عام اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کے متعلق مولانا فضل الرحمن نے فلسطینی تنظیموں کو درست توجہ دلائی ہے اور امارات کی حکومت کی طرف سے بھی اس پر بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی اخلاقیات جنگ میں غیر مقاتلین کو براہ راست نشانہ بنانے کے عدم جواز کا اصول بہت واضح ہے۔ معروف عرب عالم علامہ یوسف القرضاویؒ کا موقف اس میں کچھ مختلف تھا۔ انھوں نے اس مفہوم کا فتوی دیا تھا کہ اسرائیل کے قضیے میں ان کے عام شہری بھی مقاتل کے حکم میں ہیں، کیونکہ اسرائیل جبری قبضے کے نتیجے میں قائم ہوا ہے اور اس قبضے کو قائم رکھنے میں عام اسرائیلی شہری بھی شریک ہیں، اس لیے مجبوری کی حالت میں ان کو بھی نشانہ بنانا قابل اعتراض نہیں۔ لیکن پھر بعد میں انھوں نے اس رائے میں ترمیم کر لی اور کہا کہ پہلے اہل فلسطین کے پاس ضروری ہتھیار اور جنگی تربیت نہیں تھی اور وہ حالت اضطرار تھی۔ اب جبکہ ان کے پاس ہتھیار بھی ہیں اور جنگی تربیت بھی ہے تو عام شہریوں کو نشانہ بنانا ان کے لیے جائز نہیں۔
میری ناقص رائے میں اس میں کچھ تنقیح کی ضرورت ہے۔ اگر عالم اسلام کا اجتماعی موقف اقوام متحدہ کے فیصلے میں طے کردہ حدود کے اندر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا اور اس کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون میں طے کی گئی حدود میں اسرائیل کی حیثیت قابض کی نہیں ہے۔ نتیجتاً ان علاقوں میں مقیم اسرائیلی شہری بھی قبضے میں معاون یا مقاتل نہیں ہیں۔ تاہم بین الاقوامی قانون کے مطابق جو علاقے اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کیے گئے اور اسرائیل نے ان میں جبر اور طاقت کے زور سے یہودی بستیاں قائم کر لی ہیں جن کی حیثیت قطعاً غیر قانونی ہے، کیا ان بسیتوں میں رہائش اختیار کرنے والے اسرائیلی بھی عام شہری ہیں؟
میرے خیال میں یہ قابل غور سوال ہے۔ وہ اس لحاظ سے تو بظاہر عام شہری ہیں کہ فوج کا حصہ نہیں اور فلسطینیوں کے خلاف جارحیت میں براہ راست شریک نہیں ہوتے، لیکن بہرحال وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جس علاقے میں انھیں آباد کیا گیا ہے، وہ اسرائیل کا نہیں ہے اور یہ کہ ان بستیوں کی آبادی کا مقصد ہی فلسطینی اراضی پر ناجائز قبضے کو تسلسل دینا ہے۔ ایسی صورت میں انھیں کلی طور پر عام شہری کہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس پر اہل علم کو غور کر کے کوئی متعین رائے دینی چاہیے۔