پاکستان تقریباً سو ارب ڈالر کا مقروض ہے اور اسے رواں مالی سال کے دوران غیر ملکی قرضے 21 بلین ڈالرتک واپس کرنے ہیں۔ جبکہ اگلے تین سالوں کے دوران ، ہر سال تقریباً 70 بلین ڈالر یا اس سے زیادہ رقم واپس کرنی ہوگی۔تواب سے اگلے چار سالوں میں کیا ہوگا؟ کیا ہم اپنے قرض دہندگان کو تقریباً 90 بلین ڈالر ادا کر چکے ہونگے اور صرف 10 بلین ڈالر کے مقروض ہونگے؟ بدقسمتی سے اہم ایسا نہیں کرپائیں گے کیونکہ ہمارے پاس قرضوں کی ادائیگی کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینے ہونگے ۔
اس لیے اب سے چار سال بعد تک، ہر سال ہمیں دنیا کو 21 بلین ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کرنا ہوگی اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ جب تک ہم کوئی نیا آئیڈیا نہیں آزمائیں گے ، برآمدات میں اضافہ نہیں کریں گے اوراپنے کرنٹ اکاؤنٹ کوسرپلس میں نہیں لے کر جائیں گے، پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا اورہم ادھار لیے بغیر دنیا کو واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں آپائیں گے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ ہم اس مشکل کا شکار کیسے ہوئے ہیں، تھوڑا ماضی میں چلتے ہیں۔ جب پاکستان القاعدہ اور افغان طالبان کے خلاف فرنٹ لائن جنگ کا حصہ بنا تو ہمارے ذمے زیادہ تر بیرونی قرضے معاف کردیے گئے۔ قرضوں کا بوجھ کم ہونے کے باعث ہماری زرمبادلہ کی ضروریات بھی کم ہو گئیں۔ 2002 کے بعد زرمبادلہ کی بنیادی ضرورت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنا تھا جو کہ برآمدات اور ترسیلات زر کے باعث ممکن ہوتا مگر درآمدات کی زیادتی کی وجہ سے ہمارا قرض پھر سے بڑھنے لگا۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس نہیں چلاتے اور اسی لیے کبھی بھی خالص زرمبادلہ نہیں کماپاتے، ہم صرف مختلف ذرائع سے زرمبادلہ ادھار لیتے ہیں ۔ جس وجہ سے ہمارا قرض کبھی واپس نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا رہتا ہے۔
2007-8میں سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ساتھ پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے معیشت کو سست روی کا شکار کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوشش کی۔ جب معیشت سست روی کا شکار ہوتی ہے تو غیر ملکی قرضے لینے کی ضروریات بھی کم ہوجاتی ہیں اور یوں معیشت کم وبیش مستحکم ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں چل رہی تھی اور ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل نہیں تھے، اس لیے دنیا ہمیں قرض دینے کے لیے تیار نہیں تھی اور یوں ہمارے زرمبادلہ کے قرضے زیادہ نہیں بڑھے۔تاہم ان پانچ سالوں کے دوران ہم بجلی کے شدید بحران کا شکار ہوچکے تھے۔
2013 میں پاکستان کو سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی قیادت حاصل ہوئی تو دو کام ہوئے۔ ایک، ہم نے IMF سے معاہدہ کیا اور دوسرا، چین کے ساتھ CPEC پر معاہدہ کیا۔ اب ہم پاور پلانٹس اور دیگر انفراسٹرکچر کے لیے چین سے سرمایہ کاری اور قرض لے سکتے تھے ، جبکہ اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ سے بھی قرض لے سکتے تھے۔ تاہم CPEC سےقرض لینا درست کام تھا کیونکہ ہمیں واقعی بجلی، سڑک اور گیس کے ذخائر کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ضرورت تھی۔ غلطی یہ ہوئی کہ جب ہم نے ان پانچ سالوں میں اپنی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو دوگنا کیا، تو ہم نے اپنی صنعتی پیداوار یا برآمدات کو دوگنا نہیں کیا۔نتیجتاً جہاں پاور پلانٹس، گیس اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے ہماری ضروریات میں اضافہ ہوا، وہیں ہم قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں اضافہ نہیں کرسکے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاور پلانٹس، گیس کے معاہدے غلط تھے یا سڑکوں کی تعمیر و ترقی کے فیصلے غلط تھے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان چیزوں سے حاصل ہونے والی طاقت کو اچھی طرح سے استعمال نہیں کیا۔ فیکٹریاں لگانے کے بجائے ہم نے مزید شاپنگ مالز اور شادی ہالز بنائے۔
واضح رہے کہ بجلی اور گیس کی ترسیل کا کام مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے بالکل آخری دنوں میں مکمل ہورہا تھا، اس لیے ان دونوں شعبوں کو صنعتی ترقی کی طرف نہیں موڑا جاسکا۔ تاہم، ان پانچ سالوں کے اندر بھی، ایک مقررہ شرح مبادلہ کے نتیجے میں، پاکستان کی برآمدات سے جی ڈی پی نے ایسا موڑ لیا تھا جس کے سبب کمرشل بینکوں اور یورو بانڈز سے ادھار لی گئی رقم کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی مالی اعانت پر خرچ کیا گیا۔
2018 کے بعد ، پی ٹی آئی نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کی کوشش کی لیکن کرنٹ اکاؤنٹ اور مالیاتی خسارے کے درمیان تعلق کی کبھی کوئی تعریف نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے چار سالوں کے دوران، ٹیکس سے جی ڈی پی میں نمایاں کمی آئی اور ہم نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ چلایا۔ پی ٹی آئی نے پچھلے 71 سالوں میں لیے گئے تمام قرضوں میں 78 فیصد تک اضافہ کیا اور مالی خسارے کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بھی چلاتے رہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بجٹ خسارہ کس طرح کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سبب بنتا ہے۔ جب ہماری حکومت خسارے میں چلتی ہے تو وہ اسے پورا کرنے کے لیے قرضہ لیتی ہے۔ اب یہ رقم مقامی سطح پر ہونے والی سرمایہ کاری سے آنے والے نفع سے حاصل کی جا سکتی ہے یا بیرون ملک سے۔ لیکن یہاں مقامی سرمایہ کاری سے آنے والے منافع اتنے زیادہ ہوتے نہیں، اس لیے ہمارے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے رقم بیرون ملک سے درآمدات کی شکل میں آتی ہے جو کریڈٹ کو مالی اعانت فراہم کرتی ہے ، جس سے کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک اور بات جو ہمارے پالیسی سازوں کو سمجھنی ضروری ہے، کہ اب ان مسائل سے نکلنے کے لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنا کافی نہیں ہے۔ بڑے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ہمیں مزید قرض لینے کی ضرورت ہوگی جس کے لیے ایک صحت اور محفوظ معاشی ماحول قائم کرنا ضروری ہے یا ہمیں اپنی برآمدات بڑھا کر زرمبادلہ میں اضافہ کرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ ہم اس مصیبت سے کیسے نکل سکتے ہیں؟ جواب آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔ ہمیں مالیاتی خسارے کو اپنی شرح نمو سے کم کرنا ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ کو توازن میں لانے کے لیے ایکسپورٹ کو بڑہانا ہوگا، قرض کی ادائیگی اور معاشی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نجکاری کی طرف جانا ہوگا اور اپنی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے کافی زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری کروانا ہوگی۔
نجکاری کے لیے ہمت اور اتفاق کی ضرورت ہے ، جس کی ہماری قیادت میں شدید کمی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سب سے اہم چیز امن اور سلامتی ہے جسے ہماری سویلین اور فوجی قیادتیں گذشتہ دو دہائیوں سے فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں، برآمدات میں اضافے کے لیے درآمدات کے ماڈل کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی سمجھ بوجھ ضروری ہے۔اہم بات یہ ہے کہ ہمیں معیشت کا صحیح ادراک ہو، بدقسمتی سے ہمارے بیشتر پالیسی سازمعیشت کے درست ادارک سے ناواقف ہیں ۔
خسارے کو کم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام موجودہ اخراجات کو افراط زر کی شرح سے کم کر دیا جائے، جہاں ٹیکس نہیں ہیں، ان پر ٹیکس لگانا، جیسے کہ تھوک میں کی جانے والی تجارت، زرعی اراضی پر ایک مقررہ ٹیکس، صوبوں کو دی جانے والی وفاقی رقم میں کمی، وغیرہ۔ یہ تمام سخت اقدامات ہیں۔ لیکن معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
ان مشکلات پر غور کرنا ضروری ہے جو ہماری غیر ترقی پذیر معیشت کا باعث بن رہی ہیں۔ اس زمین پر بسنے والے 36 لوگوں میں سے صرف ایک پاکستانی ہے لیکن دنیا کے ہر10 ان پڑھ بچوں میں سے ایک ان پڑھ بچہ بھی پاکستانی ہے۔ ہمارے بچوں کی عالمی اوسط سے دوگنا کم نشو نما ہونے کا امکان ہے اور ان کے ضائع ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہے۔ مشکلات محض مشکل فیصلوں کے لیے نہیں ہونی چاہییں بلکہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج رات پاکستان میں لاکھوں بچے بھوکے سو جائیں گے۔
ترجمہ و تلخیص : محمد یونس، مدیر: افکار پاک