ایران نے امریکا کی جانب سے الاخوان المسلمین جماعت کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے آئندہ فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس موقف کے نتیجے میں الاخوان کا سیاسی ، نظریاتی اور تاریخی طور پر ولایت فقیہ کے نظام کے ساتھ تعلق عیاں ہوتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی پاسداران انقلاب کے بعد اب الاخوان المسلمین کو عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم کا درجہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ "امریکا ایسی پوزیشن میں نہیں کہ وہ دوسروں کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا شروع کر دے۔ اس حوالے سے ہم امریکا کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں”۔
الاخوان المسلمین ایران میں اسلام پسندوں کے ساتھ گزشتہ صدی کی 50 کی دہائی سے مربوط ہے جب الاخوان کے رہ نما سید قطب اور خمینی کے مقرب نواب صفوی کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ صفوی "فدائیان اسلام” تنظیم کا بانی تھا۔
اس سے قبل ہدی الصالح نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کے لیے اپنی تحقیق میں انکشاف کیا تھا کہ الاخوان المسلمین کی سرکاری ویب سائٹ پر دونوں تنظیموں کے رہ نماؤں کے اکٹھا ہونے کی تصویر موجود ہے۔ یہ تنظیمیں خلافت اور امامت کے حوالے سے اختلاف رکھنے کے باوجود سیاسی مقاصد کے لیے ایک ہو گئی تھیں۔
نواب صفوی جس کا اصل نام مجتبی میرلوحی تھا ، وہ ایران کے شہر قم میں واقع شیعہ علمی مرکز میں ایک مذہبی شخصیت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس نے شیعہ بنیاد پرستوں کو دیگر اسلامی بنیاد پرستوں کے ساتھ مربوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایرانی محقق مہدی خلجی کا کہنا ہے کہ سید قطب نے 1954 میں نواب صفوی کو دعوت دی۔ اس پر صفوی نے الاخوان کی قیادت سے ملاقات کے لیے اردن اور مصر کا سفر کیا۔ اس موقع پر پہلی مرتبہ ایرانی مذہبی شخصیت نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنی توجہ کا اظہار کیا۔
صفوی 1946 میں ایرانی مؤرخ احمد کسروی کو ہلاک کرنے کی کارروائی کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ کسروی پر منحرف ہونے اور گمراہ کن کتب شائع کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
نواب صفوی کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ تاہم عوام اور مظاہرین کے دباؤ پر شاہ ایران کی حکومت نے اسے رہا کر دیا۔ بعد ازاں صفوی شاہ ایران کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شریک رہا۔ وہ لوگوں کے بیچ پورے جوش اور بنیاد پرستی کے نعروں کے ساتھ تقریر کرتا تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ پھر سے گرفتار ہوا اور شاہ ایران کے خلاف سرگرمیوں میں شرکت کے باعث کئی مرتبہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا گیا۔
اس کے بعد صفوی نے اپنی تنظیم "فدائيان اسلام” کے ذریعے ایرانی سیاست دانوں اور دیگر شخصیات کو موت کی نیند سلایا۔ ان کارروائیوں میں 1955 میں وزیراعظم حسین علاء کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش شامل تھی۔ صفوی کو 1956 میں سزائے موت دے دی گئی۔
ایران کے موجودہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مطابق وہ مشہد شہر میں نواب صفوی سے ملاقات کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں دل چسپی لینے لگے۔
یہ بات معروف ہے کہ خامنہ ای نے "سيد قطب” کی تفسیر قرآن اور دیگر کتابوں کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔
مصر میں الاخوان المسلمین تنظیم نے سب سے پہلے 1979 میں ایرانی انقلاب کا خیر مقدم کیا۔ وہ خمینی کے ہاتھوں اسلامی جمہوریہ کے نظام کی تشکیل کی شدید حامی تھی۔
الاخوان المسلمین کے ایک رہ نما یوسف ندی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ خمینی کی پیرس میں جلا وطنی کے دوران الاخوان نے خمینی سے ملاقات اور سپورٹ کے لیے ایک وفد تشکیل دیا تھا۔ ایرانی انقلاب کے بعد خمینی کے طیارے کی آمد کے بعد جو تیسرا طیارہ ایران کی سرزمین پر اترا وہ الاخوان کے وفد کا طیارہ تھا جو خمینی کو مبارک باد دینے کے واسطے ایران آیا۔
ایرانی محقق مہدی خلجی کے مطابق ایرانی انقلاب نے الاخوان المسلمین کو اعتماد اور حوصلہ دیا تھا کہ وہ بھی اپنے ملک میں سیکولر نظام حکومت کا تختہ الٹنے پر قادر ہیں جیسا کہ ایرانیوں نے شاہ کے خلاف کیا تھا۔ تاہم ایک اسلام پسند شدت پسند کی جانب سے 1981 میں مصری صدر انور سادات کو ہلاک کیے جانے کے بعد الاخوان تنظیم اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے کم از کم اعلانیہ طور پر محتاط موقف اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی۔
الاخوان تنظیم نے مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ الاخوان کا موقف تھا کہ بدعنوان حکمرانوں اور مغرب کے خلاف "جہاد” کی خاطر یک جہتی ضروری ہے۔
اسی طرح مصر میں صدارتی انتخابات میں محمد مرسی کی جیت کے بعد ایران اولین مبارک باد دینے والوں میں تھا۔ اس موقع پر ایران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں مرسی کی تعریفیں کی گئیں اور مصر کے قریب آنے پر زور دیا گیا۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے فروری 2012 میں قاہرہ کا دورہ کیا۔ یہ ایرانی انقلاب کے بعد کسی بھی ایرانی صدر کا مصر کا پہلا دورہ تھا۔
مرسی حکومت کے سقوط کے بعد ایران الاخوان تنظیم اور اس کے جلا وطن بالخصوص ترکی، قطر اور دیگر ممالک میں موجود ارکان کے ساتھ رابطوں میں ہے۔
جولائی 2017 میں ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر آیت اللہ محسن اراکی نے مصر میں الاخوان المسلمین تنظیم کے نائب سربراہ ابراہیم منیر اور ایک اہم رکن جمال بدوی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شیعہ اور سنی مذہبی مراکز کے درمیان علمی تعاون کو ترقی دینے پر زور دیا گیا۔
اس ملاقات کے نتیجے میں شام میں الاخوان المسلمین تنظیم چراغ پا ہو گئی۔ تنظیم نے ابراہیم منیر کی محسن اراکی سے ملاقات اور لندن میں اسلامی وحدت کانفرنس میں شرکت پر شدید تنقید کی۔ یہ کانفرنس ایک ایرانی تنظیم نے منعقد کی تھی جس کا سربراہ اراکی ہے۔ شامی الاخوان نے ملاقات کو اُن شہداء کے خون کے ساتھ غداری قرار دیا جو ایرانی ملیشیاؤں کے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیے گئے۔
الاخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد تنظیم کا درجہ دینے کے حوالے سے آئندہ فیصلہ تہران کے لیے ایک اور کاری ضرب ثابت ہو گی جو امریکی، بین الاقوامی اور علاقائی دباؤ پر روک لگانے کے واسطے خطے میں اپنے حلیفوں اور ہمنوا تنظیموں کو متحرک کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
Related Posts
Add A Comment