شاہ صاحب، قانون مجھے سپریم کورٹ کے کسی بھی جج کو کمیٹی میں نامزد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور میں نے معقول وجوہات کی بنا پر اپنے اختیار کا استعمال کیا ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے جیسے آپ ہمارے دوسرے معزز ساتھیوں کو اس کام کے لیے اہل نہیں سمجھتے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس معاملے پر دوبارہ غور کریں گے اور ایک بار پھر کمیٹی میں شامل ہو کر عوام کی خدمت کے لیے اپنی قیمتی شراکت کو یقینی بنائیں گے تاکہ سپریم کورٹ بہتر طریقے سے اپنے کام انجام دے سکے۔ ہم میں سے ہر ایک کو زیر التواء مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
آپ کا مخلص
(قاضی فائز عیسیٰ)
پس نوشت: چونکہ آپ نے رجسٹرار کو لکھنا پسند کیا اور اپنے خط کی نقول ہمارے تمام معزز ساتھیوں کو بھیجیں، اس لیے میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ جھوٹے بیانیے کا ازالہ کروں، لہٰذا میں بھی انھیں اس خط کی نقول ان کو بھیج رہا ہوں تاکہ وہ اسے ملاحظہ کرسکیں۔
2 تبصرے
پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار چیف جسٹس آف پاکستان نے الزامات کا انتہائی منطقی انداز میں جواب دیا ہے۔ تمام نکات جو زیر بحث آئے ہیں، وہ معقول اور درست معلوم ہوتے ہیں۔ اگر ماضی میں بھی چیف جسٹسز اسی طریقہ کار پر عمل کرتے تو عدلیہ کو جھوٹے پراپیگنڈے سے بچایا جا سکتا تھا۔ عوام کا سپریم کورٹ آف پاکستان پر اعتماد اور یقین مزید مضبوط ہوتا۔
Good things are happening but some decisions are based on controversies that must be avoided .