”ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی“ کے ساتویں حصے میں اسد محمد خاں نے، جو ٹکڑے جوڑے ہیں ان میں اپنے بھتیجے / بھائی ناصر کمال کو بھیجی گئی ای میلز بھی ہیں۔ ناصر کو بھیجی گئی ایک ای میل میں پس نوشت کا اضافہ ملتا ہے جس میں ہمارے افسانہ نگار نے اپنے آنے والے ناول سے اقتباس دینے سے پہلے اپنا نام ’اسد محمد خاں‘ نہیں بلکہ ’اسد بھائی خانوں‘ ۔ لکھا ہے۔ ناول کا یہی اقتباس ”خانوں“ کے عنوان سے ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ کا حصہ بھی ہو گیا ہے۔ اس خانوں کے اندر ایک ندی بہتی ہے۔ ایسی ندی جو معدوم ہو کر بھی اس کے اندر بہتی رہتی ہے اور بہتی ر ہے گی۔ اس لیے کہ اسد بھائی خانوں جان گیا ہے :
”چیزوں پر موت کا اور ’ڈیکے‘ کا ورود کس طرح ہوتا ہے“
موت کی معرفت پانے والے کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ معدوم ہو چکی ندی کو گزرے برسوں کے اندر گھس کر ’ری کریٹ‘ کر لیتا ہے۔ اس کے پاس گزرے وقتوں کے نقوش سلامت ہیں۔ دھندلائے، مگر خواب صورت۔ وہ انہیں خوب صورت کہتا ہے، کہ یہ نقوش ویسے ہی ہیں جیسے کہ وہ تھے۔ وہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر دکھاتا ہے اور چاہے تو حیلہ کر کے اپنے اندر بہتی ندی کو حال میں لاکر ناموجود میں بدل دیتا ہے۔ پاترا ندی کی سی گاڑھے کیچڑ میں بدلتی یا زخم سے رستے سست رو ’پس‘ کی لکیر جیسی۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ”چیزوں پر موت کا اور ’ڈیکے کا ورود کس طرح ہوتا ہے“ ۔ سو اس کی کہانیاں اسی اجلی ندی کی طرح بہتی ہیں یا پھر موت کے چرکے سہنے اور‘ ڈی کے ’ہو کر معدوم ہونے کی کہانیاں ہیں۔
صاحب! یہیں یہ بات سمجھنے اور پلو میں باندھنے کی ہے کہ زندگی اور موت کے اور طرح کے کھیل سے متشکل ہونے والا اور طرح کا ایسا بیانیہ جو پڑھنے والوں کے لہو میں سرایت کر جاتا ہے، عجب منظروں اور ذرا مشکل سے کرداروں سے بنا ہے۔ میں نے مشکل کرداروں کی بات کی تو اس باب میں مجھے سب سے پہلے جس کردار کو گنوانا ہے وہ تو خود افسانہ نگار کا کردار جو بہت سے مقامات پر راوی ہو کر سامنے آتا ہے۔ وہی جسے اس نے ”خانوں“ کہا اور کہیں ”الف میم خے“ ۔اور جس کے کٹمب قبیلے کا مئی دادا کی اصطلاح میں ”ایسا چاروں کھونٹ ساکھ سجر“ ہے کہ کسی نے کہیں دیکھا نہ سنا۔ اس ساکھ سجر کو بھی فکشن بنا لیا گیا ہے۔ میں جو بار بار ”ساکھ سجر“ کہہ رہا ہوں تو یوں ہے کہ افسانہ ”مئی دادا“ میں بتا دیا گیا ہے کہ یہ ”شاخ شجرہ“ ہے، شجرہ نسب کے معنی میں۔ ”ایسا چاروں کھونٹ ساکھ سجر“ کیا ہوتا ہے میں افسانہ نگار کا شجرہ پڑھ دیتا ہوں، اندازہ آپ خود لگا لیجیے۔
ماں ؛ منور جہاں بیگم، وسط ہند کی پٹھان ریاست بھوپال میں غالب کے ایک شاگرد نواب یار محمد خان شوکت کے منجھلے صاحب زادے سلطان محمد خان سلطان کی بیٹی۔دادا ؛ میاں کمال محمد خان، اورک زئی، میرزائی خیل، کسان جو پیر شریعت ہو گئے کہ نوجوانی میں جاگیر چھنوا بیٹھے تھے۔والد؛ میاں عزت محمد خان، مصوری کے استاد، جن کے بارے میں اپنے بچپن کے دوست، کٹر ہندو ٹھاکر صاحب جگن پورہ کی تحریک پر دادا کا یہ کہنا تھا کہ بدعقیدہ لوگوں کی صحبت نے گمراہ کر دیا تھا۔
گھرانا؛ جس میں پینسٹھ کلرک، چودہ والیان ریاست اور نواب، دو ڈکیت، تین نیتا، گیارہ جرنیل، ایک صاحب کرامت ولی، ایک شہید، چھ ٹوڈی، دو کامریڈ، ایک اولمپیئن، سات مکینک، چونتیس تحصیل دار، ایک موذن، ایک ڈپلومیٹ، سات شاعر، پانچ ناکے دار، کچھ پولیس والے، بہت سے لیکچرر اور استاد، ایک تانگے والا، تیس چالیس جاگیردار اور پانچ سو نکمے پیدا ہوئے۔
ان سب کے درمیان ہمارا افسانہ نگار پیدا ہوا۔ دادا کی بیاض کے اندراج کے مطابق، ایک منحوس ساعت میں، انہی افراد کے درمیان پلا بڑھا، بھوپال سے چلا بمبئی پہنچا وہاں سے کراچی آ کر بس گیا کمرشل آرٹسٹ بنا، پبلشر ہوا، کلرکی کی، اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر، ٹریول ایجنٹ، انگریزی کا استاد، ریڈیو نیوز ریڈر۔ بہت سے کام کیے اور اس کا کہنا ہے کہ ڈھنگ سے کچھ نہ کیا مگر میں جو اس کا فکشن پڑھتا ہوں تو ماننا پڑتا ہے کہ ذرا الگ طرح کا اسلوب ڈھالنے کے لیے حیاتی کی بھٹی میں اس طرح تپنا اور پگھلنا پڑتا ہے۔
یوں ہے صاحب! کہ اس کی کہانیوں میں یہ جو ٹیڑھے کردار ہیں عام ڈگر سے ہٹے ہوئے۔ ”باسودے کی مریم“ کے ممدو اور اس کی ماں جیسے۔ ”مئی دادا“ کے مجیتے یا مجیدے جیسے۔ ”ترلوچن“ کا عین الحق، ”فورک لفٹ 352 حمود الرحمن کمیشن کے روبہ رو“ کا پر ماننٹ کلینر/ ڈرائیور عبدالرحیم، ”ہے للاللا“ کا اپنے وجدان میں آوازوں کو تراشنے اور اپنی ’سنسے ٹیوٹی‘ نہ چلتے دیکھ کر مر جانے والا استاد عاشق علی خان، ”گھس بیٹھیا“ کا ببریار خان جس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اسے کلمہ شہادت صحیح طور پر یاد تھا یا نہیں، مگر اس نے گردن کا منکا ڈھلنے سے پہلے طمانیت کے ساتھ کلمہ پڑھنے کی کوشش کی تھی اور اٹک گیا تھا، ”گھڑی بھر کی رفاقت“ کا عیسٰی خان ککبور سروانی، جس نے ٹھنڈے غصے میں لرزتے ہوئے زین کا تسمہ کھول کر گھوڑے کا ساز و یراق زمین پر گرایا اپنی نیام کو چوڑائی کے رخ جریب کی طرح گھوڑے کی پیٹھ پر مار کر بوجھ کھینچنے والے جانور کی طرح ہنکایا اور چیخ کر کہا تھا۔
”تف ہے تجھ پر ، تیری سواری نے مجھے عیسٰی خان نہ رہنے دیا او لعنتی جانور تیری نصف ساعت کی رفاقت نے مجھے چوہے جیسا خود غرض اور کمینہ بنا دیا۔ تف ہے تجھ پر “ ۔
اپنے ہی شعلے کا شہید، اپنی جیکٹ میں فٹ کیا ہوا، اپنی تربت میں جندہ دبا دیا گیا ”دھماکے سے چلا ہوا آدمی“ یہ سب اور اس طرح کے بہت سارے کردار ہمارے اس افسانہ نگار کے اپنے لوگ ہیں، اپنے پرکھوں کے دیکھے بھالے، اپنی لکھی ہوئی تاریخ کے نسیان میں دھنسے ہوئے یا پھر اس کی اپنی ذات کی پرچھائیں سے برآمد ہو جانے والے، اس کی آنکھوں میں کھبے ہوئے اور اس کی نفرتوں، محبتوں اور غصے کے ڈھالے اور پالے ہوئے۔
جی، میں بے دھیانی میں یہاں غصے کا لفظ نہیں لکھ گیا ہوں۔ یوں ہے کہ اسد محمد خان کے بیانیے کی تشکیل میں یہ غصہ قوت متحرکہ کے طور پر کام کر رہا ہوتا ہے اسی سے اس کا بیانیہ ایک گونج پیدا کرتا ہے اور پھر اس کی مسلسل سنائی دیے چلے جانے والی بازگشت بھی اسی قرینے کا اعجاز ہے۔ غصے کے بارے میں اس کا ایک نقطہ نظر ہے، جسے سمجھنے کے لیے اس کا افسانہ ”غصے کی نئی فصل“ کا مطالعہ بہت اہم ہو جاتا ہے۔ یہ غصہ اس کی کہانی کے بیانیے کا مزاج تو اول روز ہی سے بنا رہا تھا مگر کہانی میں اس کی تجسیم اس کے افسانوں کے تیسرے مجموعے میں ہوتی ہے۔میں شروع ہی سے اس افسانے کے مرکزی کردار حافظ شکراللہ خان کے ساتھ ہولیا تھا، اس کے باوجود کہ افسانہ نگار نے لوگوں سے ناحق اسے حافظ گینڈا کہلوایا۔ ایک بے ضرر شخص جس کے بارے بتا دیا گیا ہو کہ وہ صاحب علم تھا کم گو اور اپنی بات اجمالاً کہنے والا، لادینوں سے بھی بھل منسی سے پیش آنے والا، تو ایسے شخص کو جو بہ ظاہر محترم ہو گیا تھا، گٹھے ہوئے ورزشی بدن والا روہیلہ ہونے کے باوجود پیٹھ پیچھے حافظ گینڈے سے پکارا جانا مجھے ہضم نہیں ہوا۔
خیر، افسانہ نگار نے بتا رکھا ہے کہ حافظ شکراللہ خان نے اپنے گاؤں روہری سے نسبت کی وجہ سے سلطان ہند شیر شاہ سوری سے ملنے کا قصد کیا۔ اس نے سوغات میں دینے کے لیے اس ٹبے سے مٹی اٹھا کر زربفت کے پارچے میں باندھی جس پر کبھی سوریوں کا حجرہ اور باڑا تھا۔ راستے کی صعوبتیں سہیں اور جب وہ دارالحکومت کی ایک سرائے میں مقیم تھا تو اس نے رات کو عجب لوگوں کا گروہ دیکھا۔ دن میں میٹھے حلیم اور ملنسار ہو جانے والے لوگوں کا گروہ جو رات ایک دائرے میں بیٹھے ایک دوسرے پر غراتے اور اپنے اپنے حلقوم سے غیظ و غضب کی آوازیں نکالتے تھے۔
افسانہ انکشاف کرتا ہے کہ وہ لوگ ”مردوزی“ تھے۔ صدیوں کی تعلیمات مدنیت کا بگاڑ فرقہ مردوزی کی بابت کہانی نے یہ بھی بتایا ہے کہ صاحبان شوکت اسے اپنے مقاصد میں مفید اور فیض رساں پاتے ہیں سو یہ مسلک دارالخلافوں میں خوب پھل پھول رہا ہے۔ اپنے وجود کے غصے کو رات کی تاریکی میں تباہ کر کے پھینک ڈالنے اور ملنسار ہو جانے والوں کا وتیرہ حافظ شکراللہ خان کو پسند نہ آیا۔ تاہم اس نے آدمی میں موجود غصے کے اس طرح بالالتزام ضائع کیے جانے پر نوحہ نہیں لکھا، امیر کو ایسا خط لکھا کہ کہانی میں نقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پھر سلطان ہند کے لیے لائی گئی سوغات وہاں ملنے والے علم دوست فیروز کو تھمائی اور واپس ہو لیا۔ افسانہ بتاتا ہے کہ فیروز نے سوریوں کے حجرے اور باڑے والی مٹی کی سوغات برف جیسے پھولوں کے تختے پر جھاڑ دی تھی، جہاں اگلی صبح، سفید پھول نہ تھے انگارہ سے لال گلاب دہک رہے تھے۔
یہ انگارہ سے لال گلاب اسد محمد خان کے بیانیے کے اسلوب کا رنگ، روپ اور خوشبو ہیں۔ جب اسے اپنے کرداروں کا بدلنا گرفت میں لینا ہوتا ہے تو وہ ان گلابوں کی مہکار اور لو مزید بڑھا لیا کرتا ہے۔ بات اسد محمد خاں کے کرداروں کی ہو رہی ہے، اور اس باب میں اوپر میں نے ”باسودے کی مریم“ کا ذکر کیا تھا۔ ایک عجب ڈھب کا کردار جس کے خیال میں ساری دنیا بس دو شہروں کا نام تھی۔ مکہ مدینہ اور گنج باسودہ۔ ممدو کی ماں مریم کے لیے مکہ مدینہ سریپ ایک شہر تھا، اس کے حجور ﷺ کا سہر اور دوسرا اس کے چھوٹے بیٹے ممدو کا گنج باسودہ۔ ممدو جس کی بابت کہانی کے راوی کی ماں کی وساطت سے مریم کی عجب وصیت پوری کرائی گئی ہے۔ میں اپنے لفظوں میں کہوں گا تو مزہ جاتا رہے گا، افسانے کی آخری سطور نقل کیے دیتا ہوں۔
”پینسٹھ میں ابا اور اماں نے فریضہ حج ادا کیا۔ اماں حج کر کے لوٹیں تو بہت خوش تھیں۔ کہنے لگیں،“ منجھلے میاں! اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کے صدقے میں جج کرا دیا۔ مدینے طیبہ کی زیارت کرا دی اور تمہاری انا بوا کی دوسری وصیت بھی پوری کرائی۔ عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر، میاں ہم نے تو ہرے بھرے گنبد کی طرف منھ کر کے کئی دیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! باسودے والی مریم فوت ہو گئیں۔ مرتے وخت کہہ رئی تھیں کہ نبی ﷺ جی سرکار میں آتی ضرور مگر میرا ممدو بڑا حرامی نکلا۔ میرے سب پیسے خرچ کر دیے۔”
افسانہ جہاں ختم ہوتا وہیں سے ممدو کی ماں مریم کے دل سے اپنے حجور ﷺ کی محبت کا اجالا سارے میں پھیل جاتا ہے یوں کہ بس ایک ہی شہر باقی رہ جاتا ہے مکہ مدینہ، دو شہروں کا ایک شہر، ایک مرکز، اسلامی تہذیب کے کمزور سے کمزور کردار کے لیے قوت کا استعارہ۔کمزور کردار طاقت ور کیسے ہو جاتا ہے اور طاقتور کیسے ڈھینے لگتا ہے، اسد محمد خاں کا مطالعہ اور مشاہدہ اس باب میں بہت گہرا ہے وہ ایسے کرداروں کو بہت باریکی اور بہت ریاضت سے لکھتا ہے، اس باب میں اس کی کئی کہانیاں اور ان کے کردار میری نظروں کے سامنے گھوم گئے ہیں مگر یہاں آپ کی توجہ ”ندی اور آدمی“ کے دو کرداروں کی طرف چاہیے۔ یوں تو ، ندی میں پہلی بار جو اترے وہ چار تھے مگر زندگی کا جس نہج سے مطالعہ کیا گیا ہے اس میں دو کردار اس کہانی میں مرکزی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، شناور غلزئی اور فرید خان سوری۔
وہ جنہیں پیراکی سکھانے والے کی پہلے دن ہی سمجھائی گئی عجب بات سمجھ بھی آ گئی تھی کہ جس ندی میں وہ اترے تھے، پیراکی کرنے سے پہلے پیراکوں کے اندر تیرنی چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ زقندیں بھرتے وحشی بچھڑے ندی میں اترے تو ندی ان کے اندر تیر رہی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ وہ ندی چھوڑ کر کہیں دور جا بیٹھے اور ندی پھر بھی ان کے اندر تیر رہی تھی۔ پتن چھوٹنے کے بعد کہانی وہ بھید کھولتی ہے جس کی جانب میں اشارہ اوپر کر آیا ہوں۔
”العظمت للہ! ، اپنے بادشاہ کی آواز سنی تو خواب گاہ کے بھاری سنگی ستون کی اوٹ میں قالین پر دو زانو بیٹھے خادم خاص شناور غلزئی نے آیت کریمہ پڑھنی بند کی اور فرش پر بھاری پنجہ ٹیک کے جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اپنے فرغل کے تکمے باندھتا شاہی چھپرکھٹ کے پائنتی جا پہنچا۔ بنگالے کی اعلیٰ سوتی مچھر دانی کے پار مومی شمعوں میں اس نے دیکھا کہ سلطان نے کہنی کے بل اٹھنے کی کوشش کی ہے مگر یوں لگا کہ ان سے اٹھا نہیں جا رہا اور وہ تھک کر تکیوں پر دراز ہو گئے ہیں۔ شناور نے مچھر دانی ہٹانے کے لیے بے اختیار ہاتھ بڑھایا، پھر کھینچ لیا۔
ادب، شناور! یہ فرید خان نہیں سلطان مملکت ہیں۔
سلطان گہرے سانس لیتے ہوئے کراہنے لگے۔ انہوں نے منھ ہی منھ میں کچھ کہا، شاید ایک لفظ ”ندی“ شناور کچھ سمجھ نہ پایا مودب سرگوشی میں بولا: ”بادشاہا!“
سلطان خاموش رہے۔ شناور نے پھر عرض کیا ”سلطان عادل!“
شیرشاہ نے جواب نہ دیا بجھتے ہوئے ذہن کے ساتھ سوچا کہ یہ شناور غلزئی یہاں کیوں کھڑا ہے؟ ابھی تو ہم ندی میں تھے کرم ناسا میں۔”
افسانہ نگار چاہتا تو کہانی یہاں ختم ہو سکتی تھی کہ کرم ناسا کی پیچھے رہ جانے والی ندی پھر سے بہنے لگی تھی مگر اس نے علیل ہو جانے والے شیر شاہ سوری کی کہانی کو آگے چلایا یہاں تک کہ ممالک ہند کا دل فرید خان سوری کے دل کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔
”وقت لوگوں کو بدل سکتا ہے۔ بدل دیتا ہے۔“یہ بات اس کے کرداروں نے اوپر سجھائی اور وہ خود اپنی کہانی ”اک میٹھے دن کا انت“ کے عین آغاز میں لکھ آیا ہے۔ اس نے ڈیڑھ جملے کے اس ایک جملے میں ”کیوں؟“ کا حرف نہیں لکھا مگر صاف دکھتا ہے کہ یہی اس کی الجھن ہے جسے وہ سلجھانے میں جتا ہوا ہے۔ ایک اور الجھن بھی تھی جو اس پر اب پانی ہو گئی ہے اور جسے بس سائے کی صورت ہی دیکھا جا سکتا ہے، ذرا فاصلے سے، جیسے صحرا میں دور لرزتے ہوئے سائے ہوں۔ سائے کہ جن کے آر پار دیکھا جا سکتا ہو۔ تو اس معدوم ہو جانے والی الجھن کو بھی خود افسانہ نگار کی زبانی سن کر آنک لیجیے ۔
”وقت جنہیں مار دیتا ہے، انہیں وہ بالکل ویسے ہی جیسے کہ وہ تھے، ایک ہمیشگی میں لٹکائے رکھتا ہے۔ کسی بھی طرح بدلے بغیر، ایک ٹھس کہانی کار کی طرح، انہیں لکھ کر بھول جاتا ہے۔“
اسی الجھن کی معدومیت کی دین ہے کہ اپنی زندگی ہی میں متروک ہو کر مردہ ہو جانے والے کردار اس کی کہانی کے حاشیے سے آگے نہیں بڑھ پاتے، متن میں دور تک گھس کر اسے ٹھس نہیں ہو نے دیتے۔ اس کی ٹھسک، بھڑک اور شان اور حشر سامانی میں خلل نہیں ڈالتے۔ہاں تو بات ہو رہی تھی وقت کی جو لوگوں کو بدل دیتا ہے۔ بل کہ اس وقت کی، کہ جو نہ جانے کیوں لوگوں کو اتنا بدل کر رکھ دیتا ہے؟ ، اور اس باب میں ”اک میٹھے دن کا انت“ سے مثال لینے چلا تھا مگر یوں ہے کہ مجھے، اسی طرح کے طوائفوں والے ایک اور افسانے نے اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ جی، یہ افسانہ ہے لاجی بائی اسیر گڑھ والی کے بدل جانے، زانو پر کہنی ٹکائے، مہندی لگی اپنی گول مٹول ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھے بت بن جانے، ڈی کے ہونے اور ققنس کی طرح اپنی ہی راکھ سے جی اٹھنے والی کی کہانی ”برجیاں اور مور“ ۔تو یوں ہے کہ جسے مرنا ہوتا ہے وہ مر جاتا ہے ”اک میٹھے دن کا انت“ کے اشک لائل پوری اور اس کے بیٹے ”مرے مردار ماشٹر“ کی طرح اور جسے جینا ہوتا ہے وہ بدلتا ہے، اس کی زندگی بھی پہلو بدلتی ہے لاجی بائی کی طرح جس کی گائی ہوئی کجریوں کے ایک ایک نوٹ کی شکل کو بنک والا مظہر علی خاں کاغذ پر اتار سکتا تھا۔ تو یہ شکلیں ماضی کی تھی۔ نیپئرروڈ کے فلیٹ میں تو وہ ڈیرے دارنی تھی، جسے گانا وانا نہیں آتا تھا، جو پنڈت کو کاشمیری کے سب شاستر پڑھے بیٹھی تھی اور علم مسہری کی منتہا تھی۔ وہ کہانی میں ایسے ہی رہتی تو یہ کردار مردہ ہو کر تعفن چھوڑنے لگتا، اسد محمد خاں نے اسے بدل جانے دیا، ڈی کے ہونے دیا اور پھر اسے اس کے میٹھے، رسیلے اور اجلے ماضی سے جوڑ کر زندہ کر دیا۔
تو صاحب! ماضی، محض گزرے وقت میں دفن ہونے کا حوالہ نہیں ہے، کہ اس سے جڑیں تو پھر سے جی اٹھنے کا قرینہ آتا ہے۔ میں نے کہا نا، اپنی راکھ سے ققنس کی طرح پھر سے جی اٹھنے کا ۔ یہاں تک پہنچا ہوں تو میرے دھیان میں اسد محمد خاں کی ایک اور کہانی ”شہر کوفے کا محض ایک آدمی“ ہمارے وجودوں پر حرام خوری، آلکسی اور کاہلی کی چڑھی چربی کو اپنی تیز آنچ سے پگھلا ڈالنے والا بیانیہ گونجنے لگا ہے۔ کہانی کے پہلے حصے میں تاریخ کے وہ لمحات ہیں جنہوں نے زمرد اور یاقوت اور مشک اور عنبر کے بہتر تابوت اپنے کندھوں پر اٹھائے تھے۔بہتر آسماں شکوہ لاشوں کو سنبھالنے والے تابوت۔ اسی حصہ میں کہانی کے راوی نے ایک ایسے آدمی کا تصور باندھنے کو کہا ہے جس نے کوفے سے امام عالی مقام کو خط لکھا تھا: ”میرے ماں باپ فدا ہوں، آپ دارالحکومت میں ورود فرمائیے، حق کا ساتھ دینے والے آپ کے ساتھ ہیں۔“ اور وہ آدمی اپنے وجود کی پوری سچائی کے ساتھ اس بات پر ایمان بھی رکھتا تھا، مگر خط لکھنے کے بعد گھر جا کر سو گیا۔سویا ہوا یہ آدمی بعد میں زانو پیٹتا ہے، گریبان چاک کرتا ہے، روتا ہے اور اپنی نقاہت دور کرنے کے لیے خوب سیر ہو کر پھر سے سو جانے کی روش پر قائم رہتا ہے۔ کسل مند ہو کر ڈھے جانے والا یہ کوفے کا آدمی آخر کار چیخ مار کر اپنی کسل مندی کی چادر پھاڑ دیتا ہے چھپر سہارے والی تھونی جھٹکے سے اکھاڑتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اس چھپر تلے اس کی عورت اور بچے تھے اور فرات کے کنارے جا پہنچتا ہے۔ جب شمر نے گھوڑے کو مہمیز کیا تو یہ شخص اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی کے ساتھ قاتل اور مقتول کے درمیان پہنچ گیا تھا اور پھر شمر کے گھوڑے کے سموں تلے کچلا گیا، دودھ، پنیر، شہد اور روغن زیتون اور تازہ خرمے سے پلا ہوا جسم، جو کچلے جانے کے بعد قیمہ ہو گیا تھا گھوڑے کی لید میں سنا ہوا قیمہ، جو رات بھر وہیں پڑا رہا اور جسے صبح دم چیونٹیوں کی پہلی قطار نے دریافت کیا۔
اپنے امام سے آخری لمحوں میں سچی وابستگی کا مظاہرہ کرنے والے کوفے کے اس آدمی، جی اس زندہ جاوید آدمی کو کہانی کے دوسرے حصہ میں، کہ جہاں فلسطینوں پر ڈھائے جانے والے ستم کا ذکر ہو رہا ہے اور ان دعاؤں کا جن سے ہماری ہتھیلیاں لبالب بھری ہوئی ہیں اور ساتھ ہی اس خوف کا جو جارح اور ظالم کے ٹینکوں کے سامنے جانے اور قیمہ قیمہ ہو جانے سے ہمیں روک دیتا ہے تو کہانی ماضی میں غوطہ لگاتی ہے اور ہمارے کسالت بھرے اور خوف کی چربی چڑھے بدنوں پر چرکے لگانے کے لیے، کوفے کے اس ایک آدمی کو ، زندہ جاوید آدمی کو سامنے لے آتی ہے۔ ہاں، ہمارے بدنوں پر چرکے لگانے کے لیے۔ مگر یوں ہے کہ ہم میں اتنی بھی استقامت نہیں رہی کہ چولہے میں سے جلتی لکڑی ہی کھینچ کر ظالم کے مقابل ہو سکیں۔ کہ ہمیں تو ہمارے پنیر اور روغن زیتون اور خرمے کھا گئے ہیں، قیمہ بنا گئے ہیں اور ہمیں چیونٹوں کی پہلی قطار نے دریافت کر لیا۔
اپنی کتاب ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ میں ”اک ٹکڑا دھوپ کا “ کی ذیل میں اسد محمد خاں نے لکھا تھا:
”آدمی کتنے ہی لوگوں کے ساتھ زندگی کرنا چاہتا ہے، مگر یہ پورا پھیلاؤ کچھ اس طرح کا ہے کہ ایسا ہو نہیں پاتا جیسا آدمی چاہتا ہے۔“
ہاں عین مین، اس طرح، بالکل اس طرح نہیں ہو سکتا، جس طرح وہ تمنا کرتا ہے مگر اسد محمد خاں نے جتنے لوگوں کے ساتھ زندگی بتائی ہے، اپنے اردگرد کے، اپنے کٹمب قبیلے علاقے کے اپنی تاریخ تہذیب کے، اور ان سے ایک رشتہ قائم کر کے انہیں کاغذ پرا تارا ہے یوں کہ ہم بھی ان کے ساتھ زندگی بتا رہے ہیں، تو یہ بھی کچھ کم نہیں ہے، اس نے اپنے فکشن کی جو بستی بسائی ہے، ان کہانیوں کی صورت میں جو افسانہ ہو گئیں یا ان کہانیوں کی صورت میں جو فقط فکشن کے پارچے ہیں، میں تو اسے اردو ادب کے اندر ایسی زندہ بستی سے تعبیر دوں گا جس کے اندر کئی زمانے ہیں اور کئی موسم ہیں اور وہاں کا ہر دریچہ ان گنت مناظر پر کھلتا ہے اور ان مکانوں میں، وہاں کے سرد و گرم میں اور منظروں میں کئی زمانوں کے لوگ بستے ہیں، زندگی اور موت کے جھٹ پٹے میں، ڈی کے ہوتے ہوئے اور اسد محمد خاں کی کہانیوں میں امر ہوتے ہوئے۔