مسلم معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ تفرقہ بازی ہے جو ہند کے دو بڑے متحاب فرقوں کی مخاصمت سے عبارت ہے جس میں اب دیگر کئی گروہ شامل ہو چکے ہیں۔ بریلوی/ دیوبندی تقسیم کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنی اصل کی جانب رجوع نہ کریں۔ ہند مسلم تہذیب کا آخری مرکز دہلی ہے۔ اور یہ بات لائق توجہ ہے کہ تہذیب کا آغاز شہر سے ہوتا ہے اور شہر ہی تہذیبوں کے مراکز رہے ہیں۔ دیوبند و بریلی کو اپنی تہذیب کا مرکز باور کرنا دراصل زوال کے مستحکم ہونے اور جہاں بانی سے مسلم شعور کے منقطع ہونے کی جانب دال ہے۔ دیوبند اور بریلی دراصل دہلی کے بکھرنے کی علامت ہیں اور اپنے اندر دہلی کی کرچیاں سموئے ہوئے ہیں۔ زوالِ تہذیب کے بعد ہماری ذمہ داری دہلی کی جانب عود کرنے میں ہے مگر زوال یعنی تہذیبی پراگندگی، تفرقہ بازی اور سحر فرنگ کی دروں کاری نے ہمیں اس سے باز رکھا ہوا ہے۔
شیخ عبدالقادر الصوفی کی گفتگو سے ماخوذ ہے کہ اس تقسیم کا خاتمہ دیوبند اور بریلی کو ترک کرتے ہوئے دہلی کی جانب رجوع سے ہی ممکن ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے عالی مرتبت دیوبندی علما کے لیے از حد ضروری ہے کہ خود تک پہنچنے والی فقہ سے سر مو انحراف سے خود کو محفوظ رکھیں۔ فتاویٰ عالمگیری اور دہلی اپنے اصل معانی کے ساتھ یہاں پر تہذیبی استعارے کے طور پر مستعمل ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری ہندی تہذیب کی علمی تراث کی نمائندگی کررہا ہے جب کہ دہلی ہندی تہذیب کے مرکز جہاں بانی و قوت کا استعارہ ہے۔ جس سے قوت اور علم کے تعلق کی طرف اشارہ ہے ۔دیوبند و بریلی ہمارے تہذیبی زوال کا استعارہ ہیں جو علم اور قوت کے زوال سے عبارت ہیں۔ ہمارا زوال سقوط دہلی کی تفصیلات ہیں اور دیوبند و بریلی ان تفصیلات میں علامت تنصیص ہیں جس نے ہمارے لیے زوال کی معنویت بدل دی اور ہم مرکز تہذیب کو اوجھل کر بیٹھے جب کہ دیوبند و بریلی کی دروں کاری ہی اصلا تفرقہ بازی کا سنگ میل ہے۔ اگر مرکز کی پہچان نہ رہے تو مرکز سے جڑے تصورات بھی نسیا منسیا ہو جاتے ہیں اور زوال کا عدم ادراک دراصل مرکز سے لاعلمی کا براہ راست تسلسل ہے۔ اسی لیے اپنی قدیم علمی روایت سے عدم واقفیت کےساتھ ہم اپنی وجود بیتی یعنی زوال کو بھی ملحوظ نہیں رکھ پا رہے۔
اسی طرح دہلی کے سقوط، تہذیب اور اس سے جڑے تصورات تک عدم رسائی کے بعد متغلب فرماں روائی یعنی فرنگی استعمار کے حوالے سے دار الاسلام اور دار الحرب کی بحث ہمارے لیے کابوس کی حثیت رکھتی ہے۔ فرنگی راج کے بدیہی سلطنت کفر ہونے کو ہم نے جہاں بانی سے عدم مناسبت کی بنا پر فقہی جزیات کی دھجیوں میں لپیٹ کر فرنگی کباڑ خانے میں پھینک دیا اور تب سے ہم اپنی فرماں روائی کے نشان تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سقوط دہلی براہ راست دار الحرب کی بحث سے جڑا ہوا ہے کیوں کہ مسلم تہذیب میں قوت کی تہذیبی جہت صرف دار الحرب و دار الاسلام کے مبحث میں زیر بحث لائی جا سکتی ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی دینی بصیرت نے ان کو اس نتیجے تک پہنچا دیا جو ان کے فتاویٰ میں ظاہر ہے تاہم وہ بات وہیں پر رہی اور فرنگیوں سے تعامل کے اسالیب دار الحرب کی بحث کی بجاے مذہبی آزادی کے ضمن میں زیر بحث آئے جس نے دار الحرب کی بحث کا اصولاََ قلع قمع کر دیا۔ مسلم قوت کے انتشار نے علم اور اجتماع کے تعلق کو مضمحل کر دیا جس کے بعد تفرقہ بازی نے فتویٰ اور طاقت کے تعلق کو مسمار کرتے ہوئے فتویٰ کو ایک ہتھیار کے طور پر برتنا شروع کیا اور تکفیر عام ہو گئی۔ ایسا فتویٰ جو جہاں بانی کے شعور کو متضمن نہ ہو جلد ہی بے مطلب، لغو اور بالآخر ہتھیار بن کر دین ہی کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ جیسے شرک اور توہین رسول کے فتاویٰ کے حتمی نتائج مظاہر بن کر ہماری ہی بنیادیں کھود رہے ہیں۔
دیوبند اور بریلی سے پیدا ہونے والی علمی روایت اندوہ و اضطراب پر مشتمل ہے۔ جس میں معاصر وقتوں سے عدم مناسبت کی وجہ سے پیدا ہونے والا اضطراب ہے ۔ فرقہ واریت اپنی نہاد میں سیکولر ہے کیوں کہ یہ جہاں بانی کو اپنے مباحث سے خارج کر چکی ہے اور سیکولرائزیشن کا ہراول ہے کیوں کہ اسلام کاری کے اصول پر کاربند ہے۔ یقینا اس نے دین کو عبادات اور معاملات کی مخصوص انواع تک محدود ہو کر اس کو محفوظ رکھا ہے جو غنیمت ہے۔ یہاں پر یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ دیوبند و بریلی سے پیدا ہونے والی علمی روایت بہ ہرحال اسلامی تہذیب کی بخیہ گری سے نمود پانے والی روایت ہے اس لیے یہ اس کے ٹکڑوں کو شامل ضرور رکھے ہوئے ہے اور شیخ عبدالقادر الصوفی کی اس عبارت ” سقوط دہلی کے بعد وہاں سے نکلنے والے علما کے زاد راہ میں فتاوی عالمگیری شامل تھی ” کا یہی مطلب ہے۔ مگر اصلا یہ تفرقے سے تشکیل پانے والی روایت ہے جو ان اجزاکو بہ ہر حال شامل رکھے ہوئے ہےجو سقوط دہلی کے بعد بکھر گئے۔ تاہم اس کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہے کیوں کہ تہذیبی بخیہ دھری کا نتیجہ ہے اور تاریخی موثرات کی وجہ سے ابن وقت فکر کی حثیت رکھتی ہے۔
ہم اس صورت حال کا ایک ہی حل سمجھتے ہیں کہ سقوط دہلی کو بنیادی نکتہ بناتے ہوئے گزشتہ دو سو سال کی تاریخ کو ہر جہت سے زیر بحث لانے کے ساتھ اپنے اجتماعی کردار کا تجزیہ کریں اور ہند مسلم تہذیب کی پیدا کردہ علمی روایت کو اصل بناتے ہوئے اپنی داخل میں پیدا ہونے والی تفرقہ بازی اور تجدد کو زیر بحث لائیں۔ خداوند ہی درست تر سے واقف ہیں اور وہی چیزوں کی حقیقت کو ہم پر منکشف کرنے والے ہیں۔