عام طور پر لوگوں کو مایوسی سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ مایوسی سے بچنے کی تلقین کرنا اچھی بات ہے مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دوسروں کو مایوسی سے بچائیں۔ مایوسی ایک ایسی دلدل ہے جس میں جانے والے کو اکثر اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ حالات و واقعات کا جبر نہ جانے کب کس شخص کو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ مایوسیوں کا شکار ہونے والوں کو اکثر تو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب ان کے ساتھ یہ واردات ہوچکی ہے اور جن معدودے چند لوگوں کو احساس ہوتا ہے اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے۔ سو ہمہ وقت مایوسی سے بچنے کی تلقین کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔
جو شخص مایوسی کی ڈھلوان پر پھسلتا ہوا جا رہا ہوتا ہے اسے دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس شخص کے دوست احباب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسے مایوسی سے بچائیں۔ یہ کام محض نصیحت و سرزنش سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے وقت دینے اور خیال رکھنے کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مایوسی کا شکار شخص چونکہ ہر طرف سے ناامید ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے رویہ سے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دور کر لیتا ہے۔ ایسے شخص کی سب سے بڑی مدد یہ ہے کہ اس کی طرف سے تلخی اور قطع تعلقی کے باوجود اس سے تعلق توڑا نہ جائے۔ وہ ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے کی کوشش بھی کرے تو اسے جانے نہ دیں۔ اس کی بے رخی اور سرد مہری کو ایک مرض کی علامات سمجھ کر دست شفا آگے بڑھائیں اور تعلق کو قائم رکھیں۔ یاد رکھیں کہ مایوسی کے شکار فرد کے لئے تنہائی سب سے خطرناک شے ہے۔ بس خیال رہے کہ ایسا شخص کہیں تنہا نہ رہ جائے۔
ہماری انا کی دیواریں اتنی اونچی ہوچکی ہیں کہ جب کوئی شخص ہم سے کترانے لگتا ہے اور میل جول کم کرنا شروع کر دیتا ہے تو ہم اس سے بھی زیادہ تیزی سے تعلق کو محدود کر کے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ کوشش نہیں کرتے کہ ذرا رک کر سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر اس رویہ کی وجوہات کیا ہیں۔ کسی کو ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں ہے؟ بس یہ ذرا سا احساس اور وقت دینے کا رویہ کسی شخص کو مایوسی اور ڈپریشن سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کام کو صدقہ اور نیکی سمجھ کر کیا جائے تب ہی انسان یہ بار اٹھانے کے قابل ہوتا ہے۔ صبر اور خیرخواہی اس منزل کے مسافر کے لئے زاد راہ ہیں۔
جو شخص یہ کر گزرے وہ اللہ کا ولی ہے کہ اس نے ایک مصیبت زدہ، پریشان حال اور رنجیدہ شخص کی زندگی میں آسانی، رونق اور آسائش کا راستہ کھولا ہے۔ مخلوق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنا دراصل اپنے لئے نعمتوں کے حصول کا بہانہ ہے۔
سو دوستو! تعلق قائم رکھیں۔ ہمیشہ پیچھے مڑ کر ان دوستوں کا ہاتھ تھامیں اور ان کا انتظار کریں جو کسی وجہ سے دل ہار بیٹھیں ہیں۔ یہ کر گزریں گے تو پھر وہ لذت اور راحت میسر آئی گی جو بیان کرنا ممکن نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ "حال” کی بات ہے، "قال” کی نہیں، وہ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے۔