طہ عبد الناصر رمضان کا یہ مضمون العربیہ پر شائع ہوا جسے افکار کے لیے علی مومن نے ترجمہ کیا ہے
فرانسیسی سائنسدان ہنری بیکریل اور اپنے شوہر پیئر کیوری کے ہمراہ 1903 میں طبیعیات میں مشترکہ نوبیل انعام حاصل کرنے والی پولش نژاد فرانسیسی ماہر طبیعیات اور کیمیادان میری کیوری وہ پہلی خاتون بنیں جنہیں یہ اعزاز حاصل ہوا۔ یاد رہے، چند سال بعد دو کیمیائی عناصر، پولونیم اور ریڈیم کے بارے تحقیق پیش کرنے پر وہ ایک بار پھر اس اعلیٰ ترین اعزاز کی حق دار ٹھہریں۔
میری کیوری کے علاوہ آسٹریائی امن پسند کارکن بارتھا فان ستنر بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنہوں نے 1905 میں سب سے پہلے نوبیل امن انعام حاصل کیا۔ وہ 9 جون 1843 میں سلطنتِ آسٹریا کے شہر پراگ کے ایک با اثر اور رئیس خاندان میں پیدا ہوئیں، وہ فرانز جوزف کینسکی کی بیٹی تھیں مگر اپنے والد سے ناواقف تھیں کیونکہ ان کے والد ان کی پیدائش کے سال ہی 75 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ اسی سبب بارتھا کی پرورش اپنی والدہ سوفی ولہیلمن فان کارنر کے ہاں آسٹریائی شاہی خاندان لورین کے زیرِ سایہ ہوئی۔
1873 میں وہ ستنر خاندان کے قریب ہوئیں اور کچھ سال بعد ان کی منگنی آرتھر فان ستنر سے ہوئی جن سے وہ عمر میں سات سال بڑی تھیں۔ تاہم ان کے خاندان نے اس رشتے کو شادی کے لیے قبول نہیں کیا اور وہ پیرس منتقل ہو گئیں، جہاں انہوں نے الفریڈ نوبیل کی معاون کے طور پر کام شروع کیا۔ لیکن پیرس میں محض ایک ہفتہ گزارنے کے بعد وہ ویانا لوٹ آئیں اور خاموشی کے ساتھ آرتھر فون ستنر سے شادی کر لی جو ایک ممتاز آسٹریائی مصنف اور انجنیئر تھے۔ ڈائنا مائٹ کے موجد سویڈش سائنسدان الفریڈ نوبیل سے اگرچہ وہ صرف دو بار ملیں مگر 1896 میں ان کی وفات تک ان کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے بارتھا نے مسلسل رابطہ قائم رکھا۔
مختلف انسانی شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کے لیے نوبیل انعام کے اجرا میں انہوں نے اہم کردار کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق نوبیل اور بارتھا کی آخری ملاقات 1892 میں سوٹزر لینڈ کے شہر زیورخ میں ایک امن کانفرنس کے دوران ہوئی۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ متعدد عالمی امن تنظیموں میں ان کے اہم کردار نے الفریڈ کو امن کے نوبیل انعام کے اجرا کے لیے قائل کر ہی لیا۔
بارتھا نے 1889 میں "ڈراپ دی ویپن” (ہتھیار ڈال دو) نامی کتاب لکھی جس میں انہوں نے جنگ کی بجائے امن کے ذریعے معاملات کے حل پر دنیا کو متوجہ کیا۔ اس کتاب نے بہت جلد عالمی شہرت حاصل کر لی اور دنیا بھر کی کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع کیا گیا۔ یہ کتاب 1852 میں امریکی مصنفہ ہیرئیٹ بیچر اسٹوو کی غلامی کے خلاف لکھی جانے والی کتاب "انکل ٹام ز کیبن” (حجرہ چچا ٹام) کی طرح شہرت حاصل کی اور بیسویں صدی تک عالمی سطح پر جنگ مخالف ادب کے باعث نمایاں اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب رہی۔ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی شائع کیے گئے۔
1890کی دہائی میں انہوں نے اختلافات اور تنازعات کے حل کے لیے ایک عالمی فورم کے قیام کی جدو جہد کی اور آسٹریا کے حکمران فرانز جوزف کو اس کے قیام پر قائل کرنے کے لیے خط بھی لکھا۔ دوسری طرف بارتھا جنگ مخالف عورتوں کی تنظیموں میں شریک رہیں اور یوں عالمی شہرت بھی پائی۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ مخالف اور امن پسند نظریات کے پرچار کے لیے کی گئی کاوشوں کے سبب 1905 میں انہیں امن کا نویبل انعام دیا گیا اور اس طرح وہ یہ انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
1912 میں جرمنی اور برطانیہ کے دوران بڑھتی کشیدگی اور ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو دیکھ کر انہوں نے ایک خطرناک جنگ کی پیش گوئی کی تاہم وہ سرائیوو حادثہ سے ایک ہفتہ قبل 21 جون 1914 کو سرطان کے باعث 71 سال کی عمر میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔
لیکن بدقسمتی سے چند ہفتوں بعد اس بھیانک جنگ کا آغاز ہوگیا جس کی نشاندہی بارتھا کر چکی تھیں، جو بعد ازاں پہلی جنگِ عظیم کے نام سے مشہور ہوئی اور ظلم و سفاکیت کا استعارہ بنی۔