واشنگٹن میں سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے اپنے والد شہزادہ بندر بن سلطان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں کے علاوہ اپنی زندگی اور خواتین کو بااختیار بنانے میں اپنے کردار کے بارے میں بات کی ہے۔
شہزادی ریما بنت بندر نے "مو شو” پوڈ کاسٹ کی ایک قسط کے دوران کہا ہے کہ واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر کے عہدے کے لیے ان کے انتخاب کا لمحہ ان کے لیے سب سے جذباتی دن تھا اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ ان کی زندگی مکمل طور پر بدل گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا میں نے ملک کے لیے اپنا سب کچھ دینے کا خواب دیکھا تھا لیکن سفیر بننے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔
ریما بنت بندر نے بتایا کہ انہوں نے واشنگٹن میں سفیر بننے سے قبل خواتین کو با اختیار بنانے کے معاملے میں کچھ کاموں میں تعاون کیا تھا۔ انہیں کاموں میں 2000 میں خواتین کے فنٹس سنٹر کے قیام میں میری شرکت تھی، اس سنٹر کو سلائی ورکشاپ کا لائسنس دیا گیا تھا کیونکہ خواتین اس قابل نہیں تھیں کہ اس وقت ان فزیکل سنٹرز کی مالک ہوں یا اس کا لائسنس حاصل کر سکیں۔
خواتین کیلئے خدمات
اس نے اشارہ کیا کہ میں نے اس وقت قانون سے تصادم کے بغیر خواتین کی خدمات فراہم کیں اور اس ضمن میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کوشاں رہی۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ موجودہ وقت میں مملکت کی قیادت اور خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے سامنے رکاوٹیں ختم کرنے میں حکومت کی دلچسپی کی روشنی میں اب ایسے حالات نہیں ہیں۔
شہزادہ ریما نے مزید کہا کہ انہوں نے "الف خیر” سماجی فاؤنڈیشن بھی قائم کی تاکہ خواتین کو خدمات فراہم کی جائیں، اس ادارے سے بیواؤں اور مطلقہ خواتین کی دیکھ بھال کی جاتی ہےاور معاشرے کو ضرورت مند خواتین اور اپنے سماجی حالات کو بہتر بنانے سے قاصر افراد تک پہنچنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ خاص طور پر چونکہ طلاق کی صورت میں تمام خواتین کی زندگی میں یکساں مواقع نہیں ہوتے تو ان پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔
انہوں نےزور دیا کہ وہ خواتین کو مواقع تک رسائی فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، تاکہ اس فاؤنڈیشن کا دائرہ سالانہ300 سے 400 خواتین سے بڑھ کر 11 ملین خواتین تک پھیل جائے۔ اس کے لیے انہیں قومی تبدیلی کے پروگرام میں حصہ لینے سے پہلے 10 یا 20 سال کام کرنا پڑے گا۔
موجودہ نسل کی ذمہ داری
انہوں نے زور دیا کہ موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والی نسل تک کام کرنے کے اپنے وژن اور مقصد کو اور درپیش چیلنجوں اور مشکلات کے بارے میں بتائے ۔ یہ وہ مشکلات اور چیلنجز ہیں جن کا سامنا 2030 کی نسل کو سعودی عرب کے مستقبل کی تعمیر میں کرنا پڑا ہے۔
انہوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد شہزادہ بندر بن سلطان کی شخصیت کے دو رخ تھے۔ ایک عوامی پہلو تھا اس میں وہ سفارت کار اور مکالمہ کرنے والے تھے، اور دوسرا ذاتی پہلو تھا جس میں وہ آپ کو زندگی ملنے والے افراد میں سے سب سے دلچسپ آدمی نظر آتے ہیں۔ وہ غیر معمولی کہانیوں کے ساتھ ایک بہت ہوشیار شخص بھی ہیں ، وہ اپنی زندگی کے تجربے کو انسانی سطح پر پیش کر سکتے ہیں ۔ وہ ایسے استاد ہیں جو زندگی کے اسباق دیتے ہیں۔
انہوں نے امریکی عوام کو مشورہ دیا کہ وہ اہم سیاسی سرخیاں پڑھ کر سعودی عرب کو دیکھنے اور سمجھنے سے اجتناب کریں۔ انہیں سعودی عرب کے متعلق مزید جاننا چاہیے کیونکہ یہ بڑا خوبصورت اور پرتعیش ملک ہے اور اس کے لوگ حیرت انگیز ہیں ۔ انہوں نے کہا میں سعودی عرب کی یہ تصویر امریکہ کے مختلف خطوں میں پہنچانے کیلئے کام جاری رکھے ہوئے ہوں۔