سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنا دورہ ایشیا منسوخ کردیا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایشیا کی طرف دیکھ کیوں رہے ہیں؟
اس سوال کا جواب ہے امریکا سے بدلتے ہوئے تعلقات۔ یہ تعلقات کیسے ہیں یہ اسرائیلی اخبار ہارٹز کی ایک رپورٹ سے سمجھیں۔ ہارٹز کا کہنا ہے کہ ’حالیہ برسوں میں سعودی رویہ کیسے بدلا ہے یہ سمجھنے کے لیے اوپیک کا تیل کی پیداوار میں کمی لانے کا فیصلہ دیکھ لیں۔ 20 لاکھ بیرل تیل روزانہ کی کمی یہ بتانے کو کافی ہے کہ سعودی اب امریکا کے قابلِ اعتماد اتحادی نہیں رہے‘۔
یہ کیسے امریکی اتحادی ہیں جو ایران پر امریکی پالیسی کے مخالف ہیں، امریکا کو یمن کی لڑائی میں گھسیٹ لاتے ہیں اور امریکا کے دشمن نمبر ایک روسی صدر کے دوست ہیں۔ لگتا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک کو امریکی دائرے سے دُور لے جا رہے ہیں۔
سعودی امریکا سے کیسے اظہارِ محبت کر رہے ہیں یہ دیکھنے کے لیے سعودی گزٹ میں چھپے کالم کے کچھ جملے دیکھیں۔ ’اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کے فیصلے نے واشنگٹن میں اس تنظیم کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ جیسے پینڈورا باکس ہی کھل گیا ہو۔ کانگریس میں جو سانپ ہیں، خاص کر ڈیموکریٹک پارٹی میں وہ سعودی عرب کو ہدف بنانے باہر نکل آئے ہیں اور اب سعودی عرب پر توہین آمیز پابندیاں لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں‘۔
امریکی سینیٹ کمیٹی 5 مئی کو پہلے ہی نوپیک (نو آئل پروڈیوسنگ اور ایکسپورٹنگ کارٹل) کے نام سے ایک بل کی منظوری دے چکی ہے۔ اوپیک بمقابلہ نوپیک ذرا نام چیک کریں۔ نوپیک بل کے تحت تیل پیدا کرنے والے ملکوں پر مصنوعی طور پر قیمت بڑھانے کی صورت میں جرمانے عائد کیے جاسکیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی اور سعودی ایک دوسرے سے دُور ہوچکے ہیں۔
اس پسِ منظر میں جیک سلویان کا بیان آیا ہے کہ جی20 اجلاس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی صدر جو بائیڈن کی کوئی ملاقات متوقع نہیں ہے۔
سعودی ولی عہد نے انڈونیشیا میں جی20 اجلاس میں شرکت کے علاوہ ایشیائی ممالک کے اپنے تمام دورے ملتوی کردیے ہیں۔ انہوں نے جی20 جاتے ہوئے بھارت میں رکنا تھا، اس کے بعد کوریا جانا تھا، پھر پاکستان آنا تھا اور اس کے بعد جاپان جانا تھا۔ اب یہ سب دورے ملتوی کردیے ہیں۔
سعودی امریکی تناؤ میں ذرا پاکستان کی پوزیشن بھی چیک کریں۔ پاکستان نے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کے اعلان کی حمایت کی اور اسے جائز قرار دیا جبکہ امریکی اس پر غصہ ظاہر کرچکے تھے۔ امریکی صدر خود کہہ چکے تھے کہ اب سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر ازسرِ نو غور کیا جائے گا۔ اس سے بھی پہلے پاکستان، روس کے خلاف اقوامِ متحدہ کی ووٹنگ سے غیر حاضر رہ چکا تھا۔ سعودیوں کو یہ پاکستانی اقدام بہت پسند آئے ہوں گے۔
یوکرین کی جنگ سے تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے خوب کمائی کی ہے۔ اس جنگ سے ان ملکوں کی معیشت نے تیز رفتار ترقی کی ہے۔ پاکستان نے جو پوزیشن لی اس کے بعد سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلقات میں مزید گرم جوشی آئی۔
وزیرِاعظم شہباز شریف اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے سعودی عرب کے الگ الگ دورے بھی کیے۔ پاکستانی حکام سعودی حکام کے ساتھ زوم میٹنگ کرتے رہے اور پھر 18 ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ کاری اور معاشی مدد کے منصوبوں کے حوالے سے خبریں سامنے آئیں۔ 21 نومبر کو دورہ متوقع تھا لیکن پھر اچانک خبر آئی کہ یہ دورہ ملتوی ہوگیا ہے۔ یہ دورے بہت اہم تھے کیونکہ جاپان اور کوریا میں سعودی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کی بات آگے بڑھا رہے ہیں، جو تیل پر معاشی انحصار کو کم کرنے کی پالیسی کا اہم نکتہ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں جن منصوبوں کے حوالے سے معاہدات ہونے تھے ان میں مہمند ڈیم اور نیلم جہلم منصوبے سمیت توانائی کے دیگر منصوبے، سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے، آزاد کشمیر اور ایبٹ آباد میں زلزلے سے ہونے والے نقصان سے بحالی کے منصوبے، بلوچستان میں لوگوں کی رہائش اور روزگار کے منصوبے اور ترلئی میں شاہ سلمان اسپتال کی تعمیر کے منصوبے سمیت دیگر اہم منصوبے شامل تھے۔
اس کے علاوہ دونوں ممالک نے سعودی ڈیولپمنٹ فنڈ (ایس ڈی ایف) اور حکومتِ پاکستان کے درمیان خام تیل کی فراہمی اور اس کی فنانسنگ کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے اور اس فنانسنگ کی توسیع اور سعودی عرب سے ایل این جی کے حصول کے امکانات پر غور کرنے کے حوالے سے بھی ہامی بھری ہے۔
سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان تو دوبارہ طے ہو ہی جائے گا اور جن معاہدوں پر بات آگے بڑھی ہے ان پر بھی عملدرآمد ہوگا۔ اور اب جب سعودی ولی عہد کچھ ہفتوں بعد پاکستان آئیں گے تو آرمی چیف کی تعیناتی بھی ہوچکی ہوگی۔
مگر سوال یہ ہے کہ دورہ منسوخ کیوں ہوا؟ اس کے لیے آپ بھارتی اخبار کی رپورٹ دیکھیں۔ دی ہندو لکھتا ہے کہ مغرب کی حوصلہ افزائی کے باوجود روس یوکرین میں ثالثی کروانے کی کوشش بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ یوں بھارت کے اثرورسوخ کا جو تاثر ہے وہ بہت خراب ہوسکتا ہے۔
بھارت جی20 کا اگلے 2 سال کے لیے سربراہ ہوگا۔ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی اس کو اپنی بہت بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ روس یوکرین ثالثی کے لیے انہوں نے اپنے وزیرِ خارجہ کو سرگرم کر رکھا ہے جس کے نتائج کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس صورتحال کو سعودی اینگل سے دیکھیں۔ روس خرسون سے اپنی فوج پیچھے ہٹا چکا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے روس میں ضم کرنے کا اعلان بڑے فخر سے روسی صدر نے کیا تھا۔ اس اعلان کے کچھ ہفتوں بعد یہاں سے انخلا بدلتے حالات اور ناکام ہوتی فوجی کارروائی کی ایک بڑی نشانی ہے۔
یوکرین کی جنگ سے بہت کمائی کرنے والے سعودیوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس وقت بیک سیٹ لیتے، اپنی پالیسی کو ایک بار پھر سوچتے، مستقبل قریب میں لڑائی ختم ہوتی ہے تو کمائی میں کمی آئے گی۔ روس کے آسرے جو ری پوزیشننگ کی جارہی تھی وہ ڈانوا ڈول ہوسکتی ہے۔ بھارت، جہاں سعودی عرب ایک بڑی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے، وہ بھی ثالثی مشن پر ہے۔
ایسے میں سعودی قیادت نے ایک توقف کیا ہے جو بنتا تھا۔ پاکستان سعودی عرب کی کھلی حمایت کرکے باہمی تعلقات کو اگلی سطح پر لے جاچکا ہے جس کے سبب یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس دورے کا وقتی التوا آئندہ منصوبوں اور معاہدوں پر اثر نہیں ڈالے گا۔