بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں نے صوبے میں جاری مسائل کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ وزیراعظم کی قیادت میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس اور فوجی قیادت کے ساتھ مل کر امن بحالی کے عزم کا اعادہ، ایک مثبت قدم ہے، لیکن یہ ایک دیرینہ مسئلے کا مختصر حل پیش کرتا ہے۔ بلوچستان میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے بنیادی مسائل کی گہرائی میں جا کر تجزیہ ضروری ہے۔
ماضی میں بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے کئی حکومتی اقدامات کیے گئے۔ وفاقی حکومت نے خصوصی ترقیاتی پیکیجز کا اعلان کیا، بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، اور سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی میں اضافہ کیا۔ تاہم، ان کوششوں کی ناکامی کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں:
معاشی ترقی کی عدم تکمیل: بڑی تعداد میں ترقیاتی منصوبوں کے باوجود، بلوچستان میں بنیادی انفرااسٹرکچر، صحت، اور تعلیم کی صورتحال میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔ بجٹ کے فنڈز کی ہڑپ اور بدانتظامی نے ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کو متاثر کیا۔
سیاسی عدم استحکام: صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان کشیدگی نے ترقیاتی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ سیاسی عدم استحکام نے مقامی حکومتوں کو کمزور کیا اور ترقیاتی کوششوں کو متاثر کیا۔
سیکیورٹی کی ناکام حکمت عملی: سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی اور عسکریت پسندی کے خلاف کارروائیاں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی کی کمی نے سیکیورٹی کی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنایا۔
حال ہی میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد وزیراعظم نے بلوچستان میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلایا اور وہاں کی سیکیورٹی صورتحال پر غور کیا۔ انہوں نے صوبے میں امن و امان کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا، اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی پولیس چیف کی تبدیلی بھی کی گئی۔ لیکن یہ اقدامات ایک عارضی حل ہیں اور ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں بنیادی ڈھانچے، صحت، اور تعلیم کی بہتری کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جائیں۔ مقامی سطح پر چھوٹے اور متوسط درجے کے منصوبے شروع کر کے اقتصادی مواقع فراہم کیے جائیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے درمیان بہتر روابط اور شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔ سیاسی مذاکرات اور شراکت داری کے ذریعے بلوچ عوام کی شکایات اور مطالبات کو سنجیدہ لیا جائے۔
سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی میں بہتر ہم آہنگی اور انٹیلیجنس شیئرنگ کو یقینی بنایا جائے۔ عسکریت پسندی کے خلاف مؤثر کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔ بلوچ عوام کے ساتھ مخلصانہ سیاسی رابطے قائم کیے جائیں اور جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جائے۔ عوامی نمائندوں اور مقامی رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
پرامن اور غیر متشدد اقدامات کے ذریعے بلوچستان میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کے خلاف مکالمے اور مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مقامی عوام کی ثقافتی اور سماجی شناخت کا احترام کیا جائے۔
بلوچستان میں دیرپا امن کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے جامع اور پائیدار اقدامات اٹھائیں جو صوبے کے بنیادی مسائل کو حل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی شمولیت اور سیاسی شراکت داری کو فروغ دے کر بلوچستان کے مستقبل کو روشن بنایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی اور عوام کی محرومیوں کو دور کیے بغیر کوئی بھی سیکیورٹی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ادارتی نوٹ