گذشتہ کالموں میں سیاست پر پاکستانی اشرافیہ کے کنٹرول ، غیر موثر حکومتی نظام اور امپورٹ کے لیے اپنائے گئے غلط ماڈلز بارے بات کی تھی جن کے باعث پاکستان کی معیشت ہمیشہ دگرگوں مسائل کا شکار رہتی ہے۔ ہماری اشرافیہ پہلے ہی ہمارے بیشتر وسائل پر قابض ہے، اسے ہماری معاشی ترقی اور وسائل کی تقسیم کو بہتر کرنے سے کوئی غرض نہیں، اس کے پیش نظر وسائل میں موجود اپنے حصے کو برقرار رکھنا ہے۔ ہماری غیر مؤثر حکومتیں ہماری اشرافیہ کی خوب خدمت کرتی ہیں اورہر قسم کی نقل و حرکت کو روکتی ہیں تاکہ سماج میں جمود برقرار رہے۔ پھربرآمدات اور درآمدات کے لیے بنائی جانے والی ہماری روایتی پالیسیاں اشرافیہ تک بہترین منافع پہنچانے کو یقینی بناتی ہیں۔
غربت کے اس جال سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے ساتھ بارگین کیا جائے، تاکہ وہ عام آدمی کی ترقی پر امادہ ہوسکے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے ہم یہاں ترقی کے لیے چھ بنیادی ضرورتوں کا ذکر کرتے ہیں۔
میرے نزدیک ترقی کا پہلا زینہ آبادی پر کنٹرول کرنا ہے۔ تعلیم یا صحت پر ہم جتنے بھی وسائل لگاتے ہیں وہ اس وقت تک ناکافی رہیں گے جب تک کہ ہم اپنی آبادی میں ہونے والے مسلسل اضافے کو کنٹرول نہیں کرتے۔ ہماری آبادی بھارت اور بنگلہ دیش سے دو گنا جبکہ سری لنکا کی شرح سے تین گنا زیادہ ہو رہی ہے۔ جب تک ہم اپنی آبادی میں اضافے کو کم نہیں کرتے پاکستان ہمیشہ کے لیے غربت اور ناخواندگی میں ڈوبا رہے گا۔
امریکی ماہر اقتصادیات چارلس ٹائی باؤٹ نے 1950 کی دہائی میں شہریوں کے لیے اپنے پیروں سے ووٹ ڈالنے کا تصور پیش کیا ۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس مقابلے کی وجہ سے شہر اور ریاستیں شہریوں کو بہتر خدمات فراہم کریں گی۔
امریکی ریاستوں کو جنہیں بعض اوقات جمہوریت کی تجربہ گاہیں، کہا جاتا ہے۔ یہ ریاستیں مختلف نظریات کے ساتھ تجربہ کرتی ہیں اور اس وقت تک یہ تجربات جاری رہتے ہیں جب تک کامیابیاں ان کا مقدر نہ بن جائیں۔ امریکہ میں، طاقت اور ذمہ داریاں صرف اس کی 50 ریاستوں کو منتقل نہیں کی جاتیں بلکہ کاؤنٹیوں کو، جنہیں ہم ڈویژن کہتے ہیں اور شہر، جو عام طور پر بہت چھوٹے ہوتے ہیں بھی عام طور پر بہت ساری خدمات فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح ریاستوں اور شہروں کو اپنی زیادہ تر آمدنی خود اکٹھا کرنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے سب سے موثر وفاقی نظام کو نافذ کیا ہے، جہاں اخراجات اور ٹیکس کے فیصلے ایک ہی دائرہ اختیار سے کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کو ناقابل یقین حد تک اقتصادی طور پر مستحکم بنانے میں اس وفاقیت کا بڑا عمل دخل ہے۔
ڈینگ ژیاؤ پنگ نے جب چین کی معیشت کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے نہ صرف بیجنگ میں مرکزی بیوروکریسی کا استعمال کیا بلکہ چار دیگر خطوں میں بھی مقامی حکومتی عہدیداروں سے خصوصی اقتصادی زون قائم کرنے کی درخواست کی۔ان چار زونز میں سے ایک شینزین تھا جو بہت کامیاب رہا اور پانچ سالوں کے اندر اس اقتصادی زون سے متاثر ہو کر پورے چین میں 35 مزید زون بنا ئے گئے جو چینی برآمدات اور ترقی کے لیے انجن کا کردار ادا کرنے لگے۔ چین کے یہ اقتصادی زون آج بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں جنہیں چین کی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت میں نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ اپنی معیشت کے استحکام کے لیے چین کا یہ شاندار اقدام کسی معجزے سے کم نہیں۔
پاکستان کے چار بڑے صوبے آپس میں کوئی مقابلہ نہیں کرتے کیونکہ یہ مقابلے کی سکت نہیں رکھتے، لیکن اگر ہمارے ملک کے 38 ڈویژن اور 100 سے زائد اضلاع بھی آپس میں تقابل اور ترقی میں ایک دوسرے سے نکلنے کی روش اپنالیں تو ہمیں یقینی طور پر بہتر اور جوابدہ حکومتیں مل سکتی ہیں۔ صوبائی حدود کو برقرار رکھتے ہوئے بھی، ہمیں صرف اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر ڈویژن میں ایک منتخب کمشنر ہو اور ہر ضلع کا ایک منتخب میئر ہو جنہیں اہم اختیارات اور ذمہ داریاں سونپی جائیں۔
مزید برآں ذیلی حکومتوں میں تقسیم ہونے والی رقوم کا 60 فیصد اضلاع اور 20 فیصد ہر ایک ڈویژن کو دیا جائے تو یہ اضلاع اور ڈویژن میٹروپولیٹن خدمات کے بہترین مراکز بن سکتے ہیں۔
صحت، تعلیم، پولیسنگ، زوننگ وغیرہ کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بااختیار مقامی حکومتیں اور محصولات میں مسلسل اضافہ میرے نزدیک ترقی کا دوسرا زینہ ہے۔ ہمارے پاس بہت سے مسابقتی دائرہ اختیار ہونے چاہئیں جو حکومتوں کو جوابدہ اور موثر بنائیں۔
ترقی کا تیسرا زینہ اپنے وسائل کے اندر رہنا اور مالیاتی خسارے کو اپنی شرح نمو سے کم کرنا ہے۔
خسارے کو کم کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ پبلک سیکٹر کے ترقیاتی منصوبوں کو بڑے بین الصوبائی منصوبوں تک محدود رکھا جائے، دفاع سمیت موجودہ اخراجات کی نمو کو افراط زر سے کم تک محدود رکھا جائے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ذیلی قومی اداروں کی ادائیگیوں کو موجودہ 57.5 سے کم کیا جائے۔ مزید یہ کہ پانچ سال کے عرصہ میں وفاق کو منتقل ہوجانے والے مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے ذیلی قومی اداروں کو اپنی آمدنی بڑھانے کی اجازت دی جائے۔
ہمارے مالیاتی خسارے کی مالی اعانت نجی سرمایہ کاری سے باہر ہونے اور غیر ملکیوں سے قرض لینے کا باعث ہوتی ہے۔ پہلے والا واضح طور پر مطلوبہ نہیں ہے اور دوسرے کے نتائج کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی صورت میں نکلتے ہیں ، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں اور یہ کوئی پائیدار عمل نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے شرح مبادلہ کی بہترین پالیسیوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو ایک متوازن کرنٹ اکاؤنٹ کا باعث بنیں۔
میرے نزدیک ترقی کا چوتھا ستون درآمد کے متبادل راستے ڈھونڈنے کے برعکس برآمدات کے فروغ کے لیے اپنی پالیسیوں کو بہتر کرنا ہے۔ ہماری برآمدات تین اہم وجوہات کی وجہ سے کم ہیں: ایک ہم مناسب نرخوں پر مسلسل توانائی فراہم نہیں کرتے۔ دوسرا ہمارا ملک غیر ملکی خریداروں کے لیے محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔ اور تین، ہماری کمپنیاں محفوظ مقامی مارکیٹ میں فروخت کو ترجیح دیتی ہیں۔
پہلی دو وجوہات کے حل کم از کم 20 سالوں سے واضح ہیں لیکن ابھی تک عمل درآمد کے منتظر ہیں۔ تیسری وجہ کا حل یہ ہے کہ ان کمپنیوں پر اضافی ٹیکس عائد کیا جائے جو اپنی فروخت کا ایک چھوٹا حصہ بھی برآمد نہیں کرتیں اور کسٹم ڈیوٹی کو کم کرتی ہیں جو ملکی صنعت کاروں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ اقدامات، نیز مسابقتی ڈویژنوں کے ذریعہ قائم کردہ برآمدی پروسیسنگ زون ہماری برآمدات کو تقویت دیں گے۔
زراعت اور اس کی پیداوار کو بہتر بنانا میرے نزدیک ترقی کا پانچواں زینہ ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایک زرعی ملک تو کہتے ہیں مگر ہم 8 بلین ڈالر کی گندم، کپاس، خوردنی تیل، دال، چنے، لہسن، ادرک اور دیگر کئی زرعی مصنوعات بھی درآمد کرتے ہیں۔ ہمارے زرعی فارمز سے آنے والی زیادہ تر فصلوں کی پیداوار نہ صرف چین بلکہ ہندوستان کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ہماری آبادی میں سالانہ 50 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے ہماری خوراک کی قلت تب تک بڑھے گی جب تک کہ ہم اپنی زرعی زمینوں کی پیداوار میں اضافہ نہیں کریں گے۔ اس سے جہاں کھیتی باڑی کی آمدنی بڑھے گی ، وہیں دیہی غربت میں بھی کمی آئے گی۔
ترقی کا چھٹا زینہ میرے نزدیک تعلیم ہے جو اپنے طور پر ایک مستقل کالم کا حق دار ہے۔
ترجمہ و تلخیص : محمد یونس، مدیر: افکار پاک