سیاسی طاقت کسی بھی تہذیبی یا مذہبی روایت کے، تاریخ میں تحفظ اور تسلسل کے لیے بنیادی شرط ہے۔ ہندو نیشنل ازم کے علمبردار احمق نہیں ہیں، وہ مسلمانوں سے زیادہ اس نکتے کے ادراک کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ نکتہ فراموش ہو جائے تو نہ جہاد کا مذہبی حکم قابل فہم رہتا ہے اور نہ مسلمانوں کی فتوحات کا تاریخی عمل۔ علامہ اقبالؒ جیسا عبقری بھی مسلمانوں کی توسیع سلطنت کو ایک نا پسندیدہ انحراف کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں یقیناً تلوار سے اسلام کی اشاعت نہیں ہوئی اور شاہان اسلام نے اس میں براہ راست کوئی خاص دلچسپی نہیں لی، لیکن جن صوفی مشائخ کا کردار اس میں نمایاں بتایا جاتا ہے، وہ سیاسی طاقت کے سایے میں ہی یہاں آئے تھے اور اسی سے انھیں کسی رکاوٹ کے بغیر پر امن ماحول میں دعوتِ اسلام کے مواقع میسر ہوئے تھے۔
سیاسی طاقت، تہذیب کی داخلی شیرازہ بندی میں بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ فکر و عمل کی مائل بہ مخاصمت صلاحیتوں کو یہی ایک رخ دیتی ہے اور یہی انھیں تہذیب کی تعمیر میں کارآمد بناتی ہے۔ اس کے زوال یا انتشار سے تہذیب کی داخلی قوتوں کا جو آملیٹ بنتا ہے، وہ ہم ہندوستان میں بچشم سر دیکھ سکتے ہیں۔ مذہبی روایت، اجتماعیت پیدا کرنے والی کسی بھی چھتری سے محروم ہونے کی وجہ سے، داخل میں برسرِ پیکار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں روایت اور تجدد، راسخ العقیدگی اور جدت پسندی وغیرہ کی فرقہ وارانہ بحثیں اسی کا مظہر ہیں۔ مستحکم سیاسی طاقت، مذہبی علماء کی اتھارٹی کے ساتھ ایک مثبت اور تعمیری تعلق قائم کر کے اس سے کام بھی لیتی ہے اور اس پر چیک بھی رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی طاقت کے زوال کے بعد مذہبی علماء براہ راست سیاسی طاقت کے میدان میں ایک فریق بن کر سامنے آئے ہیں جس سے اسلامی تاریخ میں ’’مذہبی سیاست’’ کا ایک منفرد ظاہرہ وجود میں آیا ہے۔
یوں سیاسی طاقت کی بحالی کے عمل کو دوہرا چیلنج درپیش ہے:
ایک یہ کہ سیاسی طاقت کے پرانے سانچے یعنی وسطی ایشیا اور افغانستان سے آئے ہوئے جنگجو قبیلوں کے اقتدار کے زوال کے بعد نیا سیاسی اسٹرکچر کیسے وجود میں لایا جائے جو طاقت میں شراکت کا کوئی پائیدار فارمولا وضع کر کے تہذیبی ذمہ داریاں بجا لانے کے قابل ہو۔
دوسرا یہ کہ مذہبی سیاست سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے جس کا وزن نئی صورت حال میں خود طاقت کی کشمکش میں حریف ہونے کی وجہ سے سیاسی استحکام کے پلڑے میں نہیں پڑ رہا، بلکہ اس کی بقا سیاسی عدم استحکام کے تسلسل کے ساتھ وابستہ ہے۔
تجدد اور روایت کی موجودہ بحثیں ازحد لایعنی اور مضحکہ خیز ہیں اور باہم جوتم پیزاری سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ جو مذہبی بیانیہ سیاسی طاقت کی بحالی اور استحکام میں معاون بنے گا اور سیاسی طاقت اور مذہبی اتھارٹی کے باہمی تعلق کا کوئی ایسا ماڈل پیش کر سکے گا جو مذہبی سیاست کا متبادل بن سکے، وہی اس "روایت” کو تشکیل دینے کے قابل ہو گا جو زمان ومکان کی موجودہ حدود میں تہذیب کی تعمیر میں کوئی مثبت کردار ادا کر سکے۔