مومنین کو اللہ تعالی نے قول سدید یعنی سیدھی اور سچی بات کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کسی کے ساتھ مخاصمت و دشمنی میں راہ اعتدال کو ترک نہیں کرنا چاہیئے۔عدت کے دوران نکاح کیس میں عدالتی فیصلے کے بعد ہمارے ہاں حسب سابق افراط و تفریط پر مبنی طرز عمل دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
1۔ عمران خان اور بشری بی بی نے جس انداز میں نکاح کیا تھا وہ بذات خود ایک غلط اور معیوب بات ہے۔ ہر عمل کو خالصتا قانونی نقطہ نظر سے دیکھنا درست بات نہیں ہے۔ قانون سے ہٹ کر معاشرے میں اخلاقی اقدار اور تہذیبی حیا کی کچھ باتیں ہوتی ہیں۔ کسی عام شخص کے لئے بھی یہ روا نہیں ہے کہ وہ شادی شدہ خاتون سے ایسے تعلقات قائم کرے جس کے نتیجے میں وہ طلاق لے کر اس شخص سے نکاح کر لے۔ ملک و قوم کے لیڈر کے لئے تو اس حوالے سے زیادہ کڑا معیار ہونا چاہیئے۔ یہ بحث تو سرے سے ہونی ہی نہیں چاہیئے کہ نکاح عدت کے دوران ہوا تھا یا اس کے بعد! بات تو یہاں سے شروع ہونے چاہیئے کہ کیا کوئی بھی با عزت معاشرہ اس قسم کے تعلقات اور کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے؟ ہم تو اس دین کے پیروکار ہیں جس نے منگنی اور نکاح کے پیغام کے اوپر کسی دوسرے کے منگنی اور نکاح کے پیغام کو بھی منع کیا ہے۔
2۔ عدت کے دوران نکاح باطل اور غلط ہے چاہے اس کا ارتکاب کوئی بھی شخص کرے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ شرعی احکامات کی روشنی میں پورے معاملے کو دیکھا جائے۔ یہ عجیب طرز عمل ہے کہ نکاح اور شادی کے سارے معاملات میں شریعت کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں اور ایک پہلو کو لے کر شریعت کے دقيق احکامات کو لاگو کرنے کی سعی کی جا رہی ہے! اس کیس میں بھی ہمارے معاشرے کی یہ عمومی دو رخی سامنے آ رہی ہے۔
۔ عدت کیا ہے، اس کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ کیا عدت نوے دنوں سے کم بھی ہو سکتی ہے اور اگر ہو سکتی ہے تو کتنی مدت ہوگی؟ کیا عمران خان اور بشری بی بی کا نکاح اس کم سے کم مدت کے دوران ہوا تھا یا اس کے بعد؟ اگر نکاح کم سے کم مدت کے دوران ہوا اور بعد ازاں کئے گئے تجدید نکاح کی کیا حیثیت ہے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ عدت کے دوران نکاح ہوا تھا تو تفریق لازمی ہے یا نہیں اور کیا تفریق کے بعد دوبارہ عدت گزارنے کی ضرورت ہے اور اس عدت کے بعد کیا یہ مرد و عورت دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں وغیرہ، یہ سب دقیق شرعی مسئلے ہیں جن کا جواب گہرے علم کے حامل علماء ہی دے سکتے ہیں۔ اس بارے میں کتنی آراء ہیں اور ہمارے ہاں مروجہ قانون کے ساتھ مطابقت کیسے پیدا ہوسکتی ہے، ان سب کے لئے اس ہجیانی کیفیت سے نکلنے کی ضرورت ہے جو اس وقت پیدا ہوچکی ہے۔
4۔ یہاں ایک اور بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ معاملہ محض مندرجہ بالا سوالات پر مشتمل substantive law کا نہیں ہے بلکہ اس میں procedural law کی بھی برابر اہمیت ہے کہ کہ عدت کے دوران نکاح کرنے کا مدعا کون اٹھا سکتا ہے، اس سلسلے میں اعتراض کس وقت تک معتبر ہوگا، اعتراض کرنے والے کی گواہی کا کتنا اعتبار کیا جائے گا وغیرہ۔ یہ سب سوالات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ قضا کے ڈومین میں شرعی حکم کے اطلاق کے لئے پروسیجر کو فالو نہ کیا جائے تو نفس مسئلہ اپنی جگہ بے شک قائم رہے مگر اس کی واقعاتی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔
5۔ ہمیں یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں ہے کہ اس وقت اس کیس کو تیزی سے عدالتی فیصلے کی صورت میں سامنے لانے کے سراسر سیاسی مقاصد ہیں۔ عمران خان صاحب کی سیاسی حکمت عملی کے ہم ہمیشہ ناقد رہے ہیں مگر شرعی احکامات کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرنا کسی طور پر درست نہیں ہے۔ ماضی میں جب صادق و امین کی اصطلاحات کو سیاسی جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا تو وہ بھی بالکل اسی طرح غلط تھا جیسا کہ آج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو پاور کی اس کشمکش میں وہ کام نہیں کرنے چاہئیں جس سے عوام کا دینی استعاروں اور شریعت کے ساتھ رومانس ختم ہوجائے اور ملک کے آئین و قانون میں جو چند symbolic اسلامی شقیں اور حوالہ جات باقی ہیں ان کو بھی سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی وجہ سے متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔