جنہیں لگ رہا ہے کہ ملک ریاض نے اصولوں پر مبنی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہ 23 نومبر 2023 کو بحریہ ٹاؤن کیس میں کیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بار ضرور پڑھ لیں۔
یہ فیصلہ کرنے والا بینچ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تھا۔ اس فیصلے کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جو دراصل بحریہ ٹاؤن اور سپریم کورٹ کے اس وقت کے سماعت کرنے والے بنچ کے درمیان ایک کمپرومائز تھا۔ اس فیصلے کی رو سے بحریہ ٹاؤن کو ضلع ملیر کے علاقے میں 16896 ایکڑ اراضی دی جانی تھی اور اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے سات سال کے دوران قسطوں میں 460 بلین روپے ادا کرنے تھے۔ یاد رہے کہ یہ کمپرومائز اس لیے ہوا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر اور نواحی علاقوں میں حکومتی زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس کے خلاف متعدد کیس اور درخواستیں عدالتوں میں التوا کا شکار تھیں۔ تخمینے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی قبضہ کی گئی زمینوں کی قیمت 460 بلین روپے سے کہیں زیادہ تھی مگر بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق اور نادیدہ وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی رضامندی سے 21 مارچ 2019 کو یہ حکم نامہ جاری کر دیا۔
14 دسمبر 2019 کو بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی کہ بحریہ ٹاؤن کو ملنے والی 16896 ایکڑ اراضی میں 5149 ایکڑ کی کمی ہے ،سو بحریہ ٹاؤن نے طے شدہ رقم کی اقساط کی ادائیگی کو روک دیا۔ باہمی ملی بھگت کو ملاحظہ کرنا ہو تو نوٹ کریں کہ اس درخواست کو یکے بعد دیگرے چیف جسٹس گلزار احمد اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلسل التوا میں رکھا اور اس کی سماعت 18 اکتوبر 2023 کو اس وقت ممکن ہو سکی جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اپنا عہدہ سنبھال چکے تھے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ ایڈووکیٹ بحریہ ٹاؤن کے وکیل کے طور پر سامنے آگئے۔
سماعت کے دوران عدالت میں سب سے پہلے یہ سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا واقعی بحریہ ٹاؤن کو ملنے والی زمین کم ہے؟ شواہد و حقائق کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن کی یہ بات بالکل جھوٹ اور لغو قرار پائی۔ سپریم کورٹ کے 8 نومبر 2023 کو جاری کردہ حکم کے مطابق ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اعلی انتظامی و تکنیکی افسران شامل تھے۔ اس کمیٹی نے سروے آف پاکستان کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کے قبضہ میں موجود زمینوں کا سائنٹفک سروے کیا۔ سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے پاس کل 19931.63 ایکڑ زمین موجود تھی جو 21 مارچ 2019 کے فیصلے میں متعین کردہ زمین سے 3035.63 ایکڑ زائد قرار پائی۔ اندازہ لگائیں کہ کم زمین دیے جانے کو بنیاد بنا کر بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ میں چار سال تک ایک درخواست دائر کیے رکھی جسے اس وقت کے چیف جسٹس صاحبان نے سماعت کے لیے مقرر نہ کر کے بحریہ ٹاؤن کو اقساط کی ادائیگی روکنے کا بھرپور موقع دیا۔ درحقیقت بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ زائد اراضی پر اس دوران قبضہ کر لیا تھا۔
بحریہ ٹاؤن کے جھوٹے دعوے کی قلعی جب سپریم کورٹ میں سروے آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں کھل گئی تو بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ ایڈووکیٹ نے عدالت سے اس رپورٹ پر اعتراضات دائر کرنے کے لیے مزید مہلت طلب کی۔ اندازہ لگائیں کہ چار سال قبل دائر کی گئی درخواست میں بحریہ ٹاؤن نے زمین کم ہونے کا دعوٰی کیا اور چار سال بعد جب یہ ثابت ہوگیا کہ بحریہ ٹاؤن نے ہزاروں ایکڑ زائد اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے تو اس کے وکیل کو مزید وقت حاصل کرنے کی فکر پڑ گئی۔ عدالت نے بحریہ ٹاؤن کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ متعلقہ شعبہ میں ملک کے سب سے مؤقر تکنیکی ادارے نے سائنٹفک انداز میں یہ سروے بحریہ ٹاؤن کے نمائندوں کی موجودگی میں کیا تھا۔ اس دوران بحریہ ٹاؤن کے ایک الاٹی نے عدالت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائی کہ 2019 کے سپریم کورٹ کے ساتھ کمپرومائز کے نتیجے میں جو حکم نامہ جاری ہوا تھا، اس سے قبل جمع کردہ ایک عدالتی دستاویز میں بحریہ ٹاؤن نے خود 16896 ایکڑ زمین پر قبضے اور اس کے ڈیویلپمنٹ پلان کو تسلیم کیا ہے۔ بعد ازاں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کیونکر زمین کم ہونے کا مدعا اٹھا سکتی ہے!
عدالت نے مزید وضاحت کی کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے زمین کی قیمت تو اپنے الاٹیز سے وصول کرنا تھی اور کسی بھی جگہ بحریہ ٹاؤن نے یہ نہیں کہا کہ اس کے الاٹیز نے اپنے ادائیگیاں روک دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے الاٹیز سے رقوم لے کر بحریہ ٹاؤن انتظامیہ عدالت کے ساتھ باہمی رضامندی سے طے کردہ اقساط ادا کرنے سے منکر ہو گئی۔
زمین کے بارے میں بحریہ ٹاؤن کے مؤقف کو غلط ثابت کرنے کے بعد عدالت نے دوسرے اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کی کہ شیڈول کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے مختلف اقساط کی مد میں اب تک کتنی رقم جمع کروائی ہے؟ 2019 کے عدالتی فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے 460 بلین روپے کی کل رقم 2.5 بلین روپے کی اڑتالیس ماہانہ اقساط میں ادا کرنا تھی اور اس ماہانہ قسط کا آغاز یکم ستمبر 2019 سے ہونا تھا۔ بقایا رقم چھتیس برابر ماہانہ اقساط کی صورت میں 4 فیصد سالانہ مارک اپ کے ساتھ ادا کرنا قرار پایا تھا جس کا آغاز یکم ستمبر 2023 سے ہونا تھا۔ یہ تمام اقساط بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے نیشنل بینک میں رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام پر قائم بینک اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھیں۔
عدالت نے جب ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ بحریہ ٹاؤن نے 2.5 بلین روپے کی ادائیگی آخری بار 31 اکتوبر 2019 کو کی تھی (یاد رہے کہ عدالت یہ ریکارڈ 2023 کے آخر میں چیک کر رہی تھی) اور اس کے بعد کچھ چھوٹی رقوم کی ادائیگی مختلف اوقات میں ہوئیں جو کل ملا کر 173849522 روپے بنتے تھے جو طے شدہ 2.5 بلین روپے کی ماہانہ قسط سے بھی کم بنتے تھے۔ اس کے بعد بحریہ ٹاؤن نے عدالتی حکم نامے کی مسلسل خلاف ورزی کی اور کوئی قسط ادا نہیں کی۔ اس سارے عرصے کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کا بھرپور تعاون بحریہ ٹاؤن کو حاصل رہا۔ سپریم کورٹ نے تخمینہ لگایا کہ طے شدہ شیڈول کے مطابق نومبر 2023 تک بحریہ ٹاؤن کو 166.25 بلین روپے ادا کرنے تھے (مارک اپ کو چھوڑ کر) مگر اس نے صرف 24 بلین روپے سے کچھ زائد رقم ادا کی۔ عدالتی حکم میں یہ واضح نہیں ہے کہ کل ادا شدہ رقم 24 بلین تک کیسے پہنچی کیونکہ جن رقوم کی ادائیگی کا فیصلے میں ذکر ملتا ہے وہ کم بنتی ہیں۔ عدالت نے اس صورتحال کو بحریہ ٹاؤن کا ڈیفالٹ ڈیکلئیر کرتے ہوئے یکمشت پوری رقم کو 2019 کے حکم نامے کے مطابق قابل ادائیگی قرار دیا۔
نیشنل بینک میں جو اکاؤنٹ رجسٹرار سپریم کے نام پر تھا اور اس میں بحریہ ٹاؤن نے اقساط جمع کروانی تھیں اس اکاؤنٹ کے حسابات کی تفصیل سے وہ بات بھی سامنے آگئی جس کا تذکرہ ملکی سیاست میں کافی عرصے سے جاری ہے۔ یہ وہی ایشو ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ملک ریاض اب اپنی انگلی کو لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ بینک کی طرف سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیلات کے مطابق دس غیر ملکی اکاؤنٹس سے بھی رقوم رجسٹرار سپریم کورٹ کے مذکورہ اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی تھیں۔ 136 ملین برطانوی پاؤنڈز اور 44 ملین امریکی ڈالرز جو اس وقت کے حساب سے تقریبا 35 بلین پاکستان روپے بنتے تھے، کی ادائگی غیر ملکی اکاؤنٹس سے کی گئی۔ گویا کہ بحریہ ٹاؤن نے جو 460 بلین روپے کی جو رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی تھی اس میں سے 35 بلین روپے بیرون ملک مختلف اکاؤنٹس سے وصول ہوئے۔ ریکارڈ کے مطابق ملک ریاض کی فیملی کے مختلف ممبران کے اکاؤنٹس سے یہ رقوم منتقل کی گئیں تھیں۔ سپریم کورٹ نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر غیر ملکی اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی ایک نامناسب بات تھی۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ وہ پیسہ ہے جو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے Proceeds of Crime Act 2002 کے تحت حاصل کیے گئے Account Freezing Order کی بنیاد پر منجمد کیا تھا اور جسے ریاض فیملی نے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ سے نکال کر واپس پاکستان لانا تھا۔
عدالت نے قرار دیا کہ بدقسمتی سے اس معاملے میں سپریم کورٹ کو غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا۔ یہ پیسہ جو غلط طریقے سے ملک ریاض فیملی پاکستان سے نکال کر لے گئی تھی اسے "جرم کی پونچی” قرار دیتے ہوئے برطانوی کرائم ایجنسی نے ایک معاہدے کے تحت واپس پاکستان لے جانے کو کہا۔ ظاہر یہ کہ اس جرم کا ایک بڑا حصہ یعنی جس طریقے سے یہ رقم پاکستان میں جمع کی گئی، اس پر ٹیکس وغیرہ کی عدم ادائیگی اور اس کی مشکوک و غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے باہر منتقلی وغیرہ، یہ سب کچھ تو پاکستان میں ہوا تھا۔ برطانیہ نے اس "گندے پیسے” کو اپنے سسٹم کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اس کو واپس پاکستان لے جائیں۔ اس سارے معاملے میں اس وقت کے حکومتی مشیر بیرسٹر شہزاد اکبر بھی شامل تھے کیونکہ وہ حکومت پاکستان کے قائم کردہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی طرف سے برطانوی حکومت کے ساتھ اس سارے معاملے کو ڈیل کر رہے تھے۔ جب یہ طے ہو گیا کہ یہ پیسہ اب پاکستان واپس آئے گا تو اس وقت کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف اس رقم کو بیرون ملک لے جانے وغیرہ کے بارے میں تحقیقات کرنے کے بجائے ان کے معاون وشریک کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آ چکی ہے کہ شہزاد اکبر نے اس وقت کی کابینہ کے سامنے ایک بند لفافے کو معاہدہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ سے منظوری حاصل کی کہ یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کروا دی جائے۔ گویا کہ اس پیسے کو حکومت پاکستان کا پیسہ سمجھنے کے بجائے ملک ریاض فیملی کا حق مان لیا گیا اور انہیں اسے سپریم کورٹ میں قابل ادا رقم میں ایڈجسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔
سپریم کورٹ نے اس بارے میں جو لکھا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ عدالت نے لکھا کہ:
Apparently, these monies were used to offset Bahria Town’s stated liability, bringing to mind the idiom – robbing Peter to pay Paul
یعنی جو بحریہ ٹاؤن کی ریاست کی طرف 460 بلین روپے ادا کرنے کی ذمہ داری تھی اس کو پورا کرنے کے لئے اس رقم کو استعمال کیا گیا حالانکہ یہ رقم حکومت پاکستان کا حق تھی۔ گویا کہ انگریزی محاورے کے مصداق پیٹر کو لوٹ کر پال کو ادائیگی کی گئی!
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم وفاقی حکومت کو منتقل کرنے اور اکاؤنٹ میں موجود باقی رقم حکومت سندھ کے حوالے کرنے کا حکم دے کر اس اکاؤنٹ کو بند کر دیا۔ اس کے بعد یہ طے چکا ہے کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے 2019 میں جو کمٹمنٹ سپریم کورٹ میں کی تھی اسے پورا کرنے میں یہ ناکام ہوگئی۔
اب آئیں اس سارے قضیے میں بعض اداروں اور افراد کے کردار کی طرف کہ انہوں نے بہتی گنگا میں کس طرح ہاتھ دھوئے۔ مگر اس سے پہلے ملک ریاض کے کلمہ حق کے بارے میں فیصلہ کر لیں کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ وہ 460 بلین روپے ادا کرنے میں ڈیفالٹ کر چکا ہے اور سپریم کورٹ بھی یہ بات حتمی طور پر طے کر چکی ہے تو ملک صاحب کو یاد آ گیا کہ ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات میں بالکل بھی شبہ نہیں ہے کہ ملک صاحب پر نادیدہ قوتوں کا دباؤ ہو گا کہ وہ سابق وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے بعض افراد کے خلاف بیان دیں مگر اس دباؤ کی بنیاد ایک جرم ہے – ایک واضح، کھلا اور بہت بڑا جرم! ملک صاحب جب آپ ہزاروں ایکڑ زمین ملی بھگت کے ساتھ ہڑپ کر جاتے ہیں اور عدالتوں میں کئے گئے معاہدوں کو روندتے ہیں تو پھر دو ہی صورتیں باقی بچتی ہیں۔ اول تو یہ کہ آپ کو قانون کا سامنا کرنا پڑے جو ہمارے ہاں بوجوہ ممکن نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ آپ کو اپنے سے بڑے کسی طاقتور کی آشیرباد حاصل ہو جائے۔ آپ اگر اس آشیرباد کے خواہاں ہیں تو پھر ان کی بات بھی مانیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ساری زندگی ان کی چاکری و نوکری کر کے کام نکالے اور اب چلے ہیں کلمہ حق بلند کرنے! ہاں البتہ ایک تیسرا اور اصولی راستہ بھی ہے کہ آپ کھل کر اپنے جرائم کا اعتراف کریں اور ممکنہ حد تک ان کی تلافی کر کے اعلان کر دیں کہ بہت ہو گیا اب میں ہاتھ کھڑے کرتا ہوں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلنے کی نہ تو آپ میں سکت ہے اور نہ ہی ارادہ!
آپ آ جائیں سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے مخصوص افراد کے کردار کی طرف۔ پی ٹی آئی کے انتہائی غالی یا انتہائی غبی حامیوں کو چھوڑ عمران خان کے معقول حامیوں کو بھی اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے خان صاحب سے غلطی ہوئی تھی۔ کیا یہ غلطی دانستہ ہے اور اس کا سرا القادر ٹرسٹ کو ملک ریاض کی طرف سے دیئے گئے عطیات سے ملتا یا نہیں؟ اس بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو فائدہ ملک ریاض کو دیا گیا اس کے مقابلے میں القادر ٹرسٹ والا معاملہ بہت معمولی اور چھوٹا ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ خان صاحب کے مصاحبین خاص میں سے کچھ لوگوں نے اس وقت کے طاقتور حلقوں کے ساتھ مل کر ملک ریاض کے ساتھ اس معاملے میں پس پردہ اصل ڈیل کٹ کی ہو جس کا نتیجہ کابینہ کے ملفوف فیصلے کی صورت میں برآمد ہوا۔ اگر آپ خان صاحب کو بہت زیادہ مارجن دینا چاہتے ہیں تو اس تھیوری کو اختیار کر کے انہیں کرپٹ قرار دینے کے بجائے نالائق -کم از کم اس معاملے – قرار دیں لیں۔ یہ چوائس ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ ملک صاحب سچ بولنے پر آمادہ ہو جائیں تو یہ بتا دیں کہ انہوں نے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے مختلف کرداروں کو کتنا حصہ دیا۔
آخر میں کچھ باتیں اس پورے کیس میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں بھی دل تھام کر سن لیں۔ 21 مارچ 2019 کا آرڈر سپریم کورٹ کے جس بنچ نے دیا وہ جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تھا۔ اسی بنچ نے بحریہ ٹاؤن کی طرف سے 460 بلین روپے کی آفر کو قبول کرتے ہوئے ان شرائط کی حتمی منظوری دی تھی جنہیں عدالت کے آرڈر میں نقل بھی کیا گیا۔ ان شرائط میں واضح کیا گیا کہ ڈاؤن پے منٹ یا دو اقساط کی یکے بعد دیگرے عدم ادائیگی یا پھر کل تین اقساط کی عدم ادائیگی کو بحریہ ٹاؤن کی طرف سے ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا۔ بحریہ ٹاؤن کو بروقت رقم ادا کرنے پر پابند بنانے کے لیے سکیورٹی کا ذکر بھی آرڈر میں ہے جس میں بحریہ ٹاؤن کی بہت سے جائیدادوں بشمول تھیم پارک، فاطمہ جناح یونیورسٹی، رفیع کرکٹ اسٹیڈیم، اسکولز اور ہیڈ آفس پر محیط ایک لمبی فہرست جمع کروائی گئی۔ ان شرائط کی تکمیل کے لیے ملک ریاض، احمد علی ریاض، بینا ریاض اور زین ملک کو ذاتی گارنٹی جمع کروانے کا پابند بھی کیا گیا۔ اس آرڈر کے آخر میں نیب کو اس معاملے میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے خلاف کاروائی سے اس وقت تک روک دیا گیا جب تک بحریہ ٹاؤن مذکورہ شرائط کے مطابق ادائیگیاں کرتی رہے گی۔ بحریہ ٹاؤن کے ڈیفالٹ کرنے کی صورت میں نیب کو فوری طور پر ریفرنس دائر کرنے کی اجازت ہوگی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اسی معاملے بعض متفرق درخواستوں کی سماعت 29 جون 2020 کو جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ نے کی۔ ان درخواستوں کے ذریعے جو سوال اس بنچ کے سامنے آیا وہ یہ تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے اس وقت تک جو اقساط جمع کروائیں تھیں، اس جمع شدہ رقم کو کیسے استعمال میں لایا جائے؟ عدالت نے اس سماعت کا آرڈر 20 اکتوبر 2020 کو جاری کیا۔ اس آرڈر کے پیراگراف 2 کے مطابق سماعت کی تاریخ یعنی 29 جون 2020 تک بحریہ ٹاؤن نے 52694270554 روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائے تھے۔ ذرا غور کریں کہ 23 نومبر 2023 کے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے میں یہ بات صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے آخری ماہانہ قسط 31 اکتوبر 2019 کو جمع کروائی اور اس کے بعد چند چھوٹی رقوم جمع ہوئیں جو ایک مکمل قسط سے بھی کم تھیں۔ یعنی نومبر 2019 سے لے کر جون 2020 تک بحریہ ٹاؤن کم از کم آٹھ مکمل اقساط کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کر چکا تھا جس کا سرے سے کوئی ذکر 20 اکتوبر 2020 کے جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے آرڈر میں ملتا ہی نہیں۔ یاد رہے کہ بحریہ ٹاؤن انتظامیہ 14 دسمبر 2019 کو سپریم کورٹ میں زمین کم ہونے کے بارے میں درخواست ڈال چکی تھی اور اس کے ساتھ ہی اقساط کی ادائیگی بھی یکطرفہ طور پر روک دی گئی تھی مگر اس بنچ نے حیران کن طور پر ڈیفالٹ اور التوا میں پڑی درخواست جو اس سارے معاملے میں بنیادی ایشو تھا کا ذکر تک نہیں کیا۔
اس کے برعکس ان تین جج صاحبان نے اس آرڈر میں تفصیل کے ساتھ (آرڈر کے ساتھ ایک ضمیمہ بھی منسلک کیا گیا) لکھا کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع ہونے والی اس خطیر رقم کو خرچ کرنے کے لیے ایک ہائی پروفائل (بلیو ربن کی اصطلاح استعمال کی گئی) کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ایسے ریٹائرڈ جج کے پاس ہوگی جو مستقل طور پر سندھ کے رہائشی ہوں۔ اس کمیشن کے دیگر ووٹنگ اور نان ووٹنگ ممبر بھی مقرر کیے گئے۔ یہ کمیشن سالہا سال تک اس سارے معاملے کو دیکھے گا اور اس رقم کو خرچ کرنے کی اجازت پراجیکٹس کی صورت میں دیتا رہے گا۔ آرڈر میں مزید یہ بھی کیا گیا کہ کمیشن اپنی پہلی میٹنگ 25 جنوری 2021 یا اس سے قبل منعقد کرے گا۔ یعنی یہ آرڈر 20 اکتوبر 2020 کو جاری کیا گیا۔ اس کی رو سے سپریم کورٹ کے ایک سندھ کے رہائشی ریٹائرڈ جج جسے سپریم کورٹ ہی نے مقرر کرنا تھا کو کمیشن کا سربراہ بنایا گیا اور پھر 4 نومبر 2020 کو جسٹس فیصل عرب ریٹائر ہو گئے جو اتفاق سے سندھ کے مستقل رہائشی بھی تھے!
باقی کی کہانی اور لنک آپ خود جوڑ سکتے ہیں!
بحریہ ٹاؤن کیس کو سپریم کورٹ کے ان معزز جج صاحبان نے جس انداز میں چلایا اور جس طرف یہ اسے لے کر جانا چاہتے تھے اس بارے میں اگر کبھی آزادانہ تحقیقات ہوئیں تو بہت کچھ کھل کر سامنے آئے گا۔ بحریہ ٹاؤن کے واضح اور کھلے ڈیفالٹ کے باوجود اس کی درخواستوں کو سالوں تک التوا میں رکھنا اور اس دوران ریٹائرڈ جج صاحبان کے لیے کمیشن کی سربراہی کو عدالت کی پٹاری سے سانپ کی طرح نکال کر لے آنا ہماری عدالتی تاریخ کے افسوسناک ترین مراحل میں سے ایک ہے۔بدقسمتی سے اس بارے میں نہ تو ہمارے ہاں زیادہ جانکاری ہے اور نہ ہی کھل کر بات کی جاتی ہے۔ مفادات کے اس ننگے کھیل میں کس نے کیا کمایا اور کسے بلیک میل کیا، بحریہ ٹاؤن کیس کی کل کہانی بس اتنی سی ہی ہے!
آخر میں چند باتیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ کے آرڈر کے بارے میں بیان کرنی ضروری ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بنچ نے پہلے سے جاری جمود کو توڑ کر مفادات کے کھیل پر ایک کاری ضرب لگائی اور ریٹائرڈ جج صاحبان کے بنچ میں بیٹھ کر بعد از ریٹائرمنٹ نوکری تراشنے کے فن پر بھی لات مار دی مگر ہمارے خیال میں اس آرڈر میں مزید صراحت کے ساتھ 21 مارچ 2019 کے فیصلے کے مضمرات پر بات کرنے کی ضرورت تھی۔ بحریہ ٹاؤن کے ڈیفالٹ، طویل عرصے تک درخواستوں کے التوا کے ذریعے بحریہ ٹاؤن کی معاونت، غیر ملکی رقم کی سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں ترسیل کے کرداروں کا تعین اور معاہدے کی رو سے سکیورٹی و ذاتی گارنٹی وغیرہ کے بارے میں عدالت ایک قدم آگے بڑھا کر زیادہ صراحت سے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ صادر کر سکتی تھی۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔