’’ہمارا نظام کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ اسے پالتا ہے۔ اسی میں سیاست پنپتی ہے۔ اسے سیاستدان کی مجبوری کہیں یا جمہوریت کی قیمت، جب ملک فنا ہوجائے گا تو نہ جمہوریت رہے گی اور نہ ہی سیاستدان۔ سب بڑے بڑے اپنی دولت بٹور کر باہر چلے جائیں گے۔ صرف ایک بھوکی قوم باقی رہ جائے گی، عذاب سہنے کو‘‘۔
صدر مملکت نے چیئرمین نیب کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا کہ مجھے پروا نہیں کہ تم نے اس انکوائری رپورٹ میں کیا لکھا ہے، میں تو اسے پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے اس انکوائری رپورٹ کو پرے پھینک دیا۔ اپنی اس توہین پر چیئرمین نیب اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی بڑے تلخ لہجے میں صدر سے کہا کہ آپ کوئی نیا چیئرمین نیب ڈھونڈ لیں میں آپ کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ اس صدر کا نام جنرل پرویز مشرف تھا جس نے 1999ء میں بڑے فخر کے ساتھ نیب بنایا تھا اور جس چیئرمین نیب نے جنرل پرویز مشرف کی خوش نودی کے لیے اپنا ضمیر فروخت کرنے سے انکار کیا اس کا نام لیفٹیننٹ ریٹائرڈ شاہد عزیز تھا۔
یہ واقعہ شایدعزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں خود تحریر کیا تھا۔ یہ کتاب بہت سی خوف ناک کہانیوں پرمشتمل تھی۔ پہلے اس کتاب کو مارکیٹ سے غائب کیا گیا پھر یہ کتاب لکھنے والا بھی لاپتہ ہوگیا۔ شاہد عزیز نے اس کتاب میں لکھا کہ جب وہ کور کمانڈر لاہور تھے تو انہوں نے ڈی ایچ اے میں مبینہ بدعنوانیوں کی انکوائری کرائی تھی۔ اس انکوائری سے جنرل پرویز مشرف خوش نہیں تھے لیکن انہیں اندازہ تھا کہ شاہد عزیز دبائو میں نہیں آتے، لہٰذا انہیں نیب کا سربراہ بنا دیا گیا۔ جس انکوائری رپورٹ پر جنرل پرویز مشرف برہم ہوئے یہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق تھی۔ نیب نے شاہد عزیز کی نگرانی میں کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد ٹھوس شواہد کی مدد سے یہ پتہ لگایا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں کا تعین بہ ظاہر اوگرا کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ فیصلہ پرائیویٹ آئل کمپنیاں کرتی ہیں جو ناجائز منافع کمانے کے لیے عوام پرضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالتی ہیں۔
نیب نے 2006ء میں اوگرا کی 81/ ارب روپے کی کرپشن کا سراغ لگایا۔ اس وقت کے سیکرٹری پٹرولیم احمد وقار اور چیئرمین سی بی آر عبداللہ یوسف سے لے کر وزیر اعظم شوکت عزیز تک ہر کسی نے شاہد عزیز پر دبائو ڈالا کہ اوگرا کے خلاف تحقیقات بند کر دو۔ آخر میں ملک کا فوجی صدر بھی آئل مافیا کا محافظ بن گیا تو شاہد عزیز نے 13جون 2006ء کو انکوائری رپورٹ سرکاری طور پر وزیر اعظم کو بھجوا دی اور اس کی ایک نقل صدر پاکستان کو بھیجی جس پر صدر صاحب سیخ پا ہوگئے۔ پھر اس انکوائری کا اثر زائل کرنےکے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کو لایا گیا۔ انہوں نے نیب کی انکوائری کی انکوائری کر ڈالی۔ ڈاکٹرعشرت نے دسمبر 2006ء میں نیب کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے بڑی بڑی پرائیویٹ آئل کمپنیوں اور اوگرا کے گٹھ جوڑ پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا کہ کچھ سرکاری اداروں نے غلطیاں ضرور کی ہیں لیکن ان غلطیوں کے پیچھے بدنیتی نہیں تھی۔ نیب کے سربراہ شاہد عزیز نے ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ کو مسترد کردیا اور آخر کار چھٹی لے کر گھر بیٹھ گئے۔ 2007ء میں انہوں نے استعفیٰ دیدیا۔ شاہد عزیز کی کتاب مجھے اس لیے یاد آئی ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے جاتے جاتے نیب قانون میں کی جانے والی ترامیم کو مسترد کردیا اور ایک سابق صدرسمیت چھ وزرائے اعظم کیخلاف نیب کی تحقیقات کو دوبارہ زندہ کردیا ہے۔
جس سپریم کورٹ نے نیب کےپرانے قانون کو بحال کیا ہے اسی سپریم کورٹ کے کچھ جج صاحبان نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کا ادارہ قرار دے چکے ہیں اور اس پولیٹیکل انجینئرنگ کی تصدیق شاہد عزیز کی کتاب بھی کرتی ہے۔ جنرل مشرف نے یہ ادارہ کرپشن ختم کرنے کے لیے نہیں بلکہ کرپٹ عناصر کے تحفظ اور سیاست دانوں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے قائم کیا تھا۔ اس ادارے کے پہلے چار سربراہ فوجی جرنیل تھے۔ بعد میں جسٹس دیدار حسین شاہ اور جسٹس جاوید اقبال کو نیب کاسربراہ بنایا گیا۔ آج کل دوبارہ ایک ریٹائرڈ جرنیل اس ادارے کےسربراہ ہیں اور عام خیال یہ ہےکہ نیب کا پرانا قانون بحال ہونے سے زیادہ نقصان تحریک انصاف کا ہوگا کیوں کہ آج کل تحریک انصاف نشانے پر ہے۔ کاش کہ نیب کا نشانہ مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ صرف اور صرف کرپشن ہوتی۔ جنرل پرویز مشرف 2006ء میں اوگرا کےخلاف نیب کی انکوائری کو نہ دباتے تو پاکستان میں غیر ملکی آئل کمپنیوں کی لوٹ مار بند ہوچکی ہوتی۔ نیب ہمیشہ سیاست دانوں اور سول بیوروکریٹس کے پیچھے جاتا ہے۔ یہ اتنا بے بس ادارہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سول اداروں کی سربراہی کرنے والے ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
تازہ ترین مثال واپڈا کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کی ہے۔ ان صاحب کو نواز شریف نے 2016ء میں واپڈا کا چیئرمین بنایا اور پھر 2021ء میں عمران خان نے انہیں ایکسٹینشن دی۔ 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے دوران پتہ چلا کہ یہ صاحب تو واپڈا ہائوس میں بیٹھ کر سیاسی جوڑ توڑ کرتے ہیں۔ ان کےخلاف نیب نے ایک انکوائری شروع کی اور استعفیٰ لے کرانکوائری بند کردی۔ اس سے پہلے واپڈا کے ایک اور چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ زاہد علی اکبر کے خلاف بھی نیب نے انکوائری کی تھی۔ ان کے70 غیر ملکی اکائونٹس کا پتہ چلا تھا۔ نیب نے کچھ رقم لے کر ان کے خلاف انکوائری بھی بند کردی تھی۔ مارچ 2023ء میں نیب راولپنڈی نے آئی ایس آئی کےسابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں ایک انکوائری شروع کی اور چند دنوں کے اندر اندر یہ انکوائری بند کردی گئی۔ ایک ریٹائرڈ میجر جنرل نے خود مجھے بتایا کہ فیض حمید کے غیر قانونی اثاثوں کے متعلق دستاویزی ثبوت انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن پچھلے ایک سال میں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔تاہم نیب ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاست دانوں کے خلاف انکوائریاں دوبارہ کھلنے پر کچھ دوست خوب ناچ رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب کا پرانا قانون بحال ہونے کے بعد اوگرا اور پرائیویٹ آئل کمپنیوں کا گٹھ جوڑ کم زور ہوگا یا نہیں؟ تیل کی قیمتوں میں کوئی کمی ہوگی یا نہیں؟بجلی بنانے والی پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے جو لوٹ مار کی جا رہی ہے وہ کم ہوگی یا نہیں؟ پرانا قانون بحال ہونے کے بعد نیب کے نئے چیئرمین کا ٹارگٹ کرپشن ہوگی یا تحریک انصاف؟ اگر تحریک انصاف کی حکومت نے کرپشن کی ہے تو اس کرپشن کو ضرور پکڑیے لیکن سب جانتے ہیں کہ شوگر مافیا کا تعلق صرف تحریک انصاف سے نہیں ہے۔ اس مافیا میں سب بڑی جماعتیں شامل ہیں۔ آئل، سی این جی، گھی اور پرائیویٹ ہائوسنگ اسکیموں کے مافیا کا تعلق بھی ایک جماعت سے نہیں ہے بلکہ اس مافیا کے کارندے انکوائریوں سے بچنے کے لیےسیاسی وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں۔ پاکستانی عوام کےمسائل کی اصل وجہ نہ آئی ایم ایف ہے، نہ عالمی منڈی۔ نیب،ایف آئی اے، ایف بی آر سمیت تمام ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ نیب کے سابق سربراہ شاہد عزیز چند سال سے لاپتہ ہیں۔ اس لاپتہ شخص نے اپنی کتاب میں دہائی دیتے ہوئے لکھا تھا کہ :
’’ہمارا نظام کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ اسے پالتا ہے۔ اسی میں سیاست پنپتی ہے۔ اسے سیاستدان کی مجبوری کہیں یا جمہوریت کی قیمت، جب ملک فنا ہوجائے گا تو نہ جمہوریت رہے گی اور نہ ہی سیاستدان۔ سب بڑے بڑے اپنی دولت بٹور کر باہر چلے جائیں گے۔ صرف ایک بھوکی قوم باقی رہ جائے گی، عذاب سہنے کو‘‘۔