اپنی سیاسی اور اقتصادی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے بے چین ایران دو سال سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جو خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ طاقت ور اور تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ ستمبر میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای دو طرفہ مذاکرات کی سست رفتاری کی وجہ سے پریشان ہوگئے تھے اور اس عمل کو تیز کرنے کے لیے انہوں نے اپنی ٹیم سے طویل مشاورت کی تھی، جس کے نتیجہ میں چین کو سعودی عرب سے بات چیت کرنے کے لیے امادہ کیا گیا۔
ایران ، سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے میں بیجنگ کے خفیہ کردار نے مشرق وسطیٰ کی حرکیات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں امریکہ کئی دہائیوں سے ایک اہم ثالث کے طور پر موجود ہے اورخطے کے تمام سلامتی و سفارتی امور میں اسے حتمی حیثیت حاصل رہی ہے۔
مذاکرات میں شامل ایک ایرانی سفارت کار کا کہنا ہے کہ "چین نے عمان اور عراق میں ہونے والی بات چیت کے دوران خلیج کو کم کرنے اور حل نہ ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے تہران اور ریاض دونوں کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔”یاد رہے کہ یہ معاہدہ سات سال کی سفارتی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ہوا ہے۔
سعودی عرب نے 2016 میں ایران کے ساتھ تعلقات اس وقت منقطع کر لیے تھے جب تہران میں اس کے سفارت خانے پر ریاض کی جانب سے ایک ممتاز شیعہ رہنما کو پھانسی دینے پر دونوں ممالک کے درمیان تنازع کے دوران دھاوا بول دیا گیا تھا۔ دونوں طاقتوں کے درمیان دشمنی نے مشرق وسطیٰ میں استحکام کو خطرے میں ڈال دیا تھا اور یمن، شام اور لبنان میں علاقائی تنازعات کو ہوا دی تھی۔
سعودی عرب کے لیے اس معاہدے کا مطلب بہتر سیکیورٹی کے سوا کچھ نہیں۔
سعودی عرب کی طرف سے 2019 میں تیل کی تنصیبات پر حملوں کا ذمہ دار تہران کو ٹھہرایا گیا تھا جس سے اس کی آدھی سپلائی بند ہو گئی تھی ۔ ایران نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی ، جبکہ ایران سے منسلک یمن کے حوثی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان کے مطابق ایران میں اب سعودی سرمایہ کاری میں تیزی آئے گی۔
کیا سعودی ایران معاہدے میں کوئی خلل پڑ سکتا ہے؟
بیجنگ میں ہونے والی بات چیت میں شامل ایک چینی سفارت کار وانگ دی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ میل جول ایک ایسا عمل تھا جس کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ تمام مسائل راتوں رات حل ہو جائیں گے ۔ اہم بات یہ ہے کہ چینی قیادت فریقین کے درمیان بہتر تعلقات ہمیشہ برقرار رکھنے کے لیے مکمل اخلاص کا مظاہرہ کرے۔
ایک سعودی اہلکار کے مطابق واشنگٹن کے سب سے اہم عرب اتحادی سعودی عرب نے دو سال قبل عراق اور عمان میں ایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے طریقے تلاش کرنا شروع کیے تھے۔جس کے نتیجے میں دسمبر میں ایک نازک لمحہ آیا، جب چینی صدر شی جن پنگ نے ریاض کا دورہ کیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ دو طرفہ ملاقات میں چینی صدر نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بات چیت کی ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا۔
سعودی عہدے دار نے بتایا کہ ولی عہد نے اس کا خیرمقدم کیا اور وعدہ کیا کہ ہم اس معاملے کو چین کی طرف بھیجیں گے،جس کے بعد اس پر غور کیا جانے لگا کہ مذاکرات کو دوبارہ کیسے شروع کیا جاسکتا ہے ۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ فروری میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کا دورہ کیا ، جہاں چینی قیادت نے ریاض کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو آگے بڑھانے پر زور دیا جسے ایران نے قبول کرلیا۔
اس معاہدے میں سیکورٹی خدشات سے لے کر اقتصادی اور سیاسی مسائل تک کئی مسائل شامل ہیں۔
مذاکرات میں شامل ایک ایرانی اہلکار نے کہا کہ "میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا، لیکن ہم نے اتفاق کیا ہے کہ کوئی بھی ملک دوسرے کے لیے عدم استحکام کا باعث نہیں بنے گا۔ ایران خطے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے مگروہ ریاض کی سلامتی کو مدنظر رکھے گا ،خاص طور پر یمن کے معاملے میں ۔”
"دونوں فریق خلیج میں سلامتی کو برقرار رکھنے، تیل کے بہاؤ کی ضمانت دینے، علاقائی مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کریں گے، جبکہ تہران اور ریاض ایک دوسرے کے خلاف فوجی جارحیت میں ملوث نہیں ہوں گے۔”
ایران نے شیعہ نظریہ رکھنے والے حوثیوں کی کتنی حمایت کی ہے، یہ کبھی واضح نہیں ہو سکا۔ خلیجی ممالک ایران پر خطے میں "شیعہ پراکسیز” کے ذریعے مداخلت کا الزام لگاتے ہیں، جس کی تہران ہمیشہ تردید کرتا رہا ہے۔ جبکہ سعودی حکام کے مطابق ایران حوثیوں کو ہتھیاروں، تربیت، نظریاتی پروگراموں، پروپیگنڈے اور مہارت کا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے اور سعودی سب سے زیادہ اس کا شکار ہیں۔ایک سعودی اہلکار کے مطابق ایران بہت کچھ کر سکتا ہے اور اسے بہت کچھ کرنا بھی چاہیے ۔
خامنہ ای کے اندرونی حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک علاقائی ذریعے کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے سینئر قومی سلامتی کے اہلکار علی شمخانی کو مذاکرات کی قیادت کے لیے چنا کیونکہ وہ ایک عربی النسل ہیں۔
ایرانی سفارت کار نے کہا کہ "چین نے عمان اور عراق میں بات چیت کے دوران خلیج کو کم کرنے اور حل نہ ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے تہران اور ریاض دونوں کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔”
واشنگٹن اور بیجنگ کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر ایران کے اعتماد کی کمی کو دیکھتے ہوئے چین ہی بہترین آپشن تھا۔ ایک ایرانی اہلکار نے ملاقاتوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ چین اپنی توانائی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پرسکون مشرق وسطیٰ سے بھی فائدہ اٹھائے گا۔
ایران کی فیصلہ ساز اشرافیہ کے قریب ایک ایرانی کے مطابق کئی دہائیوں کی بداعتمادی کے بعد، جاری تصادم کا خاتمہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اس معاہدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہران اور ریاض کے درمیان کوئی مسئلہ یا تنازعہ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں جو کچھ بھی ہوگا وہ ‘کنٹرولڈ’ طریقے سے ہوگا۔