"چچا چلے گئے!” ایک دھیما سا افسردہ پیغام ملا۔
"یہ کیا کہہ رہی ہو؟ حفصہ!” میری جوابی چیخ بلند ہوئی۔ "کس کے چچا؟ کون سے چچا؟” ایک دم کچھ سمجھ نہیں آیا۔ مگر یہ سچ تھا۔ جس نے کن کہہ کے اس زمین پر بھیجا تھا، اسی نے اپنی بارگاہ میں واپسی کا بگل بجا دیا۔ اور ایک نستعلیق روح آسمانی رتھ میں سوار اپنے مستقر کو روانہ ہو گئی۔ ضرور ان کی آپا (والدہ) بانہیں کھولے استقبال کے لیے مسکرا رہی ہوں گی۔ آپا سے تو انہیں عشق تھا۔ دو سالوں نے جو ان کے بنا گزرے، دو سٹنٹ ان کے قلب میں گاڑ دیے تھے۔
ڈاکٹر محمد الغزالی! حمزہ، سمیہ، عفرا، عافیہ، حنظلہ کے بابا! ماریہ، نائلہ، رملہ، حفصہ، ہالہ کے چچا! میرے استاد! میرے ممتحن! چند گھنٹے پہلے انہیں یونیورسٹی کانفرنس میں سٹیج پر بولتے کتنے ہی لوگوں نے سنا۔
جانے پہلا تعارف کب ہوا تھا یاد نہیں۔ شاید اپنے نائب صدر جامعہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی نسبت سے ہوا ہوگا۔ اس وقت کی یونیورسٹی انصاری و غازی ہی تو ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں بہت با رعب تھے۔ ہوں گے مگر ہمارا واسطہ نہ پڑا تھا۔ وہ سوشیالوجی پڑھایا کرتے تھے۔ جو ہم نے استاذ محترم ڈاکٹر سفیر اختر سے پڑھ لی۔ لاعلمی بھی نعمت ہوا کرتی ہے۔ پہلی لاعلمی تو یہ تھی کہ جب اسلامی اخلاقیات کے کورس میں محمد الغزالی کی خلق المسلم پڑھی تو ہمیں مغالطہ ہوا کہ یہ اپنے غازی صاحب کے بھائی ہیں۔ کتاب بہت پسند آئی اور ایک گونہ تعلق قائم ہو گیا۔ البتہ یہ غلط فہمی سمسٹر کے نصف تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ کتاب تو مصری شیخ محمد الغزالی سقا کی نکلی۔ پھر ہمارا ٹاکرا ہوا المنقذ من الضلال والے ابو حامد الغزالی سے۔۔۔ اب ہم نے علامات کی مدد سے فرق قائم کیے۔ مصری شیخ تھے اور پانچویں صدی ہجری والے امام ٹھہرائے۔ اپنے استاد کو ہم نے بغیر ال کے استاذ غزالی کہنا منظور کیا۔ فیصل مسجد کیمپس میں بارہا انہیں دیکھا۔ پہننے کا سلیقہ، عمدہ لباس، اچھی خوشبو، نفاست سے جمے بال جو کبھی سٹائلش سی ٹوپی میں چھپے ہوتے، منہ میں پان، جیب میں قلم، قدم جما کے رکھتے، سیدھا چلتے، شاہانہ بے نیازانہ انداز۔ سنا تھا بہت با رعب ہیں۔ مزاج کسی سے نہیں ملتے۔ موڈ ہوا تو کچھ بتائیں گے ورنہ بھگا دیں گے۔ ہم ان دنوں شاہ ولی اللہ کے نصوص پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے جو اپنی سمجھ دانی سے کافی بالا محسوس ہو رہے تھے۔ حجت اللہ البالغہ کا انگریزی ترجمہ مارسیا ہرمنسین نے کیا تھا جسے ادارہ تحقیقات اسلامی نے چھاپا تھا۔ ادارے کی راہداریوں میں سرگرداں تھے کہ سومیہ بولی، انصاری صاحب علیل ہیں تو غزالی صاحب سے پوچھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی سیاسی و سماجی فکر کا مطالعہ ان کی اہم کتاب ہے۔ ضرور مفید ہوگا۔ ہم نکلے اور اسی کاریڈور سے گزر کے سیڑھیاں چڑھ گئے۔ لکڑی کی خوبصورت سی تختی پر نستعلیق خط میں سنہرے حروف میں کندہ تھا: محمد الغزالی۔ پرچی پر نام لکھ کے اندر بھجوائے، انہوں نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر بلوا لیا۔ کتابوں کی شیلفوں کے بیچ میں بڑی سی میز دھری تھی۔ جس پر سبز کپڑا بچھا ہوا تھا اور ایک گتے کی تختی پر بے حد شستہ خط میں محمد الغزالی لکھا تھا۔ شاید کسی شاگرد نے ہدیہ تبریک پیش کیا ہوگا۔ انہوں نے کرسی سے اٹھ کر استقبال کیا اور نشست کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ سفاری سوٹ میں ملبوس، سلیقے سے جمے ہوے بال، منہ میں پان کی گلوری دبی ہوئی جسے انتہائی نفاست سے کبھی دائیں کبھی بائیں کرتے۔ اکابرین کے بارے میں پان کو سلیقے سے کھانا سنا تھا، اپنی آنکھوں سے استاذ غزالی کو دیکھا۔ انہوں نے ایسی شفقت سے تعارف کا مرحلہ سر کیا کہ ہمیں محسوس ہوا ہم زمانوں سے ان سے واقف ہیں۔ سومیہ ادارہ تحقیقات اسلامی میں انصاری صاحب کے ساتھ کام کر چکی تھی۔ وہ تو گویا گھر والی تھی۔ میرے نام کو دوہراتے ہوئے کہا، "بھئی تیمیہ تو سامنے بیٹھی ہیں، ابنِ تیمیہ کہاں ہیں؟” لیجیے اب ہم اپنی تعلیم تعلم چھوڑ کے بال بچوں اور والدین کے کوائف بیان کرنے لگے۔ دلچسپی سے سنتے رہے پھر کہنے لگے، "بھئی تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کا کام ہم بھی کرتے ہیں مگر جو کام آپ لوگ کرتی ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ ابنِ تیمیہ تو آپ ہی پروان چڑھا سکتی ہیں۔ امام شافعی کی والدہ کا تذکرہ بھی سنا ہوگا؟ یہ "الرسالہ "اور "الام” ام الشافعی کے بغیر تو وجود میں نہیں آ سکتی تھیں۔”
میں میز کے پیچھے کرسی پر براجمان اس ہستی کو دیکھتی رہی جو مجھ جیسے طالب علم کی حوصلہ افزائی یوں کر رہی تھی کہ علمیت ہی نہیں مادریت اس سے بڑا ایک اعزاز ہے۔ اس روز جو جھجک رفع ہوئی تو اس کے بعد ہم نے کبھی پیشگی وقت لینے کا تکلف نہیں کیا۔ شاہ ولی اللہ کا تذکرہ اکثر و بیشتر ہوتا۔ کہا کرتے، دورِ زوال میں جس ہندوستانی معاشرے نے شاہ ولی اللہ جیسے مجدد کو جنم دیا وہ بانجھ نہیں ہے۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کی والدہ کا تذکرہ دیکھیے تو آپ جانیں گی ولی اللہ کیسے پروان چڑھائے جاتے ہیں۔ شاہ صاحب کے اصول تفسیر بارہا ذکر کرتے، "قرآن مجید کے کون سے موضوعات ہیں؟ توحید، رسالت، معاد۔ یہی پچھلے پیغمبروں کی تعلیم تھی۔ پھر قرآن مجید میں کیا نازل ہوا۔۔۔ الذکر ہے۔ البیان ہے۔ آپ آیات کی تقسیم دیکھیے، جو بات شاہ ولی اللہ نے بیان فرمائی ہے اس سے باہر جانا مشکل ہے۔” التذکیر۔۔۔ پانچ موضوعات ہیں۔۔۔ پھر ان کی تشریح۔۔۔ مرافقات اور عالم ملکوت و ناسوت کو ایسا آسان کر کے بتایا کہ ہم حیران، اچھا! یوں بھی اس پیچیدہ مقام کو سمجھا جا سکتا ہے۔ فیصل مسجد کیمپس میں جس دفتر میں جائیں، چائے ضرور پوچھی جاتی ہے البتہ سلیقے سے پیش کرنے والے کم ہیں۔ استاذ غزالی ہمارے بیٹھتے ہی دریافت فرماتے، چائے، قہوہ یا کافی؟ ہماری فرمائش کے مطابق بنواتے۔ کرچی ہوئی پیالی قابل قبول نہ تھی۔ اور اگر صاحب کبھی غلطی سے پیالی اور پرچ مختلف لے آتے، اپنے مخصوص انداز میں ان کو توجہ دلاتے۔ خود ان کا سبز چائے یا کافی کا الگ مگ رکھا رہتا۔ بسکٹ وغیرہ ہمراہ آتے۔ نمکین ہوتے تو پھر آواز دیتے، ارے بھئی! ہماری بچیاں ہیں میٹھا بھی لائیے۔ اس کے بعد میٹھی اور نمکین باتیں شروع ہو جاتیں۔ جب ہمیں امریکا کا سفر درپیش تھا تو اپنے مخصوص انداز میں خوب خبر لی۔ جائیے جائیے۔۔۔ بس یہ دیکھ لیجیے کہ بڑے بڑے زعما کی قیمت ایک ٹکٹ اور دو تین ہفتے کا قیام ہی ہوتی ہے۔ کچھ قصے سنائے کہ اچھے بھلے فلاں کتاب پر کام کر رہے تھے ادھر سے واپس آئے کایا کلپ ہو گئی۔ ایسے شکست خوردہ اور مرعوب ذہن کے آدمی ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں۔ اپنے کئی اسفار کی روداد سناتے۔ "ایک مرتبہ میرا قیام انہوں نے ایک بدھ راہب کے ساتھ کر دیا۔ شروع میں دونوں ہی گھبرائے۔ سورج نکلنے سے قبل وہ بیدار ہوتے اپنے معمولات انجام دیتے۔ تو ہم اٹھ کے اپنی منزل اور اذکار دہراتے۔ (سب جانتے ہیں غزالی صاحب کا روزانہ تلاوت کا معمول تھا جو وہ فجر کے بعد بلند آواز میں کرتے تھے۔) شروع میں راہب صاحب منہ بناتے باہر ہوٹل کے باغ میں نکل جاتے اور اپنا گیان دھیان کرتے۔ آخر تین چار دن میں برف پگھل گئی۔ وہ بھی مسکرائے، ہم نے بھی مسکان پیش کی۔ یہ کہتے اور گویا دوبارہ اسی وقت کو یاد کرتے ہوئے اسی شدت سے مسکرانے لگتے کہ پان چباتے دانت نمایاں ہو جاتے۔ "آخر میں جس قدر ان کی انگریزی بساط تھی ہم نے قرآن کا پیغام پیش کیا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ بہت خوش ہوئے ہیں یہ دیکھ کر کے کہ مسلمان بھی دل کی پاکیزگی کا خیال رکھتے ہیں اور ضبطِ نفس کے لیے عبادات کرتے ہیں۔ تو دیکھیے، آپ کو بہت مواقع ملیں گے۔ دنیا میں جہاں جائیے یاد رکھیے آپ اس قرآن کے داعی ہیں۔ صرف گھوم پھر کے سیر کر کے آ جانے والے وحوش و حشرات بہت ہیں۔” وہ خود علوم دینیہ و عربیہ کے شناور ہونے کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے غواص بھی تھے۔ تحصیل علم کی بہت حوصلہ افزائی کرتے مگر مرعوبیت کے شدید ناقد۔ جو شخص دین اسلام، قرآن مجید، شریعت اسلامی، عربی یا اردو کے حوالے سے کسی مداہنت کا شکار ہوتا، ان کے تیروں کا نشانہ ہو جاتا۔ مگر اس تنقید میں کبھی ذاتی یا شخصی برائی نہیں کرتے تھے۔ اپنی بات ٹھوک کے واضح کہتے۔ ہم نے بہت مرتبہ دیکھا کہ جن سے ان کا زوروں کا اختلاف ہو رہا ہوتا دوسری ہی نشست میں مل بیٹھ کے چائے پی جا رہی ہوتی۔ وہ سب لوگ ایسے تھے۔ اخلاق اور ظرف والے۔ ہم کبھی انہیں چھیڑتے، سر! آپ کو دیکھ کے سمجھ میں آتا ہے کہ ابن حزم کی زبان سے لوگ کیوں پناہ مانگتے تھے۔ خوب ہنستے۔ جامعہ کی تاسیس انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوئی تھی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جسے ان کی جنریشن نے اپنا خون جگر دے کے سینچا تھا اس کے لیے بہت حساس تھے۔ جب پاکستانی ریاست نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا بیانیہ یونیورسٹی میں زبردستی گھسا ڈالا، وہ اس پر بہت دکھ کا اظہار کرتے۔ پرویز مشرف کو رگیدتے ہوئے یونیورسٹی کے اندر کے حالات پر تبصرہ کرتے تو "عمرو بن لحی” کے حسب نسب پر روشنی ضرور ڈالتے۔ "کس کس کو روئیے گا۔ جب تک عمرو بن لحی کے متعارف کردہ بت باقی ہیں، خیر کہاں سے آئے گا۔۔۔” انہی دنوں یونیورسٹی میں طلبہ نے بڑے پیمانے پر ہڑتال کی اور یونیورسٹی کے داخلی دروازے بند کر دیے۔ سر کلاس لینے گئے۔ اپنا تعارف کرایا۔ بپھرے ہوئے طلبہ نے انہیں دھکا دیا اور گاڑی کو گزرنے نہیں دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پڑھانے سے صاف منع کر دیا۔ "جب ہم طلبہ کو بنیادی اخلاق نہیں سکھا سکے، استاد کے احترام کی تربیت نہیں دے سکے تو یہ لفظوں کی جگالی بے معنی ہے”۔ اپنے فیصلوں میں وہ اٹل ہوتے تھے۔ اس روز کے بعد نئے کیمپس کا رخ نہیں کیا۔
(جاری ہے)