خالد احمد کا یہ مضمون انگریزی سے اردو میں تجزیات کے لیے حذیفہ مسعود نے ترجمہ کیا تھا، جسے اپنی افادیت اور عمدگی کے پیشِ نظر افکار پر شائع کیا جا رہا ہے۔
جب میری رہائش زمان پارک میں تھی اور میں دھرم پورہ سکول میں پڑھا کرتا تھا۔ ان دنوں کرکٹ کھیلنے کے علاوہ میرا پسندیدہ ترین مشغلہ اردو ناول اور جرائد پڑھنا ہوتا تھا۔ پچاس کی دہائی کے ابتدائی ماہ و سال فیضؔ، منٹو اور عبد الحمید عدمؔ کا زمانہ کہلاتے ہیں۔ پاک ٹی ہاؤس میں تمام تر ادیب اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ میں سبطِ حسن کی زیرِ ادارت چھپنے والے لیل و نہار کا قاری تھا ۔۔۔ اور اس میں میرا ایک خط بھی شائع ہوا تھا۔ شورش کاشمیری کا چٹان، مولانا مودودی کا ترجما ن القرآن اور ان کے ساتھ ساتھ احمد پرویز کا طلوعِ اسلام بھی زیرِ مطالعہ رہتا تھا۔ گورنمنٹ کالج میں میرا داخلہ کرکٹ کی بنیاد پر ہوا تھا اور سلمان قریشی نے میری ریگنگ کی تھی۔ اسے ہم کرشر (Crusher) کہا کرتے تھے۔ تاہم بعد ازاں مجھے اس کی کتاب Pieces of Eight کی نظموں نے اپنے سحر میں مبتلا کیے رکھا تھا۔
بارہویں جماعت کے دوران خالد رانجھا اور مجھے انگریزی شاعری کا شوق چرایا۔ ملاحظہ کیجیے، “How can I be gay/When you are away”۔ خالد رانجھا بعد ازاں وزیرِ قانون بھی رہے۔ میرے استاد عبد القیوم جوجو جی سی ڈراما کلب کے روحِ رواں تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ پرچے میں لکھی ہوئی میری نثر ان سے پڑھی تک نہیں گئی تھی۔شعیب ہاشمی نے مجھے معاشیات پڑھائی۔ میں نے طارق علی، سلمان تاثیر، سلمان پیر اور شاہد رحمان کو بارہا انہیں تنگ کرتے دیکھا۔ میں نے ان سے بغیر لڑائی کے جیت جانے کا ہنر سیکھا ہے۔ اگرچہ میں ہنوز یہ نہیں جان پایا کہ جیت جانا کیا ہے۔
ستر کی دہائی کے اواخر میں مَیں پاکستان ٹائمز میں زِم اور صدیقی کے ساتھ ادارتی صفحے پر کام کرتا تھا، یہاں فیضؔ اور مظہر علی خان نے اپنی زندگی کے بہترین ایام گزارے تھے۔ دفتر میں چوہے اخبارات کو کتر دیتے تھے اور ان کو پکڑنے کے لیے پالی گئی بلیوں کو کھیلوں کے نامہ نگار آصف، کچا گوشت ڈالا کرتے تھے جس کی بو کمرے میں ہر طرف پھیلی رہتی۔کمرے ہر وقت تاریکی میں ڈوبے رہتےاور دن میں بھی روشنیاں جلائے رکھنے کی ضرورت رہتی تھی۔ مظہر علی خان ہفتہ وار Viewpoint کے دفتر میں بیٹھا کرتے جہاں میں ان سے (رعب کے سبب) بمشکل بات کر پاتا تھا۔ میں Viewpoint میں ‘Janus’ کے قلمی نام سے ایک کالم لکھا کرتا تھا، ہوا یوں کہ ایک بار زِ م نے ‘J’ ہٹا کر اس نام کو تبدیل کردیا اور مدیرِ اعلی آئی اے رحمان بھی اس غلطی کو پکڑ نہیں پائے۔ بہرحال وہ دونوں مجھ سے کم بدمعاش تھے۔
ان دنوں میں سلیم الرحمان سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ میں انہیں انار کلی میں ملا تھا جہاں وہ کبھی کبھار منو بھائی کے ساتھ آ نکلتے تھے۔منو بھائی غالبا ً اپنے اردو کالموں کی طرح عمدہ پنجابی شاعری بھی کیا کرتے تھے۔سلیم الرحمان نے مجھے ناول نگار عزیز احمد پر تنقیدی مضمون لکھنے کو بھی کہا تھا۔ لاہور کے ادبی حلقوں نے انتظار حسین کے ناول ’بستی‘ پر میرے تبصرے کو بالکل پسند نہیں کیا تھا۔ اس تبصرے میں مَیں نے اس ناول کو اردو کے بہترین دس ناولوں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ 2013 میں انتظار حسین واقعی بہترین غیر انگریزی لکھاری کے لیے Booker Prize حاصل کر سکتے تھے ( وہ اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئے تھے)۔
میں نے کشور ناہید کے سرائے نما گھر میں کئی ادیبوں سے ملاقاتیں کر رکھی ہیں، جمیل الدین عالی سے لے کر گوپی چند نارنگ تک سبھی کسی نہ کسی سمے وہاں پائے جاتے تھے۔ انگریزی نثر کے حوالے سے میں ان دنوں صفدر میر کا دیوانہ تھا۔ میں نے گوپی چند نارنگ کو کشور ناہید کے گھر پر سنا تھا۔ ان سے بات کی تو صفدر میر سے متعلق میرے خیالات بدل گئے اور مجھے احساس ہوا کہ ضیا محی الدین جب کہتے ہیں کہ ہمارے بہت کم ادیب اچھی ارود بولتے ہیں تو وہ یقیناً صحیح کہہ رہے ہوتے ہیں۔ جب گوپی چند نارنگ بولتے ہیں تو ’’باتوں سے پھول جھڑتے ہیں‘‘۔
داوود رہبر لاہور کے کچھ تنگ نظر تدریسی حلقوں کی جانب سے کی گئی بد سلوکی کے کافی عرصہ بعد لاہور آئے تو انہوں نے بتایا کہ پطرس بخاری ایک فرشتے کی مانند بولتے ہیں۔ انہوں نے پطرس کو لاہور کے خاقانِ تکلم کا خطاب دیا۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ کہ داوود رہبر بذاتِ خود ایک فرشتے کی مانند اردو لکھا کرتے تھے۔ سلیم الرحمان کے سر یہ گناہ ہے کہ انہوں نے مجھے الفاظ کی جڑوں کے بارے تجسس میں مبتلا کر دیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ اگر یہ کوئی اصطلاح ہے، تو ناصر کاظمی رئیس الملائکہ کی طرح بات کیا کرتے تھے۔ میں نے ناصر کاظمی کو نہیں سنا، تاہم میرا خیال ہے کہ اردو کے بد ترین متکلم قیوم نظر تھے، بالخصوص اس دن کے بعد جب انہوں نے 1964 کی تقریب تقسیمِ اسناد میں میرے خیالات کو یاوہ گوئی سے تعبیر کیا تھا۔
سلیم الرحمان نے اپنی تحریر کردہ قدیمی ادب کی مختصر تاریخ میں الفاظ کا مستند تلفظ استعمال کرنے پر اصرار کیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ Cicero دراصل Cyprus ،Kikero دراصل Kuprus اور Thucidydesدراصل Thukidides تھا۔ انہوں نے اردو میں ایک خاص طرزِ تحریر اپنایا جو مجھے اسی قدر محبوب تھا جس قدر خان فضل الرحمان خان کی لکھت محبوب تھی۔ بعد ازاں جب انتظار حسین سے شناسائی ہوئی تو مجھے ان کی نثر سے پیار ہو گیا۔
میں نے ایسی انگریزی شاعری بھی کی جسے آج میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ سب سے پہلے یہ کالج جریدے میں شائع ہوئی اور بعد ازاں The Ravi میں بھی، اس کی وجہ تقریباً یہی تھی کہ میں مجلسِ ادارت کا حصہ تھا اور مجھے ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ میں نے نہ سمجھ آنے والی نثر بھی لکھی۔ جب میں یہ سب کر رہا تھا تو انتظار حسین اس وقت بہت نفیس اور عمدہ کالم لکھ رہے تھے۔ یہ ان دنوں سے پہلے کی بات ہے جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ چائے پینے کے لیے مناسب جگہ کی تلاش میں لاہور مسخر کر رہے تھے۔
شیخ صلاح الدین اور حنیف رامےکو دو ہی کام تھے، یا تو وہ انتظار حسین کے ساتھ مختلف ریستورانوں میں پڑے اونگھتے رہتے یا پھر فلسفیانہ مباحث میں مستغرق رہا کرتے تھے۔ جب کافی ہاؤس ادبا کی عسرت و تنگدستی سے عاجز آ گیا تو انہیں پاک ٹی ہاؤس نے چھت فراہم کی۔ اس سے پیش تر اعجاز حسین بٹالوی، قیوم نظر، ضیا جالندھری، یوسف ظفر اور مختار صدیقی حلقہ اربابِ ذوق کی مجالس ینگ مینز کرسچن ایسوسی ایشن (YMCA) میں منعقد کیا کرتے تھے، اب وہ پاک ٹی ہاؤس میں ہونے لگیں۔
ایک دن ضیاالحق کی مدح میں اداریہ لکھنے کے بعد جیسے ہی میں نے سر اٹھایا، استاد دامن روسی زبان میں چلاتے ہوئے اندر داخل ہوئے کہ وہ ہیر دوبارہ لکھ رہے ہیں جس میں رانجھا ہیرو ہوگا، کیوں کہ پنجابی کلاسیکی ادب نے اپنی ہیروئن کو نمایاں کرنے کے لیے ہیرو کو نظر انداز کر دیا ہے۔ انہیں کسی نے بتا دیا تھا کہ میں روسی زبان جانتا ہوں۔ باہر شہر میں حبیب جالب کا بھی یہی حال تھا جو استاد دامن کی طرح حکمرانوں کے خلاف سیاسی بیان بازی کر رہے تھے۔
توفیق رفعت کلیم عمر کے ساتھ گورنمنٹ کالج آئے تھے، توفیق نے میرا شعر دیکھا، حوصلہ افزائی کی تاہم کلیم عمر بے لحاظ اور رائے دینے میں منہ پھٹ ہونے کی حد تک ایمان دار واقع ہوئے تھے۔ توفیق رفعت دانائی کے شاعر تھے تاہم بنیادی طور پر وہ کافرانہ حد تک فطرت سے لطف اندوز ہونے والے شخص تھے۔ وہ ایک بڑے شاعر تھے، ان کے ایک منظوم ڈرامے میں، مَیں نے اداکاری بھی کی تھی، جس کی ہدایت کاری فرخ نگار عزیز نے کی تھی۔
توفیق رفعت کی زندگی کا عکس ان کی نظموں سے جھلکتا تھا؛ وہ فیصلے صادر یا نتائج اخذ نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری حسیات کو چھوتی اور فیصلے کا اختیار انہیں پر چھوڑ دیتی۔ انہیں کسی بھی پیغام کو پھیلانے کا خیال لاحق نہیں رہتا تھا کیوں کہ وہ کسی حکم یا فیصلہ صادر کرنے کے زمرے میں آ سکتا تھا۔ انہوں نے حتمی نتائج کی پروا کیے بغیر زندگی گزاری، انہوں نےاپنے سامنے موجود کسی بھی شے کے اخلاقی جائزے کے نتائج کو ہم پر مسلط کرنے سے احتراز کرتے ہوئے سوز وگداز اور حسن و خوبصورتی کو تخلیق کیا۔
انہوں نے زمانی تغیرات کے آگے بند باندھنے والے نظریات کی بجائے تغیر کے عملِ پیہم کو قبول کیا۔ انہیں روح کی غیر جانبداری کی بنا پر آزادی کی اس کیفیت سے نوازا گیا تھا جو ہمارے دور کے چند ایک شعرا کو ہی میسر تھی۔ ماضی کو یاد کرتے ہوئے ان کے پیشِ نظر وقت کے تھپیڑوں کی نذر ہو جانے والی کوئی خاص اقدار نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ وہ محض ان لمحات کا ذکر کرتے جو ماضی کے دھندلکوں میں کہیں کھو چکے تھے۔ انہیں جس چیز نے تغیر کی طرف سب سے زیادہ مائل کیا وہ موت تھی، ایسے لوگوں کی موت جنہیں وہ جانتے تھے۔ وہ لوگ، جن کی زندگیوں میں سماج نے ان کی عظمت کا اعتراف کبھی نہیں کیا تھا۔
کلیم عمر لاہور جیسے شہر میں پنپتی جذباتی شعبدہ بازی کے بارے میں آخری حد تک حساس تھے اور انہوں نے اس بارے میں لکھنے کا حق ادا کیا۔ وہ اس میدان کے یکتا شہ سوار تھے۔ کلیم عمر اور توفیق رفعت نے زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور انہیں کئی مشکلات درپیش رہیں، تاہم ان کی سرپرستی نے اطہر طاہر اور عالمگیر ہاشمی کی قیادت میں اچھی شاعری کرنے والے شعرا کا ایک حلقہ جنم دے دیا تھا۔ لاہور کافی حد تک قدامت پسندی کا گڑھ بنتا جا رہا تھا اور یہاں کے مطالعاتی حلقے بدلنے لگے تھے۔ کبھی کبھار کراچی کے اہلِ دانش یہاں کے ادبی حلقوں کو ملامت کرتے تھے کہ انہوں نے نظریے کی خاطر انسانیت جیسے موضوع کو خیر باد کہہ دیا ہے۔
بھٹو دور کی قومیانہ حکمتِ عملی سے لاہور کی تلخ یادیں وابستہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضیا دور کی اسلامائزیشن کے لیے اس نے قبولیت کے در کھول دیے تھے۔ قدامت پسندی، ماضی سے بے تعلق ہو جانے کے تصور کے آگے بند باندھنے کی جوابی کوشش نہیں رہی تھی، بلکہ بنیاد پرستانہ رجحان کے طور پر سامنے آ رہی تھی۔ آپ کسی بھی وقت پٹ سکتے تھے۔ تمام ادبی جرائد یکے بعد دیگرے بند ہوتے جارہے تھے۔ اردو بازار میں محض مذہب بکتا تھا۔ 2013 میں بھی آپ آزادانہ طور پر اپنے خیالات قلم بند کرنے کی پاداش میں قتل کیے جاسکتے ہیں۔ کوئی بھی خطرناک کتاب لکھنے کے بعد آپ دعا کرتے ہیں کہ اس کتاب پر کسی کی نظر تک نہ پڑے۔
پاکستان ٹائمز بند ہو چکا تھا اور حکومتِ پاکستان اس کی ازسرِ نو اشاعت میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اس اخبار کو خدا حافظ کہا اور اور دی نیشن میں چلا گیا۔ بعد ازاں رحمت شان آفریدی کے لبرل اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ میں کام کرنے لگا۔ اس اخبار کا نام بڑی چالاکی سے رکھا گیا تھا۔ پاکستان ٹائمز میں مستحکم ملازمت کے 9 سال گزارنے کے بعد میں اب صحافتی سفر میں غیر یقینیت کی ڈھلوان پر آپہنچا تھا۔ پاکستان ٹائمز میں میری ملازمت کا آغاز 1700 روپے ماہوار تنخواہ سے ہوا تھا۔
میں نے نجم سیٹھی کے فرائیڈے ٹائمز میں کام شروع کیا، ان کے ہفتہ واراردو اخبار ’آج کل‘ میں ادارتی خدمات سرانجام دیں اور قدامت پسند حلقوں کی جانب سے اس اخبار کی حیرت انگیزمخالفت کا تجربہ کیا۔ فرنٹیئر پوسٹ معاشی بدحالی کا شکار ہو گیا اور ْآج کلٗ ایک ایسے شہر میں باقی نہیں رہ سکتا تھا جہاں سیکولر خیالات کے پرچارک اردو اخبار کو ہضم کرنا مشکل تھا۔ سلیم الرحمن اور انتظار حسین آج کل میں کالم لکھا کرتے تھے۔انتظار حسین کی ڈیلی ٹائمز میں شمولیت کے بعد نجم بھی ادھر چلے گئے اور میں بھی ان کا پیچھا کرتے وہاں پہنچ گیا۔ ڈیلی ٹائمز نےہی آج کل کی بطور روزنامہ اشاعتِ ثانی کی راہ ہموار کی تھی۔
ایک دن انتظار حسین نے مجھے علی دادا کے نگار خانے میں اپنے دوستوں کی محفل میں آنے کو کہا۔ اب مجھے ایک عشرہ ہونے کو آیا ہے کہ اپنا اختتامِ ہفتہ ایسے دوستوں کے ہمراہ گزار رہا ہوں جہاں مجھے امریکی ایجنٹ یا بھارتی جاسوس ہونے کے طعنے سننے پڑتے ہیں نہ ہی نظریاتی مباحث کے ذریعے میری ہفتے بھر کی تھکن کو مزید ہوا دی جاتی ہے۔ وہاں میں بہت عمدہ اردو کہانیاں لکھنے والے لکھاریوں، مسعود اشعر، اکرام اللہ اور سلیم الرحمن کی لغوی روایت کے امین شاہد حمید کی محفل سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔
فرائیڈے ٹائمز میں جن دنوں میں کام کر رہا تھا، ان دنوں اچانک مشفق خواجہ مجھ سے ملنے آئے تھے، میں ایک عرصے سے ان کا پرستار تھا۔ عبداللہ حسین ہمیشہ میرے بے باک صحافتی طرزِ عمل کا دفاع کرتے رہے۔ ان کے ناول اداس نسلیں کو میں اردو کے پہلے دس بڑے ناولوں میں شمار کرتا ہوں جبکہ ان کی کچھ کہانیوں کے بارے میں، مَیں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بہت ہی فطری انداز میں نہایت عمدگی کے ساتھ تحریر کی ہیں، جنہیں لیکن بہت کم سراہا گیا ہے۔ لندن فلیٹ کے آوارہ پاکستانی مزدوروں کی کہانی ایسی ہی ایک کہانی ہے۔
عدمِ برداشت کا شکار ہوتے شہر سے کوسوں دور علی دادا کا نگار خانہ 80 کی دہائی کے انتظار کی یاد دلاتا ہے جو ہر خوبصورت اور حسین محفل میں موجود ہوتے۔ بابر علی کے علی آدیٹوریم کی سالانہ محفل میں جب ضیا محی الدین نثر پڑھا کرتے تھے تو وہ اردو اور فقط اردو بولا کرتے تھے، وہ دوسرے ادیبوں کی طرح جگ ہنسائی کا سامان نہیں بنتے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اب بھی سیکھ رہا ہوں۔