تحریر: ایڈووکیٹ طاہر چوہدری
توہین مذہب کے کیسز میں چھوٹی عدالتیں اپنے اوپر بوجھ نہیں لیتیں۔ جج صاحبان کو پتہ بھی ہو کہ مقدمہ جھوٹا ہے وہ دباؤ کی وجہ سے ملزم کو ریلیف نہیں دیتے کہ معاملہ حساس ہوتا ہے اور چھوٹی عدالتوں میں ملزم کو ریلیف دینے کی صورت میں جج صاحبان کو اپنی جان کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے۔
لاہور کی بات کروں تو یہاں ملزم کی پیروی کرنے والے وکیلوں کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ دو ہفتے پہلے ایک مقدمہ میں میں نے جج صاحب کو کہا جج صاحب کٹہرے میں کھڑے یہ لوگ ابھی ملزم ہیں۔ ان پر جرم ثابت نہیں ہوا۔ کیا انہیں اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں؟ جج صاحب بولے بالکل ہے۔ میں نے کہا اگر ہے تو پھر انہیں دباؤ کے بغیر فیئر ٹرائل کا حق ملنا چاہیے۔ آپ کے سامنے کمرہ عدالت میں ایک مخصوص تنظیم کے وکیل صاحب انہیں گالیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے ان ملزمان کی پیروی کرنے والے ہم وکلا کو قتل کی دھمکی دی۔ اگر ان لوگوں کو پھانسی ہی لگانا اس تنظیم اور اس سے جڑے لوگوں کا مقصد ہے تو پھر یہ سارا ٹرائل وغیرہ کا معاملہ کیوں۔ سیدھی سزا سنائیں۔ اور ہمیں بھی کہیں کہ اپنے وکالت نامے واپس لے لیں۔ جج صاحب انجان بن گئے کہ آپ کو کس نے دھمکی دی اور کب؟ جج صاحب کو بتایا۔ شکر ہے ساتھ کھڑے سرکاری وکیل صاحب نے بھی اس کی تائید کی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے فلاں وکیل صاحب یہاں ایسا کہہ کر گئے ہیں۔ درحقیقت جج صاحب کو سب کچھ پتہ تھا جو کچھ دیر پہلے کمرہ عدالت میں ہوا تھا۔ انہوں نے خود اپنے کانوں سے سب کچھ سنا تھا لیکن انہوں نے اسے جان بوجھ کر اگنور کر دیا۔ کہ دھمکیاں دینے والے وکیل صاحب ایک مخصوص پریشر گروپ تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ جج صاحب نے انہیں نہیں روکا۔ بلکہ دھیان فائل پر ہی رکھا۔
مجھے جس کیس میں یہ دھمکیاں دی گئیں اس میں 3 اور ملزمان بھی ہیں جن کی 3 دوسرے وکیل نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ دھمکیاں کمرہ عدالت میں کھلے عام انہیں بھی دی گئیں۔ وہ تینوں وکیل صاحبان بھی اس کی تائید کریں گے۔
دھمکیاں دینے والے وکیل صاحب کمرہ عدالت میں منہ سے کف اڑا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا ابھی کسی کا گلہ دبا کر مار دیں گے۔
یہ وکیل صاحب اسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے پچھلے دنوں ایف آئی اے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بلاسفیمی بزنس چلایا جا رہا ہے۔ کسی پر الزام لگاؤ اور اسے لمبے عرصے کیلئے جیل میں پھینکوا دو۔ پنجاب کی جیلوں میں اس وقت توہین مذہب کے سیکڑوں ملزم موجود ہیں۔ حیران کن طور پر کئی کئی کیسز میں مدعی ایک ہی بندہ۔ باقاعدہ منصوبہ بندی سے نوجوانوں کو ٹریپ کر کے ان پر کیس بنوائے جا رہے ہیں۔ طریقہ کار بھی ایک ہی۔ اس سلسلے میں صحافی احمد نورانی کی حالیہ اسٹوری اور ایف آئی اے کی رپورٹ لازمی پڑھنی چاہیے۔
ایک دن اپنے ایک مقدمے کی پیروی کے دوران میں کمرہ عدالت میں موجود تھا۔ ملزمان کے کٹہرے سے کسی نے ہلکے سے آواز دے کر بلایا۔ پاس گیا تو بولا آپ طاہر صاحب ہیں نہ؟ میں نے بتایا جی۔ بولا میں آپ کو جانتا ہوں۔ آپ کو پڑھتا رہا ہوں۔ میں توہین مذہب کے کیس میں گرفتار ہوں۔ جج صاحب ایک اور ضمانت کا کیس سننے میں مصروف تھے۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے اس نوجوان سے کچھ معلومات لیں۔ کہانی تقریبا وہی جو احمد نورانی کی اسٹوری اور ایف آئی اے کی رپورٹ میں بتائی گئی۔ میں نے نوجوان سے اس کی ڈیٹیلز لیں۔ گھر آ کر اس کی وال وغیرہ سرچ کی۔ وہ ایک شاندار پڑھا لکھا نوجوان۔ “ہم سب” پر اس کی تحریریں بھی موجود ہیں۔ میں نے شرافت رانا صاحب اور ایک دو اور لوگوں کو انباکس اس نوجوان کے بارے بتایا اور ریکویسٹ کی آپ اس موضوع پر لکھیں کہ سوشل میڈیا صارفین بلاسفیمی بزنس کے گروپ سے بچیں۔ وہ نوجوانوں کو ٹریپ کر کے انہیں پھنساتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے لڑکیوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی کیسز میں شکار سے پیسے بٹور کر اس کا “جرم” معاف کر دیا جاتا ہے جبکہ کئی کیسز میں اس پر ایف آئی آر۔ تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے لوگ بھی اس تنظیم کے پریشر میں اور ملی بھگت موجود۔ کچھ لوگوں کے مطابق انہیں بھی حصہ پہنچتا ہے۔
پچھلے دنوں رحیم یار خان کے ایک وکیل کا توہین کا کیس رپورٹ ہوا۔ یہ کیس لاہور بھیجا گیا ہے۔ میں اس وقت ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور بلڈنگ میں موجود تھا۔ کمرے میں تین تفتیشی حضرات موجود تھے۔ وہ اس پر بحث کر رہے تھے کہ ملزم وکیل پر توہین مذہب کی کون سی دفعات لگتی ہیں؟ میں بھی گفتگو میں شریک ہوا۔ میں نے بتایا کہ وہ وکیل صاحب قرآن پاک کی تشریح کر رہے تھے۔ کئی مفسرین نے قرآن پاک کی اپنے اپنے طور پر مختلف تشریح و تعبیر پیش کی ہے۔ کسی ایک ہی آیت کی ایک مفسر کے نزدیک اور معنی و مفہوم ہے اور کسی دوسرے کے نزدیک مختلف۔ وکیل صاحب کے کیس پر اس نظر سے بھی سوچیں۔ کہیں بہت سارے مفسرین بھی توہین کے ملزم تو نہیں تھے۔ انہیں یہ بھی بتایا کہ جو بھی ہے یہ 295 سی کا کیس بالکل نہیں بنتا۔ وہاں ہونے والی ڈسکشن سے میری حیرانی دوچند ہوئی کہ یہ کیسے تفتیشی حضرات ہیں جو تقریبا ان پڑھ لوگوں کے برابر اور ہر کیس میں وہی روایتی اپروچ۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں سے گزارش ہے کہ بہت محتاط رہیں۔ پاکستان میں بلاسفیمی بزنس ایک حقیقت ہے۔ میں اس کا عینی شاہد ہوں۔ احمد نورانی کی رپورٹ اور ایف آئی اے کا خفیہ مراسلہ درست اور سچائی پر مبنی ہے۔ توہین روکنے کے نام پر بننے والی تنظیمیں اور وکیل دنوں میں امیر ہوئے ہیں۔ ان کا پس منظر انتہائی پسماندہ لیکن اس بزنس میں آنے کے بعد ان کے حالات بہت جلد تبدیل ہوئے ہیں۔
کسی بھی سوشل میڈیا گروپ وغیرہ میں توہین پر مبنی کوئی مواد ہو تو اسے کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔ کوئی اگر ایسا کہے بھی کہ مجھے بھجواو میں دیکھتا ہوں یا میں اس کو رپورٹ کرتا ہوں وہ لنک اسے نہ بھیجیں کہ انجانے میں آپ توہین پر مبنی مواد کو آگے شیئر کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اپنا خیال رکھیں۔ اپنے بچوں کا خیال رکھیں۔ جھوٹا الزام بھی لگا تو ایک عرصہ جیل بھگتنا پڑے گی اور عدالت کے فیصلہ سنانے سے پہلے ہی ہجوم کے ہاتھوں سزا کے امکانات بھی۔
یہ مضمون چند روز پہلے مدرسہ ڈسکورسز کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے۔