What's Hot

    اسد محمد خاں: تہذیب، تاریخ اور فرد سے مکالمہ

    ستمبر 22, 2023

    سیاسی جماعتوں کا امتحان

    ستمبر 21, 2023

    کاپی رائیٹ، مورل رائیٹ، پلیجرازم اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا چیلنج

    ستمبر 20, 2023
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    Home»نقطہ نظر»مایوسی سے بچائیں!
    نقطہ نظر

    مایوسی سے بچائیں!

    ڈاکٹر عزیز الرحمنBy ڈاکٹر عزیز الرحمناگست 18, 2023Updated:اگست 18, 2023کوئی تبصرہ نہیں ہے۔3 Mins Read
    Share
    Facebook Twitter LinkedIn Pinterest Email

    عام طور پر لوگوں کو مایوسی سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ مایوسی سے بچنے کی تلقین کرنا اچھی بات ہے مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دوسروں کو مایوسی سے بچائیں۔ مایوسی ایک ایسی دلدل ہے جس میں جانے والے کو اکثر اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ حالات و واقعات کا جبر نہ جانے کب کس شخص کو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ مایوسیوں کا شکار ہونے والوں کو اکثر تو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب ان کے ساتھ یہ واردات ہوچکی ہے اور جن معدودے چند لوگوں کو احساس ہوتا ہے اس وقت تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے۔ سو ہمہ وقت مایوسی سے بچنے کی تلقین کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

    جو شخص مایوسی کی ڈھلوان پر پھسلتا ہوا جا رہا ہوتا ہے اسے دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس شخص کے دوست احباب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسے مایوسی سے بچائیں۔ یہ کام محض نصیحت و سرزنش سے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے وقت دینے اور خیال رکھنے کے جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مایوسی کا شکار شخص چونکہ ہر طرف سے ناامید ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے رویہ سے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی دور کر لیتا ہے۔ ایسے شخص کی سب سے بڑی مدد یہ ہے کہ اس کی طرف سے تلخی اور قطع تعلقی کے باوجود اس سے تعلق توڑا نہ جائے۔ وہ ہاتھ چھڑوا کر بھاگنے کی کوشش بھی کرے تو اسے جانے نہ دیں۔ اس کی بے رخی اور سرد مہری کو ایک مرض کی علامات سمجھ کر دست شفا آگے بڑھائیں اور تعلق کو قائم رکھیں۔ یاد رکھیں کہ مایوسی کے شکار فرد کے لئے تنہائی سب سے خطرناک شے ہے۔ بس خیال رہے کہ ایسا شخص کہیں تنہا نہ رہ جائے۔

    ہماری انا کی دیواریں اتنی اونچی ہوچکی ہیں کہ جب کوئی شخص ہم سے کترانے لگتا ہے اور میل جول کم کرنا شروع کر دیتا ہے تو ہم اس سے بھی زیادہ تیزی سے تعلق کو محدود کر کے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ کوشش نہیں کرتے کہ ذرا رک کر سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر اس رویہ کی وجوہات کیا ہیں۔ کسی کو ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں ہے؟ بس یہ ذرا سا احساس اور وقت دینے کا رویہ کسی شخص کو مایوسی اور ڈپریشن سے نکالنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس کام کو صدقہ اور نیکی سمجھ کر کیا جائے تب ہی انسان یہ بار اٹھانے کے قابل ہوتا ہے۔ صبر اور خیرخواہی اس منزل کے مسافر کے لئے زاد راہ ہیں۔

    جو شخص یہ کر گزرے وہ اللہ کا ولی ہے کہ اس نے ایک مصیبت زدہ، پریشان حال اور رنجیدہ شخص کی زندگی میں آسانی، رونق اور آسائش کا راستہ کھولا ہے۔ مخلوق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنا دراصل اپنے لئے نعمتوں کے حصول کا بہانہ ہے۔

    سو دوستو! تعلق قائم رکھیں۔ ہمیشہ پیچھے مڑ کر ان دوستوں کا ہاتھ تھامیں اور ان کا انتظار کریں جو کسی وجہ سے دل ہار بیٹھیں ہیں۔ یہ کر گزریں گے تو پھر وہ لذت اور راحت میسر آئی گی جو بیان کرنا ممکن نہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ "حال” کی بات ہے، "قال” کی نہیں، وہ ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے۔

    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    ڈاکٹر عزیز الرحمن

    لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں قانون کے استاذ اور شعبہ قانون کے سربراہ ہیں۔ قانون ، معیشت ، صحت اور قومی و ملی مسائل پر تواتر سے لکھتے ہیں۔

    Related Posts

    فرقہ واریت کا حل۔۔۔! ہندتہذیبی مرکز سے رجوع

    ستمبر 17, 2023

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسی: مسائل اور توقعات

    ستمبر 17, 2023

    عطار کے لونڈے۔۔۔!

    ستمبر 7, 2023

    تاریخ کیا ہے؟

    اگست 23, 2023
    Add A Comment

    Leave A Reply Cancel Reply

    Top Posts

    Subscribe to Updates

    Get the latest sports news from SportsSite about soccer, football and tennis.

    Advertisement
    Demo
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter
    • ہمارے بارے میں
    • رابطه
    • استعمال کی شرائط
    • پرائیویسی پالیسی

    © جملہ حقوق  بحق       Dtek Solutions  محفوظ ہیں 2022