"دوہری حکومت” یا diarchy کا نظام انگریزوں نے ہندوستان میں "قانونِ حکومتِ ہند 1919ء” کے ذریعے صوبوں کی سطح پر متعارف کروایا جس کی رو سے حکومت کے دو نظام بیک وقت قائم کیے گئے:
ایک جانب گورنر اور اس کی مجلس مشاورت ہوتی تھی اور دوسری جانب وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ۔
قانون سازی کے لیے صوبے کے اختیارات کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
"محفوظ امور” (reserved subjects) جن پر صرف گورنر اور اس کی کونسل کا اختیار تھا؛ اور
"منتقل شدہ امور” (transferred subjects) جو وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ کی طرف منتقل کیے گئے تھے۔
گورنر بمع کونسل کسی کو جواب دہ نہیں تھا جبکہ وزیراعلیٰ بمع کابینہ صوبائی اسمبلی کے سامنے جواب دہ تھا۔
1935ء کے قانونِ حکومتِ ہند کے ذریعے صوبوں میں یہ دوہری حکومت ختم کردی گئی لیکن مرکز میں اسے نافذ کیا گیا اور وہاں اسی طرح گورنرجنرل ان کونسل کے پاس "محفوظ شدہ امور” تھے جبکہ وزرا کے پاس کچھ "منتقل شدہ امور” ہوتے تھے۔
یہی 1935ء کا قانون بعض ترامیم کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کے لیے عبوری دستور کے طور پر رائج کیا گیا۔
1956ء میں ہم نے اپنا پہلا دستور نافذ کیا تو بظاہر "دوہری حکومت” سے مرکز میں بھی نجات پالی لیکن دو سال بعد ہی فوج نے آکر اس دستور سے قوم کو نجات دلادی۔
پھر 1962ء میں فوج نے قوم کو دوسرے دستور کا تحفہ دیا جس میں تمام اختیارات فاتح صدر کی طرف اسی طرح جاتے تھے جیسے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرف تمام سڑکیں جاتی ہیں۔
پتہ نہیں کیا ہوا لیکن 1969ء میں فوج کو ضروری محسوس ہوا کہ اپنے ہی بنائے گئے دستور سے قوم کو نجات دلانے کا فیصلہ کرلیا اور یوں فقہی اصطلاح میں ہبہ سے رجوع کرلیا!
فوج نے ہی ایک عارضی بندوبست کے طور پر 1970ء میں Legal Framework Order دیا اور پھر کسی وجہ سے پاکستان آدھا رہ گیا تو 1972ء میں اسی آرڈر میں کچھ ترامیم کرکے عبوری دستور کے طور پر نافذ کیا گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک سولین کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی مان لیا اور صدر بھی۔
بہرحال 1973ء میں ایک اور دستور قوم کو دیا گیا جس پر سیاسی جماعتوں کا تقریباً اتفاق بھی ہوا لیکن پھر فوج نے مجبور ہوکر 1977ء میں قوم کو اس دستور سے بھی نجات دلائی۔
دستور کا آپریشن کلین اپ کرچکنے کے بعد 1985ء میں ایک دفعہ پھر فوج نے قوم کو دستور کا تحفہ دیا لیکن جب قوم نے اس تحفے کی قدر نہیں کی اور بالخصوص تیرھویں اور چودھویں ترمیم کے ذریعے اس کا حلیہ مسخ کردیا تو 1999ء میں پھر فوج کو مجبور ہوکر قوم کو نجات دلانے کے لیے آنا پڑا۔
مذہبی و سیاسی جماعتوں کی آشیرباد سے بالآخر فوج 2003ء میں قوم کو ایک دفعہ پھر دستور کا تحفہ سترھویں ترمیم سمیت دینے میں کامیاب ہوگئی لیکن پھر چند قدرناشناس ججوں سے نمٹنے کے لیے 2007ء میں فوج کو اپنے ہی دیے گئے تحفے کو پھر کچھ مدت کے لیے واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
پلوں کے نیچے جب بہت سا پانی بہ گیا ، اور کچھ پانی پلوں کے اوپر بھی آگیا، تو پھر بالآخر فوجی صدر نے گارڈ آف آنر لینے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے جانے کے بعد 2010ء میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا حلیہ پھر تبدیل کرلیا گیا ۔
نوبحال شدہ ججوں نے پارلیمنٹ کو پھر انیسویں ترمیم پر بھی مجبور کیا اور اس کے بعد بیسویں ترمیم بھی کرنی پڑی لیکن تاریخ کا اہم موڑ تب آیا جب دہشت گردوں کو لاپتہ کرانے کے لیے اکیسویں ترمیم کی ضرورت پڑ گئی اوردو سال کے لیے فوجی عدالتیں بھی بنالی گئیں۔
پھر جب وہ دو سال کی مدت بھی پوری ہوگئی اور فوج کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی قریب آگیا ہے تو کئی لوگ افواہیں پھیلانے میں لگ گئے ہیں کہ قوم کو ایک دفعہ پھر نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔ 2016ء میں بڑی مشکلوں سے فوج نے خود کو ایک دفعہ پھر قوم پر احسان کرنے سے روک دیا اور آرمی شیف کی تعیناتی بخیر و عافیت ہوگئی۔
تاہم 3 سال بعد 2019ء میں پھر وہی مرحلہ آیا اور اس دفعہ تو سپریم کورٹ کو بھی نوٹس لینا پڑا کہ آخر آرمی چیف کی تعیناتی یا مدت میں توسیع ہوتی کس قانون کے تحت ہے؟ کیا وزیر اعظم اس کا اختیاررکھتا ہے؟ یا وزیرِ اعظم یا کابینہ کے مشورے سے صدر یہ تعیناتی یا توسیع کرتا ہے؟ اور جو بھی کرتا ہے، کس قانون کی کس شق کے تحت؟ اب کے آرمی ریگولیشنز، آرمی ایکٹ، آرمی رولز اور آئین کی دفعات کے علاوہ پچھلی تعیناتیوں کی سمریاں، سب کچھ کھنگالنے اور چھاننے کے بعد بھی اس قانون کا سرا ہاتھ نہ آیا جس کے تحت یہ کام ہوتا ہے، تو سپریم کورٹ کو مان لینا چاہیے تھا کہ یہ بھئی 1919ء سے ہم 2019ء میں آگئے ہیں لیکن اب بھی یہاں دوہری حکومت ہی کا نظام ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہہ بھی دیا تھا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا لیکن چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اب کے اس بارے میں قانون کو تحریری صورت میں لانا ہی ہوگا۔ انھوں نے فیصلے کی ابتدا میں لکھا بھی کہ آپ خواہ کتنے ہی اونچے مقام پر ہوں، قانون آپ سے اونچا ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کیا ہوا کہ اس مسئلے پر یہ مان چکنے کے بعد کہ آئین و قانون میں ایسا کوئی اختیار موجود نہیں ہے، فیصلہ دینے سے گریز کیا اور پارلیمان کو آئین میں ترمیم اور قانون سازی کےلیے وقت دے دیا۔ غیر آئینی فیصلے کی اس سے بڑی مثال ماضیِ قریب میں شاید ہی کہیں مل جائے!
بہرحال، جب بات پارلیمان پر آگئی، تو کیا پی ٹی آئی، کیا نون لیگی، کیا پیپلز پارٹی، کیا اے این پی، کیا قوم پرست، کیا 5 لاکھ علماے کرام کے نمائندے، سب نے مل کر باہمی اتفاق اور محبت و یگانگت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے آئین میں ترمیم بھی کرلی اور قانون سازی بھی کی۔ اب طے پایا کہ آرمی چیف کو ایک کیا دوسری دفعہ بھی توسیع بھی دی جاسکتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ 64 سال کی عمر میں اسے ریٹائر ہونا پڑے گا۔
جنرل باجوہ تو ابھی نومبر میں 63 سال کے ہوجائیں گے، تو گویا انھیں ایک سال کی مزید توسیع دی جاسکتی ہے، بلکہ بعض منہ پھٹ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 2019ء میں آئینی ترمیم کا مطلب ہی یہ تھا کہ 2023ء تک جنرل باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے لیکن جب اس سمجھوتے سے انحراف کے آثار نظر آنے لگے، تو "رجیم چینج” کی ضرورت بھی محسوس کی جانے لگی۔
حقیقتِ حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جنرل باجوہ کی جانب سے نومبر میں ریٹائر ہونے اور مزید توسیع نہ لینے کا اعلان کیا جاچکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب خارجہ و داخلہ امور پر بیان بازی سے لے کر کرکٹ کوچنگ اور چلغوزے کی کاشت تک کے امور کا اختیار بھی "محفوظ شدہ امور” میں چلا گیا ہے تو وزیراعظم اور اس کی کابینہ کے پاس "منتقل شدہ اختیارات” میں کیا رہ گیا ہے؟ ایسے میں اگر تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل پریس کانفرنس کریں تو اس میں حیرت کی بات کیا ہے؟ اسے تو بس آسان الفاظ میں اس حقیقت کا کھلے عام اعتراف سمجھیں جو 1919ء سے 2022ء تک مانتے تو سب تھے لیکن اس کے بارے میں بولتا کوئی نہیں تھا۔ پھر بھی اگر وزیرِ اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ پریس کانفرنس سے پہلے جنرل صاحب نے ان سے اجازت لی تھی، تو اسے سال کا سب سے بہترین لطیفہ نہ کہیں تو کیا کہیں؟
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں، سو آپ کرے ہیں،ہم کو عبث بدنام کیا!