عبداللہ غازیؔ ندوی
ہم اپنے اسفار میں ان بچوں کی تلاش میں بھی رہتے ہیں جن کو دیکھ کر مایوسیوں کے سیاہ بادل چھٹتے ہیں اور امید کی کرنیں فروزاں ہوتی ہیں۔کل ہم نے ایسے ہی بچوں سے ملاقات کی۔
نوابوں کے شہر حیدر آباد میں ہماری ملاقات محب گرامی مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی دہلوی کے گھر کے بچوں سے ہوئی،ان کی ہمشیرہ مدت سےیہیں مقیم ہیں۔ان کے شاہین صفت بچوں یعنی اجمل بھائی کے دو بھانجوں اور ایک بھانجی سے ہماری ملاقات ہوئی۔ان کی عمریں تیرہ چودہ سال کے درمیان ہیں،اس عمر میں ان کی خداداد صلاحیتوں اور بلا کی ذکاوت سے مجھے بے انتہا مسرت بھی ہوئی اور آخری درجے کی حیرت بھی۔
اجمل بھائی کی گہری نسبت سے ان کے تمام متعلقین ہمارے اپنے معلوم ہوتے ہیں، ان کے گھر کے بچے بھی ہمیں اپنے گھر کے بچوں کی طرح لگتے ہیں۔ان بچوں سے ملاقات کرکے ہمارا یقین مزید پختہ ہوا کہ گھر کی تربیت اسلامی ماحول میں ہو تو ہماری نسل ہر میدان میں ترقی کرسکتی ہے، اپنی فیلڈ میں کم عمری ہی میں نام کما سکتی ہے اور اپنے وجود کو اپنے عمل ،اپنی محنت اور اپنے بہترین کردار سے ثابت کرسکتی ہے۔
اجمل بھائی کے بڑے بھانجے محسن ہیں، ان کو صحافت سے دلچسپی ہے۔اس لیے وہ جرنلزم کا کورس کررہے ہیں،کم سنی ہی میں انھیں مطالعہ و تحقیق سے لگاؤ رہا ہے،اجمل بھائی نے ان سے کئی اہم موضوعات پر مضامین بھی لکھوائے اور انھوں نے اپنی عمر کے لحاظ سے بہت اچھے لکھے ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔
دوسرے حسن ہیں۔ خاموش مزاج ہیں۔ لیکن ان کی خاموشی میں بڑی گہرائی ہے، ان کے بارے میں پتہ چلا کے وہ ان خاموش لوگوں کی طرح ہیں جو کسی بھی مشن کا حصہ بنیں تو قیامت ڈھاتے ہیں اور تخریب کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیتے ہیں۔
ہماری ملاقات کے دوران میں ان کے سامنے کوئی بھی کتاب لائی جارہی تھی یا کسی بھی کتاب کا حوالہ دیا جارہا تھا تو وہ گویا بے قابو سے ہورہے تھے جیسے کسی تشنہ کام کو آب حیات سے سیراب کیا جارہا ہو ۔ ان کے لہجے میں ھل من مزید کا تقاضا برابر جاری تھا۔
اقبال کے اشعار انھیں دیکھ کر پڑھ رہا ہوں کہ
ہیں ابھی صد ہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں
وادی گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
پھر ان کی بہن مریم کا حال سنیے، وہ تو علم و عمل میں شاید اپنے پیارے بھائیوں سے بھی آگے ہیں، مجھے اب تک یقین نہیں آرہا ہے کہ وہ ایک ضخیم انگریزی ناول کی مصنفہ ہیں، مریم نے سیریا کے حالات کے پس منظر میں when the sky wrote back کے نام سے ایک ناول لکھا ہے، جس میں ایک جرنلسٹ خاتون کے کردار کو پیش کیا ہے۔ دہلی کی ایک پبلشنگ کمپنی نے اسے بڑے سلیقے اور پرکشش انداز میں شائع کیا ہے۔ اس کی تکمیل میں انھیں تین سال کی مدت لگی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اس نے نو یا دس سال کی عمر میں اس کام کا آغاز کیا ہوگا۔
ان سے ملاقات کے بعد ہمیں یہ احساس برابر ستا رہا ہے کہ اب تک ہم نے کاروان کے کم سن مصنفین کی تعریفوں کے پل باندھے تھے اور موقع موقع سے ان کی پذیرائی کی تھی، اب اس سے نکل کر ان بچوں سے مزید کام لینے کی ضرورت ہے اور ہندوستان بھر کے کم سن مصنفین کو تلاش کرکے ان سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
مریم کا قلم رواں ہے، وہ بھی آسمان علم کی رفعتوں میں ہر دم اور ہر آن رواں دواں ہیں، اب وہ فلسطین کے پس منظر میں ایک اور ناول لکھ رہی ہیں۔ انگریزی روزنامہThe Times of India میں بھی مریم کے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
جن باکمال اور باحمیت خواتین کی ٹیم تیار کرنا ادارہ ادب اطفال بھٹکل کے مقاصد بلکہ دستور میں شامل ہے بغیر کسی ملمع سازی کے یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کی زندہ تصویر مریم کی شکل میں ہمیں نظر آئی۔
آنکھ حیراں، روحِ اربابِ وفا بے تاب ہے
یہ ہمارے خواب کی تعبیر ہے یا خواب ہے
مولانا اجمل فاروق ندوی کے گھر کے بچوں کے لیے الگ سے تربیت اور تعلیم کا نظام نہیں ہے، ان کی تربیت کے لیے کوئی اتالیق یا استاد مقرر نہیں ہے اور نہ ہی ان کے علاقے میں تربیت کا کوئی منفرد طریقۂ کار ہے۔توفیق الہی کے بعد ان کے والدین کی توجہات اور ان کی ذاتی محنت نے ان بچوں کو اس کم سنی میں باوقار اور اپنے مشن کے لیے سنجیدہ بنایا ہے۔ ان کے چہروں پر عجیب سا نور تھا جس میں روشن مستقبل کے آثار نظر آرہے تھے۔
اللہ نظر بد سے بچائے اور ان شاہین بچوں کو بال و پر دے۔ آمین!
اکبرالہ آبادی نے کسی زمانے میں بالکل سچ کہا تھا کہ
ہجوم بلبل ہوا چمن میں کیا جو گل نے جمال پیدا
کمی نہیں قدرداں کی اکبر، کرے تو کوئی کمال پیدا
یہی بات نئی نسل اور نوجوانوں کو سمجھنے کی ہے۔