اقبال سے معذرت كہ ہم پرخود فریبی كی نیند طاری ہے اس كی بانگ درا اس قافلے كو بیدار نہیں كر پا رہی۔اس كی بال جبریل ہمارےانفس و آفاق میں كہیں گم ہو گئی ہے۔ اب اس كے پر تو موجود ہیں لیكن یہ فریب خوردہ شاہین اب چٹانوں سے اتر آیاہے۔ طائر لاہوتی كی طاقت پرواز ختم ہو چكی ہے۔ اب ہمیں كسی بھی رزق سے نہ موت كا ڈر ہے نہ پرواز میں كوتاہی كا خوف۔ ارمغان حجاز میں نہ نغمہ ہندی سنائی دیتا ہے نہ حجازی لے۔ نہ عرب ہمارا رہا ہے نہ چین۔ ہم توحید كی امانت سینوں میں لئے منتظرفردائے امریكہ ہیں۔اس امید پر كہ امریكی تہذیب ایك نہ ایك دن اپنے خنجر سے آپ خود كشی كرے گی ہمارا سیل رواں پاسپورٹ بدست مغرب كی وادیوں میں اذان كے لئے بے تاب ہے۔ ہمارے گو امریكہ گو كے نعروں میں امریكہ چلو كی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ گرین كارڈ كی تمنا بار بار لب پہ دعا بن كے آتی ہے۔
میں اقبال سے معافی مانگنا چاہتا ہوں كہ نہ اب میرا نالہ بے باك رہا ہے نہ اس میں آسماں چیرنے كی ہمت ہے۔ میرے شكووں پر نہ گردوں توجہ دیتا ہے، نہ چاند اور ستارے۔ اب تو اس جنت سے نكالے كو نہ رضواں پہچانتا ہے نہ فرشتے۔ ان كے تبسم ہائے پنہانی سے طنز نمایاں ہے كہ اس مسجود ملائك كو خلافت راس نہیں آئی۔ یہ بھی مخلوق قدیم كی طرح خون خوار اور فسادی بن گیا ۔ خاك كی چٹكی میں آگ اور بارود كا خمیر شامل ہو چكا ہے۔ عجز كے اسرار سے نا محرم مٹی كا یہ پتلا اپنی طاقت گفتار سے خود ہی مسحور ہو چكا ہے۔نعروں كی توپوں كی گھن گرج میں سر مست، خود كشی كی بے خودی میں مخمور، خلافت ارضی كا یہ وارث نفرت اور تكفیر كے ہتھیاروں سے فتح عالم پر مصر ہے۔
میں اقبال سے معافی مانگنا چاہتا ہوں كہ نہ اب میرا نالہ بے باک رہا ہے نہ اس میں آسماں چیرنے كی ہمت ہے۔ میرے شكووں پر نہ گردوں توجہ دیتا ہے، نہ چاند اور ستارے۔ اب تو اس جنت سے نكالے كو نہ رضواں پہچانتا ہے نہ فرشتے۔ ان كے تبسم ہائے پنہانی سے طنز نمایاں ہے كہ اس مسجود ملائك كو خلافت راس نہیں آئی۔ یہ بھی مخلوق قدیم كی طرح خون خوار اور فسادی بن گیا ۔ خاك كی چٹكی میں آگ اور بارود كا خمیر شامل ہو چكا ہے۔ عجز كے اسرار سے نا محرم مٹی كا یہ پتلا اپنی طاقت گفتار سے خود ہی مسحور ہو چكا ہے۔نعروں كی توپوں كی گھن گرج میں سر مست، خود كشی كی بے خودی میں مخمور، خلافت ارضی كا یہ وارث نفرت اور تكفیر كے ہتھیاروں سے فتح عالم پر مصر ہے۔