ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد بابر نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا نام لیے بغیر سوال کیا کہ میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے تو ماضی میں آپ اتنی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے تھے، مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں کررہے تھے اور اگر وہ واقعی آپ کی نظر میں غدار ہیں تو پھر آج بھی ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینئر اور ممتاز صحافی ارشد شریف کی کینیا میں وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات کے بارے میں آپ کو کچھ آگاہی دینا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس سربراہ نے میڈیا سے براہ راست گفتگو کی ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس کے اہم نکات:
- سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔
- اے آر وائی نیوز نے فوج کو نشانہ بنانے میں ’اسپن ڈاکٹر‘ کا کردار ادا کیا؛ سی ای او سلمان اقبال کو پاکستان واپس لانا چاہیے۔
- خیبر پختونخوا حکومت نے اگست میں ایک خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا گروپ ارشد شریف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔
- ارشد شریف کو کسی نے دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
- مارچ میں آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی ’پرکشش پیشکش‘ کی گئی تھی۔
- غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ فرد واحد نہیں بلکہ طویل بحث کے بعد لیا گیا۔
- لانگ مارچ یا اسلام آباد آنا سب کا جمہوری حق ہے۔
- 27 مارچ کے بیانیے کا ’حقیقت سے دور دور تک‘ کوئی تعلق نہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب حقائق کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹ، فکش اور رائے میں تفریق کی جا سکے اور سچ سب کے سامنے لایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت اور حساسیت کی وجہ سے وزیر اعظم پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر اگاہ کیا گیا ہے بلکہ اس عوامل کا احاطہ کرنا بہت ضرری ہے جن کی بنیاد پر ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا اور اسی جھوٹے بیانیے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اداروں اور ان کی لیڈرشپ حتیٰ کہ چیف آف آرمی اسٹاف پر بھی بے جا الزام تراشی کی گئی اور اس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم اور اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، دکھ اور رکلئیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی لہٰذا جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو ارشد شریف صاحب نے اس پر بھی متعدد پروگرام کیے، اس حوالے سے انہوں نےا س وقت کے وزیراعظم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں اور ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے، جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی کہ شاید انہیں مختلف میٹنگز کے منٹ اور سائفر بھی دکھائے گئے۔
27مارچ کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ٹکڑا لہرانے پرحیرت ہوئی، ڈی جی آئی ایس پی آر
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ اس سلسلے میں کسی قسم کا ابہام اور قیاس آرائی پیدا نہ ہو اور قوم سچ جان سکے۔
انہوں نے کہاکہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے تو آرمی چیف نے 11مارچ کو کامرہ میں سابق وزیراعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑے بات نہیں ہے لیکن ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔
’سفیر کی رائے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا‘
ان کا کہنا تھا کہ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 31مارچ کی نیشنل سیکیورٹی میٹنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ ورانہ انداز میں نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے تحقیقات میں کسی بھی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے اور یہ شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، ہم نے شواہد کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم یہ فیصلہ ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی کی جانب سے کی گئی ان تحقیقات کو منظر عام پر لائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک ’رجیم چینج آپریشن‘ کا حصہ تھی۔
’ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا‘
انہوں نے کہا کہ پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر کئی صحافیوں سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔
’اے آر وائے چینل نے پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کیخلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، اس میڈیا ٹرائل میں اے آر وائے چینل نے بالخصوص پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک ’اسپن ڈاکٹر‘ کا کردار ادا کیا اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کی میٹنگز اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا حتیٰ کہ دوسرے اجلاس میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جوکہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور غیرسیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا دفتر خارجہ نے سائفر چھپایا؟، بابر افتخار
ان کا کہنا تھا کہ نے کہا کہ اس تمام پروپگینڈے کے باوجود ادارے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود مسائل کا حل نکالیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا دفتر خارجہ نے سائفر چھپایا؟ جو اس وقت سائفر ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف پھر کیا ایکشن لیا گیا؟ اگر نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا؟ اور ان کے نام کیوں نہیں لیے جاتے؟۔
انہوں نے کہا کہ لفظوں کے ہیر پھیر، گمراہ کن اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اداروں اور ان کی قیادت کو غدار ٹھہرا کر کٹہرتے میں کھڑا کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مرحوم ارشد شریف علاوہ دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے بھی سائفر کے حوالے سے باتیں کیں اور بہت سخت باتیں بھی کیں، ارشد شریف تو نومبر 2021 سے اے آر وائے چینل کے پلیٹ فارم سے اداروں پر تنقید کررہے تھے جس میں انہوں نے مختلف اداروں کے حوالے سے سخت تنقیدی پروگرامز بھی کیے لیکن اس کے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات تھے نہ ہیں، کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کررہے تھے لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہے، آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ تمام سائفر ڈرامے کے دوران ہم نے جب بھی کسی چینل یا صحافی سے ہم نے بات کی تو یہی کہا کہ بنا ثبوت اور من گھڑت مفروضات پر غداری اور سازشوں کے الزامات ادارے کی قیادت پر نہ لگائے گئے اور فوج کے غیرسیاسی رینے کے موقف کو متنازع نہ بنایا جائے۔
’خیرپختونخوا حکومت نے ارشد شریف کے حوالے سے تھریٹ الرٹ جاری کیا‘
انہوں نے کہا کہ آج دیکھنا یہ ہو گا کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، پانچ اگست 2022 کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اے آر وائے اینکر ارشد شریف کے حوالے سے ایک تھریٹ الرٹ جا ری کیا گیا، ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم تحریک طالبان پاکستان کے گروپ نے اسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو ارشد شریف کو راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سیکیورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کی گئیں کہ کیسے اور کس نے خیبر پختونخوا حکومت کو یہ اطلاع دی کہ ارشد شریف صاحب کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہوں گی مگر ہم سازشی اور غدار نہیں ہوسکتے اور مارچ میں قمر جاوید باجوہ کو عہدے میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیش کی گئی تھی۔
ادارے نے غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا، اس لیے یہ بیانیہ بنایا گیا، ڈی جی آئی ایس آئی
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جس کے جوان دن رات اس وطن کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کی دفاع کا ہراول دستہ بن کر کام کرتے ہیں۔
’ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی طویل خاموشی ٹھیک نہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ جب ان جوانوں کو جھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تحضیک اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لہٰذا اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میں خاموش نہیں رہ سکتا، جب ایک جانب سے جھوٹ اتنی روانی سے بولا جائے کہ ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی طویل خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہے، میں کوشش کروں گا کہ بلا ضرورت سچ نہ بولوں، قوم نے میرے منصب اور مجھ پر یہ بوجھ ڈالا ہے کہ میں ان رازوں کو اپنے سینے میں لے کر قبر میں چلا جاؤں لیکن جہاں ضرورت محسوس ہوگی میں وہ راز آپ کے سامنے رکھوں گا تاکہ اپنے جوانوں اور شہدا کا دفاع کر سکوں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ لسبیلا میں ہمارے جوان اس مٹی کی خاطر شہید ہوئے لیکن ان کا بھی مذاق بنایا گیا، اس لیے میر جعفر، میر جعفر صادق اور غدار جیسے القابات کے پس منظر سے متعلق آپ کے پہلے سوال کا میں جواب دے دیتا ہوں۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کسی کو شواہد کے بغیر میر جعفر میر صادق کہیں تو اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ بالکل 100 فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے، لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظریہ کیوں بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میر جعفر کہنا، غدار کہنا، نیوٹرل کہنا، جانور کہنا یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ میں نے، میرے ادارے نے یا آرمی چیف نے کوئی غداری کی، یہ اس لیے بھی نہیں کہ انہوں نے کوئی غیر آئینی غیرقانونی کام کیا ہے، بلکہ یہ اس لیے ہے کہ ادارے نے غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے سے انکار کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ اگر جنرل قمر جاوید باجوہ چاہتے تو اپنے آخری 6 سے 7 ماہ بہت سہولت کے ساتھ گزار سکتے تھے، وہ یہ فیصلہ نہ کرتے اور اپنے آپ کو مقدم رکھ کر آرام سے نومبر میں ریٹائر ہو کر چلے جاتے، نہ کسی نے تنقید کرنی تھی نہ اتنی غلاظت ہونی تھی، لیکن انہوں نے ملک اور ادارے کے حق میں فیصلہ دیا اور اپنی ذات کی قربانی دی۔
آرمی چیف کو مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کا انکشاف
لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آرمی چیف پر اور ان کے بچوں پر کتنی غلیظ تنقید کی جاتی رہی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جب وہ چلے جائیں تو ان کی لیگیسی میں ایک ایسا ادارہ ہو جس کا آئینی رول ہو، اس کا ایسا رول نہ ہو جسے متنازع بنایا جاسکے، لہٰذا اس چیز کی خاطر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ مارچ میں آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت تک توسیع کی بھی پیشکش کی گئی، یہ پیشکش میرے سامنے کی گئی، یہ بہت پرکشش پیشکش تھی، لیکن انہوں نے اس بنیادی فیصلے کی وجہ سے یہ پیشکش بھی ٹھکرادی کہ ادارے کو متنازع رول سے ہٹا کر آئینی رول پر لانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو حق ہے اپنی رائے دینے کا، میں اس حق کا احترام کرتا ہوں، بحیثیت سپاہی میں اس حق کا احترام کرتا ہوں اور اس حق کا ہر ممکن حد تک تحفظ کروں گا، لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے تو ماضی میں آپ اتنی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے تھے، اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے تو آپ اس کی مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں کررہے تھے؟
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے لیکن آپ ان کو کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو ساری زندگی اس ملازمت پر رہنا ہے تو رہیں، اگر وہ واقعی آپ کی نظر میں غدار ہیں تو پھر آج بھی ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں، مجھے آپ کے ملنے پر اعتراض نہیں ہے، آپ ملیے، ہمارا فرض ہے اس ملک کے ہر شہری کی آواز پر لبیک کہنا، لیکن یہ نہ کریں کہ آپ رات کی خاموشی میں بند دروازوں کے پیچھے ہم سے ملیں اور اپنے آئینی و غیرآئینی خواہشوں کو اظہار کریں، یہ بھی آپ کا حق ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دن کی روشنی میں آپ اسی شخص کو غدار کہیں، آپ کے قول و فعل اور فکر و تدبر میں اتنا بڑا تضاد ٹھیک نہیں ہے۔
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم بھی حکومت کے نیچے ایک ادارہ ہیں اور قانون کے مطابق ہمارے پاس جو چیزیں ہیں اس کے مطابق ہم کام کرتے ہیں، ہم نے پہلے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اگر کوئی فوج کے خلاف بات کرتا ہے یا کوئی تہمت لگاتا ہے تو جیسے آزادی اظہار رائے کا حق پاکستان کا آئین دیتا ہے اسی طرح کردار کشی کی اجازت آئین بالکل نہیں دیتا، خاص طور پر اداروں پر بات کرنے کی اجازت بھی پاکستان کا آئین نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون پر عملدرآمد حکومت پاکستان کو کرنا ہوتا ہے، اگر کسی ادارے پر کوئی انگلیاں اٹھا رہا ہے تو حکومت وقت نے اس کے خلاف ایکشن لینا ہے، اس مد میں جب بھی کوئی اس طرح کی چیز ہوئی ہے تو ہم نے حکومت کے ذریعے اس کو اپروچ کیا ہے، حکومت ان کے بارے میں جو بھی ایکشن لیتی ہے یہ ان کی صوابدید ہے، کسی کو گرفتار یا کچھ کرنا ہماری صوابدید نہیں ہے، ہم صرف حکومت سے درخواست کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی انفارمینش نہیں تھی، جب خیبرپختونخوا حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہمارے پاس ایسی کوئی انفارمیشن نہیں تھی، ادارے کی جانب سے ایسی کوئی انفارمیشن نہیں شیئر کی گئی، اس کو بعد میں جانچا بھی گیا کہ یہ انفارمیشن کہاں سے آئی۔
انہوں نے کہا کہ (فیصل واڈا کی) کل والی پریس کانفرنس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں جو انکوائری کمیشن بنا ہے وہ ان تمام لوگوں اور شواہد کو دیکھے گا، اسی لیے میں نے کہا کہ اس کیس کی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات ہوں، جس نوعیت کے انٹرنیشنل اور فارن ایکسپرٹس اس میں شامل کیے جائیں، ٹیکنالوجکلی بھی اس کو دیکھیں، اس کے بغیر اگر یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا تو اس کا بہت نقصان ہوگا، اس لیے اگر انہوں (فیصل واڈا) نے کل کوئی بات کی ہے اور اگر وہ اس کے بارے میں کلیئر ہیں تو مجھے یقین ہے کہ انکوائری کمیشن اس چیز کو دیکھے گا۔
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ کہ ارشد شریف شہید بہت قابل اور محنتی صحافی تھے، میں ذاتی طور پر ان کی عزت کرتا ہوں، ان کے سیاسی آرا سے کچھ احباب کو غالباً اختلاف ہے لیکن ان کے نام، کام اور لگن سے کسی کو انکار نہیں، مگر پیسے جو معلومات ہیں اور تحیقیق کی بنیاد پر آپ کو بتا سکتا ہوں کہ شہید ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے خاندان میں غازی بھی ہیں اور شہید بھی، جب وہ یہاں پر تھے تو ان کا اسٹیبلشمٹ سے اور میرے اپنے ادارے کے لوگوں سے رابطہ تھا، جب وہ باہر چلے گئے تب بھی رابطہ تھا، اس مہینے بھی انہوں نے میرے ساتھ کام کرنے والے (بی جی سی) جنرل صاحب سے رابطہ رکھا، اپنی واپسی کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کینیا میں اس کی انکوائری ہورہی ہے، میں وہاں اپنے ہم منصب سے بھی رابطے میں ہوں، ان کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق شناخت کی غلطی کے باعث یہ حادثہ پیش آیا، اس پر حکومت پاکستان اور ہم شاید مکمل طور پر مطمئن نہیں ہیں، اسی لیے حکومت نے ایک ٹیم بنائی ہے جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی، حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی بنایا ہے، میں نے دانستہ طور پر ان دوںوں نے فورمز سے آئی ایس آئی کے ارکان نکال لیے تاکہ قوم کے سامنے غیر جانبدار اور 100 فیصد شفاف تحقیقات ہوں اور جو بھی اس کا نتیجہ آئے گا اس سے ان شا اللہ ڈی جی آئی ایس پی آر آپ کو آگاہ رکھیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انفارمیشن کی شیئرنگ کو غلط رنگ نہیں دینا چاہیے، جہاں تک تنقید کی بات ہے تو تنقید ہر ایک کا حق ہے، بطور ادارہ تنقید پر کوئی مسئلہ نہیں ہوا، مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایک چیز تنقید سے بڑھ کر الزام تراشی اور من گھڑت پروپگینڈے کی ڈومین میں چلی جائے، یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں ہر قیمت پر احتراز برتنا چاہیے، خاص طور پر تب جب ہم اپنے اداروں کے بارے میں بات کررہے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی فورم نہیں ہے جہاں ہم ہر روز آکر کسی کی کہی ہوئی بات کا جواب دے سکیں، نہ یہ ہمیں یہ سوٹ کرتا ہے نہ ہمیں یہ کرنا چاہیے، اسی لیے اداروں کا دفاع حکومت وقت کرتی ہے لیکن تنقید پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونی چاہیے کہ تعیناتی اپنے وقت پر ہوگی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، بیشک وہ رائے مجھ پر تنقید ہی کیوں نہ ہو، بحیثیت سولجر آپ کے اس حق کے تحفظ کا ذمہ دار ہوں، آپ صبح شام ہمارا موازنہ کیجئے لیکن پیمانہ یہ رکھیے کہ میں نے ملک اور قوم کے لیے کیا کیا ہے، یہ پیمانہ نہ رکھیے کہ میں نے آپ کی ذات اور سیات کے لیے کچھ کیا ہے یا نہیں، یہ پیمانہ ٹھیک نہیں ہے، اگر میں ملک کے لیے کام ٹھیک نہیں کررہا ہوں اور قوم کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا ہوں تو آپ براہ مہربانی مجھ پر تنقید کریں، میں بہت خوش اسلوبی سے اپنے کام میں بہتری لاؤں گا۔
اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مشہور مقولہ ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کی رائے کا حق ہے لیکن اپنے مرضی کے حقائق کا نہیں، رائے کا اظہار کریں لیکن حقائق مینوفیکچر نہ کریں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بدقسمتی سے پروپیگینڈا اور ففتھ جنریشن وار فیئر کی اساس یہی ہو کہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جائے اور ان کی بنیاد پر افواہیں اور پروپگینڈا کیا جائے۔
مارچ میں آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک ملازمت کرنے والی شخصیت سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جتنی انفارمیشن انہوں نے شیئر کی ہے میرے خیال میں وہ اتنی ہی شیئر کر سکتے ہیں، اس سے مزید اگر وہ شیئر کر سکتے تو ضرور شیئر کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2021 کے بعد سینیٹ کا الیکشن ہوا تھا جس میں آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا، اس کے بعد کسی بھی الیکشن میں آپ دیکھ لیں، ضمنی انتخابات، کنٹونمنٹ الیکشنز، بلدیاتی انتخبات دیکھ لیں، رواں برس ہونے والے انتخابات دیکھ لیں، کہیں پر بھی بھی فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا کوئی ثبوت کسی کو ملا ہو تو بتائیں، بار بار دھاندلی کا کہا جاتا ہے، ہم نے بارہا اس بارے میں بات کی کہ اگر کوئی ثبوت ہے تو لیکر آئیں، مجھے یقین ہے کہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے انٹرنیشنل چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان دنیا میں اسٹریٹجیکلی ایک اہم ملک ہے، اس کے چیلنجز ہمیشیہ رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہر چیلنج کے ساتھ مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں، اس لیے عالمی سطح پر ہمارے لیے بہت سے مواقع بھی موجود ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے اپنا اپنا کام کررہے ہیں، اور ان شا اللہ ہم اس سے نمٹ لیںگے، اس حوالے سے فکر کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے، اس بارے میں ہر ایک کی رائے ہوسکتی ہے جس کے مطابق آگے چلا جا سکتا ہے لیکن ہر کام کرنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔