قسط نہم (آخری قسط)
سلسلہ ہٰذا کا اولین مضمون 5 اکتوبر 2023ء کو روزنامہ اسلام میں شائع ہوا، اگرچہ مابعد اشاعت ملکی سیاست میں کئی اہم پیش رفت ہو چکی ہیں، عام انتخابات ہو چکے ہیں اور ملک میں کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی، موجودہ سیاسی جوڑ توڑ کے تناظر میں تاریخ کے یہ اوراق انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، قاریین اور سیاسیات کے طلبہ کی دل چسپی کے لیے یہ مضمون سلسلہ وار افکار پر شائع کیا گیا، جس کی آخری قسط کچھ ترمیم و اضافہ کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے۔
مدیر افکار
تحریکِ عدم اعتماد کے دوران سی او پی اور حکومت نے اپنے اپنے ارکان مری اور سوات کے ہوٹلوں میں پہنچا دیے تھے، جہاں وقت گزارنے کے لیے انہیں”ہر طرح کی“ سہولت فراہم کی گئی۔ دونوں طرف سے وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے تمام حربے استعمال کیے گئے۔ پجارو گاڑیاں، نوٹوں سے بھرے بریف کیس، عزیز رشتہ داروں کے لیے ملازمتیں، اعلیٰ عہدے، قرضے، پرمٹوں اور پلاٹوں کی ترغیبات دی گئیں۔ گویا ہارس ٹریڈنگ کا بازار گرم ہو گیا تھا۔
ان دنوں یہ راز عام ہو چکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود اس تحریک کو ناکام بنوایا۔ اس کے لیے میاں نوازشریف کو یہ نکتہ سمجھایا گیا تھا کہ اگر یہ تحریک کامیاب ہو گئی تو قومی اسمبلی میں موجود غلام مصطفی جتوئی آیندہ وزیراعظم بنیں گے، آپ تو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں، آپ کو کیا ملے گا؟ میاں صاحب کے دل میں یہ بات گھر کر گئی اور انہوں نے مبینہ طور پر میاں غلام محمد احمد مانیکا اور احمد عالم انور کو مری سے نکلنے کا راستہ فراہم کیا، اس کے لیے جتوئی صاحب کے دیرینہ دوست ملک غلام مصطفی کھر بروئے کار آئے اور انہوں نے ان دونوں ارکان کو وزیراعظم محترمہ بے نظیر تک پہنچا دیا۔ تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کے تھوڑے دنوں بعد ہی مذکورہ دونوں ارکان اور اکبر لاسی کو وفاقی کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔
محترمہ نے بیان دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد حکومت مستحکم ہوئی ہے لیکن فیصلہ ساز تو کچھ اور ہی فیصلہ کرچکے تھے۔ ایوان صدر کے دروازے اپوزیشن رہنماؤں کے لیے کھل گئے اور صدرِ مملکت اُن سے ملاقاتوں میں مصروف ہو گئے۔ اپوزیشن پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہوئی، قومی اسمبلی کے اندر اور باہر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا، پی ٹی وی اسلام آباد کے باہر اپوزیشن رہنماوں نے مظاہرہ کیا، کراچی میں نوابزادہ کی تجویز پر ایم کیو ایم کی میزبانی میں متحدہ اپوزیشن کا ایک بڑا جلسہ کیا گیا، جلسے سے پہلے ایک بہت بڑی ریلی کا اہتمام کیا گیا، حکمران جماعت حتیٰ کہ وفاقی کابینہ کے اندر بھی انتشار پیدا کیا گیا، کابینہ اجلاسوں کے بعد لاہور سے تعلق رکھنے والے دو وفاقی وزراء کے درمیان دوڑ لگتی کہ کون پہلے لاہور جا کر اجلاس کی کارروائی بتاتا ہے۔
6 اگست 1990ء کو نوائے وقت راولپنڈی میں عارف نظامی صاحب کے نام سے شائع ہونے والی خبر میں بتایا گیا کہ آج اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور غلام مصطفی جتوئی نگران وزیراعظم بنائے جائیں گے۔ خبر میں متوقع صوبائی گورنروں اور وزراء اعلیٰ کے نام بھی دیے گئے تھے۔ دوپہر کو محترمہ نے اپنے اور صدر کے مشترکہ دوست ہیپی مینیوالا کو صدر کے پاس بھیجا تو صدر مملکت غلام اسحاق خان نے انہیں اطمینان دلایا کہ وہ آئین سے ماوراء کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ شام پانچ بجے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں صدر مملکت نے 58 (2) بی کے تحت وزیراعظم اور کابینہ کو برطرف کر کے قومی اسمبلی توڑنے، غلام مصطفی جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنانے اور 24 اکتوبر کو نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ آئین کے مطابق ہی تھا، نگران کابینہ میں دوسرے وزراء کے علاوہ ملک غلام مصطفی کھر بھی شامل تھے جو عدم اعتماد کی تحریک ناکام بنانے میں بہت پیش پیش تھے۔
اکتوبر 1990ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف صاحب کے راستے سے تمام رکاوٹیں ہٹا دی گئیں حتیٰ کہ سی او پی میں ان کے اتحادی نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا فضل الرحمن اور بیگم عابدہ حسین کو بھی اسمبلی سے باہر رکھا گیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے آئی جے آئی کے مقابلے میں تحریک استقلال، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور پاکستان مسلم لیگ (قاسم) کے ساتھ مل کر پی ڈی اے کا پلیٹ فارم تشکیل دیا لیکن اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں میاں نوازشریف صاحب کے آیندہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی گئی۔ ان دنوں حافظ حسین احمد صاحب کا ایک بیان آیا تھا کہ بلوچستان میں پی ڈی اے ہم تھے، یعنی جے یو آئی کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو پی ڈی اے کے ساتھ کیا گیا۔
قارئین کرام! اس کے بعد میاں نوازشریف صاحب بھی اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور1993ء میں دوبارہ انتخابات ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو پھر اقتدار دیا گیا لیکن 1996ء میں انہیں ان کے اپنے بنائے ہوئے صدر فاروق احمد خان لغاری کے ذریعے ہی اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ 1997ء کے انتخابات میں میاں نوازشریف صاحب کو دوسری باری اس شان سے دی گئی کہ وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیرِ اعظم بنے اور پھر 12 اکتوبر 1999ء ہو گیا۔ 2002ء کو پاکستان مسلم لیگ (ق) کو اقتدار میں شامل کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کئی جماعتوں سے توڑے گئے الیکٹیبلز کو جمع کرکے بنائی گئی اور حکومت بنانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان کو بھی توڑا گیا۔ پہلے میر ظفراللہ خان جمالی کو وزیراعظم بنایا گیا پھر شوکت عزیز کو لایا گیا، بیچ میں 45 دن کے لیے چودھری شجاعت حسین بھی پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ محترمہ کے قتل کے بعد میاں نواز شریف کو باہر رکھ کر 2008ء میں پھر پاکستان پیپلز پارٹی پر اقتدار کے دروازے کھولے گئے، پہلے سید یوسف رضا گیلانی، پھر راجا پرویز اشرف وزیراعظم بنے۔ 2013ء میں ایک بار پھر ”ہما“ میاں نوازشریف کے سر بٹھایا گیا لیکن ان کو بھی مدت پوری نہ کرنے دی گئی اور شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے۔ 2018ء میں ایک نیا بندوبست کر کے عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا۔ وہ بھی مدت پوری نہ کرسکے اور قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب کروا کر پی ڈی ایم کو حکومت دے کر میاں شہبازشریف کو وزیراعظم بنا دیا گیا، وزیراعظم شہبازشریف نے سولہ ماہ کے بعد مدت پوری ہونے پر اسمبلی توڑ دی۔ اب نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ [کامیابی کے ساتھ "شفاف” انتخابات کروا چکے ہیں، جن میں اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر میاں نواز شریف توقعات کے مطابق کامیابی نہیں دکھا پائے، تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان الاٹ نہ کیے جانے جیسے آخری حربے سمیت ماقبل انتخابات تمام تر بندوبست کے باوجود انتخابات کے نتائج کو بھی پراسرار طریقے سے جاری کرنا پڑا، اس وقت کی پسندیدہ ترین اور "نجات دہندہ” جماعت، پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کر پائی ہے۔ تمام تر سیاسی جماعتیں اس وقت نئی حکومت کے قیام کے لیے تگ و دو میں مشغول ہیں اور بظاہر کوئی واضح تصویر نہیں بن پا رہی ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔(مدیر)]
ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ ملک سے باہر رہنے کے بعد میاں نوازشریف [اکتوبر 2023 میں پاکستان واپس آ چکے ہیں] اور چوتھی بار ان کے وزیرِ اعظم بننے کا تاثر قائم کیا جارہا [تھا، جو اب ممکن نہیں رہا اور ان کی جگہ شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ جبکہ ابھی تک پیپلز پارٹی کےساتھ شراکتِ اقتدار کا فارمولا بھی طے نہیں ہو پایا۔ اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ پیپلز پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ بات چیت کی طرف بڑھے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ دوست مولانا فضل الرحمن بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف دمام دم مست قلندر کرنے والے ہیں۔(مدیر)] جبکہ نواز شریف کو ایک بار پھر نجات دہندہ بتا یا جارہا تھا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ہر بار نیا وزیراعظم لانے سے پہلے اسے نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا۔ لیکن 1947ء سے لے کر اب تک کسی وزیراعظم نے مدت پوری نہیں کی، سوائے نگرانوں کے۔ اور انور چراغ کو تو اب کی بار”نگرانی“ کے طول پکڑنے کا ڈر بھی [ڈر رہا ہے]۔
1990ء میں میاں صاحب کو لانا تھا تو محترمہ کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دی گئی۔ 1993ء میں محترمہ کو لانا تھا تو میاں صاحب کو لیول پلیئنگ فیلڈ سے محروم کیا گیا۔ پھر میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت دلانے کے لیے محترمہ کو بے بس کر دیا گیا۔ 2002ء میں ق لیگ کا وزیراعظم لانے کے لیے محترمہ اور میاں صاحب دونوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہ کی گئی۔ پھر 2008ء میں ق لیگ کے ساتھ یہی سلوک ہوا اور اقتدار پیپلزپارٹی کو دیا گیا۔ پھر اس طریقے سے میاں صاحب کو لایا گیا کہ زردای صاحب 2013ء کے الیکشن کو” آراوز“ کا الیکشن قرار دیتے رہے۔ 2018ء میں کپتان کو وزیراعظم بنوانے کے لیے تو پچھلی تمام کسریں نکال دی گئیں۔ میاں صاحب نااہل قرار دیے گئے، الیکٹیبلز اکھٹے کیے گئے، آر ٹی ایس بٹھا دیا گیا، پھر بھی کسر رہ گئی تو جہانگیر ترین صاحب کے جہاز نے اڑانیں بھریں۔
آج ایک بار پھر میاں صاحب کو لانے کی باتیں ہو رہی [تھیں] تو خان صاحب اور میاں صاحب کی اتحادی جماعتیں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہی [تھیں، جو کہ انہیں مہیا نہیں کی گئی، حتیٰ کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو انتخابات میں انتخابی نشان الاٹ کیا گیا نہ ہی ان کے امیدواروں کو جماعتی نام استعمال کرنے کی کھلی اجازت دی گئی، دھونس، دھمکی، گرفتاریاں، زدوکوب تک امیدواروں کو کیا گیا، لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواران نے نہ صرف سب سے زیادہ تعداد میں نشستیں اپنے نام کیں بلکہ ریکارڈ ووٹ بھی حاصل کیا۔ پاکستان کے عوام اس بارکیلنڈر کے ساتھ ساتھ تاریخ کا دھارا پلٹنے کی کوشش کرتے نظر آئے تو سہی لیکن وہی پرانے ہتھکنڈے مابعد انتخابات بھی جاری رکھے جا رہے ہیں۔ جس سے وہی برآمد ہونا ہے، جو ہر بار ہوتا آیا ہے۔(مدیر)]
تو قارئین کرام! یہ ہے وہ روداد جس کو پڑھ اور سن کر انور چراغ کی بات بالکل درست لگتی ہے کہ ہمارے ہاں کیلنڈر بدلتا ہے تاریخ نہیں!