برطانیہ کے شہر برمنگھم میں ایک باحجاب خاتون کا مجسمہ نصب کیا جا رہا ہے۔اس مجسمے کوقوتِ حجاب (The Strength of the Hijab) کا نام دیا گیا ہے۔ اس پر لکھا ہے: ”یہ ایک خاتون کا حق ہے کہ اسے محبت و احترام سے نوازا جائے‘ قطع نظر اس کے کہ اس کا لباس کیسا ہے۔ ایک خاتون کی قوت کا مرکز اس کا دل ہے اور اس کا دماغ‘‘۔ مجسمہ ساز کا کہنا ہے: ”یہ اسلام کو ماننے والی اُس خاتون کی نمائندگی ہے جو حجاب کا اہتما م کرتی ہے۔ وہ اس معاشرے کا اہم حصہ ہے لیکن اسے حقِ نمائندگی نہیں دیاجاتا‘‘۔ اکتوبر میں اس مجسمے کو شہر کے کسی مرکزی مقام پر نصب کر دیا جائے گا۔
یہ اقدام ایک فلاحی تنظیم نے اٹھایا ہے جو جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ میں بس جانے والے مہاجر گروہوں کے تحفظ کے لیے قائم ہوئی ہے۔ یہ ان کے کلچر کو باقی رکھنا چاہتی ہے جو برطانیہ کے تنوع کا اظہار ہے۔ اس کو متنازع قرار دینے والے بھی ہوں گے۔ مجسمہ ساز اُن کے اعتراض کو بے وزن سمجھتا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ ملک کو وحدت کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تقسیم کے ہر عمل کی نفی کی جائے اور لوگوں کے متنوع اسالیبِ حیات کا احترام کیا جائے۔یہ فعل کیسا ہے؟ کیا قابلِ تعریف ہے؟ کیا یہ ‘سیکولر ازم‘ ہے؟ اگر یہ سیکولر ازم ہے تو فرانس میں حجاب پر پابندی کو کیا نام دیا جائے؟ کیا اسے بھی سیکولر ازم کہا جائے گا؟ کیا حجاب کا احترام بھی سیکولر ازم ہے اور اس کی مخالفت بھی سیکولر ازم؟ یہ کوئی فکری تضاد ہے یا ان دو رویوں میں تطبیق ممکن ہے؟ کیا مغرب کسی تہذیبی وحدت کا نام ہے؟ تکثیریت کیا مغرب کی تہذیب کا ناگزیر حصہ ہے؟
ان سوالات کے جواب تلاش کرتے وقت ایک اور خبر بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے جو چند دن پہلے ایران سے آئی ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ نے نئے قوانین کی منظوری دی ہے جس میں حجاب نہ کرنے والی خواتین کے لیے موجود قانون کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے۔ اس قانون کو ابھی شورائے نگہبان کی منظوری کا مر حلہ درپیش ہے۔ یہ علما پر مشتمل ایک ادارہ ہے جو سب پر فوقیت رکھتا اور پارلیمنٹ کے قانون کو بدل سکتا ہے۔ ایران میں مردوں کے لیے بھی لباس کی حدود متعین ہیں مگر ان کے لیے خواتین جیسی سختی نہیں ہے۔پچھلے سوالات کے ساتھ اب چند سوالات مزید شامل کر لیجیے۔ فرانس میں حجاب اتارنا لازمی ہے اور ایران میں اوڑھنا۔ دونوں میں کیا جوہری فرق ہے؟ کیا ریاست اپنے شہریوں کیلئے لباس طے کرنے کا حق رکھتی ہے؟ اگر ریاست فرد کے انتہائی ذاتی معاملات میں دخل دے سکتی ہے تو کیا یہ معاملہ صرف لباس تک محدود رہے گا؟ کیا اسلام نے اس باب میں ہمیں کوئی واضح رہنمائی دی ہے؟مغرب میں بے حجابی کی اجازت تو ہے مگر برہنگی کی نہیں۔ کوئی بے لباس ہو کر عوامی مقامات پر نہیں پھر سکتا۔ وہاں کے بعض ساحلوں پر یا عمارتوں میں اس کی اجازت دی گئی ہے مگر اس کا داخلہ مخصوص افراد کیلئے ہے۔ اس کیلئے ایسے کلبوں کی رکنیت لازمی ہے اور یہ بعض شرائط کے تحت ہی ملتی ہے۔ گویا عوامی مقامات کیلئے ایک ڈریس کوڈ مقرر ہے۔ اگر مغرب اپنی تہذیبی اقدار کے مطابق لباس کیلئے حدود کا تعین کر سکتا ہے تو ایران کیوں نہیں؟ ایران کیلئے کیوں لازم ہے کہ وہ دوسروں کی اخلاقی اقدار کو معیار بنائے؟
اگر سب ممالک اپنی اپنی تہذیبی اقدار کے مطابق اپنے شہریوں کے لیے لباس کی حدود مقرر کر سکتے ہیں تو پھر ہمارے لیے اہم سوال یہ ہے کہ اسلام کی تہذیبی اقدار کیا کہتی ہیں؟ کیا اسلام نے لباس کے لیے کوئی حدود مقرر کر رکھی ہیں؟ اگر کی ہیں تو وہ کیا ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان حدود کا تعلق فرد کے ساتھ ہے یا نظمِ اجتماعی کے ساتھ؟ اگر فرد کے ساتھ ہے تو پھر مسلم خواتین و حضرات کو یہ تلقین کی جائے گی کہ وہ اس کا خیال رکھیں۔ اس کے لیے قانون سازی نہیں ہو گی۔ اگر ریاست کے ساتھ ہے تو پھر اس کے لیے قانون بنایا جا سکتا ہے اور بالجبر نافذ بھی کیا جا سکتا ہے۔اس بحث میں یہ سب سوالات اہم ہیں۔ ان کا تعلق عالمگیر اخلاقی اقدار کے ساتھ بھی ہے۔ ایران میں جو قوانین بنے‘ ان پر اقوامِ متحدہ نے اعتراض بھی اٹھایا اور انہیں خواتین کے حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا یہ اعتراض ایک تہذیب کو معیار مان کر اٹھایا گیا ہے جو یہ تاثر دیتی ہے کہ اسے اب عالمگیر حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور سب کو چاہیے کہ وہ اس کے معیار پر اپنی تہذیب کو پرکھیں۔ کیا یہ مطالبہ درست ہے اورکیا اسے مان لینا چاہیے؟
یہ مطالبات ایک فہرست کا حصہ ہیں۔ اس میں سزائے موت کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ مطالبہ یہ ہے کہ چونکہ سزائے موت ہمارے تہذیبی پس منظر میں قابلِ قبول نہیں‘ اس لیے آپ بھی اس سزا کو ختم کریں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ یہ مطالبات درست ہیں یا غلط‘ سوال یہ ہے کہ کیا کسی قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسروں پر اپنی اخلاقی اقدار کو زبردستی نافذکرے؟ ان دو باتوں میں بڑا فرق ہے کہ کسی بات کو اس لیے قبول کیا جائے کہ آپ اس کو درست سمجھتے ہیں اور یہ کہ دوسرا بالجبر اسے آپ سے منوانا چاہتا ہے۔سر سید احمد خان کے ایک دوست نے انہیں خط لکھا کہ اس کا انگریز افسر اسے نماز پڑھنے سے روکتا ہے۔ وہ اب کیا کرے؟ سر سید کا جواب یہ تھا کہ ذاتی کوتاہی سے نماز کا رہ جانا ایک بات ہے اور کسی کے کہنے پر نماز چھوڑ دینا دوسری بات ہے۔ اگر کوئی نوکری اس شرط پر کرنا پڑے تو اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سر سید نے دوست کو مشورہ دیا کہ اسے نوکری چھوڑنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔
جو مسلمان غیر مسلم اکثریتی ملکوں میں رہتے ہیں‘ ان کے لیے یہ سوالات بہت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کا جو شہری برمنگھم میں رہتا ہے اس کے لیے تو یہ خبر خوش کن ہے کہ باحجاب عورتوں کی عزت و تکریم کے لیے آواز اٹھائی جا رہی مگر جب اسے ایران میں حجاب کے قوانین کا دفاع کرنا پڑتا ہے تو اسے مشکل پیش آتی ہے۔ مذہب اور تہذیبی تنوع اب ایک سماجی حقیقت ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بالجبر اپنی تہذیب کو عالمگیر قرار دے لیکن دوسری طرف جو عمل تاریخی جبر کے تحت آگے بڑھ رہاہے‘ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مسلمان اہلِ علم کو اُن سب سوالات پر غور کرنا ہے جن میں سے بعض اس کالم میں اٹھائے گئے ہیں۔ یہ محض نظری مسائل نہیں‘ عملی حقائق ہیں۔ غیر مسلم معاشرے میں رہنے والے مسلمان کو فرانس اور ایران کے اقدامات میں تطبیق تلاش کرنی ہے۔ اسے سیکولرازم کی کوئی تعریف طے کرنی ہے۔ مغرب میں رہنے والے اہلِ علم ان سوالات پر غور کر رہے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کو ان کے جواب فراہم کرنے ہیں جو ہمارے ہاں سے مغرب اور ترقی یافتہ دنیا میں جا آباد ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو اپنے تہذیبی تشخص کو غیراہم سمجھنے لگے ہیں اور کچھ مایوسی میں بچیوں کو قتل کر رہے ہیں یا انہیں پاکستان بھیج کر ان کی زبردستی شادیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران سمیت سب مسلم معاشروں کے مسائل یکساں ہیں۔ ان پر مل بیٹھ کر غور کرنا ہوگا۔