ووٹ کو عزت دو کابیانیہ موجود ہے۔یہ اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہی تھا جس کی وجہ سے2017ء کے بعد پاکستان مشکل حالات کا شکارہوا ہے۔ورلڈ ایکو کو دیے گئے انٹرویو میں سابق وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے راہ نما رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کردار،جمہوری اقدار، ووٹ کو عزت دو اور ایسے معاملات ساتھ ساتھ رہیں گے۔ہمارا یہ مؤقف اپنی جگہ پر قائم ہے۔ملک معاشی طور پر ڈوب رہاہو تو ذاتی بدلہ نہیں لے سکتے۔ پاکستان کی ترقی اور بہتری اولین ترجیح ہے۔ عام آدمی کی زندگی آسان کرنا ہماری جدوجہد کا محور ہے۔ نواز شریف پیچھے نہیں ہٹے، نہ ایسی کوئی صورت حال ہے کہ کوئی عملی قدم اٹھانا ہو۔ہر وقت ایک ہی بات کا ذکر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہرتقریر دو چار بندوں تک محدود ہو سکتی ہے۔
میاں نواز شریف بڑے راہ نما ہیں اور مسلم لیگ بڑی سیاسی جماعت ہے۔ نواز شریف کی تقریر اور مسلم لیگ کے 21 اکتوبر کے جلسے میں ملکی و قومی اہم معاملات پر بات ہوگی۔کوئی فرد اتنی اہمیت کا حامل نہیں کہ بڑے جلسوں میں اس کا ذکر کیا جائے۔ عمران خان کو گرانے کے لیے جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔بلکہ ہم نے ہنگامی صورت حال میں کسی بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے لیے وزیر اعظم کے اختیار کو ووٹ دیا۔اس وقت اس معاملے کو متنازعہ بناتے تو 9 مئی والی صورت حال سامنے آسکتی تھی۔ بہ طور ادارہ ہم فوج کو کمزور کرنے کے حق میں کبھی نہیں ہو سکتے ۔ادارے کی ہمیشہ عزت کی، افراد کاکردار زیر بحث لایاجاتا ہےاور ادارے کو نقصان پہنچانے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔
جنرل باجوہ کے اثاثوں سے متعلق خبر غلط تھی،اس لیے صحافی کے خلاف کارروائی کی۔ پاپا جونز کی انکوائری ٹھیک یا غلط اس حوالے سے کچھ نہیں کہ سکتا، اگر انکوائری کےبعد کوئی بات سامنے آئے تو ٹھیک ہے،ورنہ غلط بیانی کا چلن عام ہے ۔فواد چوہدری نے مسلم لیگ کی قیادت پر تین ہزار ارب روپے بیگ میں لے جانے کا الزام لگایا جو کہ غلط ثابت ہوا۔ ایسی کوئی بھی جھوٹی بات کی جائے گی تو ذمہ داروں کوقانون کے مطابق قیمت اداکرنی پڑے گی۔
21 ِ اکتوبر کو زیادہ کارکن لانے والوں کو موٹر سائیکل دینے کے سوال پر رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی کارکنوں کو ان کی خدمات کے صلے میں انعام دینا غلط بات نہیں۔ مو ٹر سائیکل یا پارٹی ٹکٹ دینے کو منفی نہیں لینا چاہیے۔ اس طرح کے اقدام سے کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ عام کارکن اگر محنت کرتا ہے تو اسے صلہ ملنا چاہیے۔ مینار پاکستان جلسے میں چار سے پانچ لاکھ تنظیمی کارکن شریک ہوں گے۔ عوام کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی۔