(گذشتہ سے پیوستہ)
کم و بیش ہر ملاقات میں تاکید کرتے، قرآن مجید کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیے۔ اس کے بغیر دل کی زندگی نہیں ہے۔ تلاوت میں ناغہ مت آنے دیجیے۔ فہمِ قرآن میں جو کام آپ خواتین کر سکتی ہیں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ان کے سامنے مصحف تو کہہ سکتے تھے مگر لفظِ قرآن بغیر کسی اسم صفت کے بولنے پر توجہ دلاتے، بل ھو قرآن مجید۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کا ادب ضروری ہے۔ ملاقات میں "ہمارے بھائی صاحب، اللہ بخشے” اور "ہماری آپا صاحبہ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے” کا ذکر لازمی ہوتا تھا۔ انہیں یاد کرتے ہوئے آنکھوں میں ایسی گہری چمک پیدا ہوتی تھی کہ جیسے وہ خود کو ان کے سامنے محسوس کر رہے ہیں۔ "ہماری آپا صاحبہ نے ا پنی محنت سے تعلیم حاصل کی۔ اور بسا اوقات جس جز رسی سے وہ قرآن کے مطالب بیان کرتی تھیں ہم حیران رہ جاتے تھے۔ یہی دیکھیے: پھر وہ قرآن مجید تھماتے۔ مذکورہ آیت کھولنے کا کہتے پھر پوچھتے آپ کو کیا سمجھ میں آیا؟ ہم ادھر ادھر جو سمجھ میں آتا کہہ ڈالتے۔ پھر وہ تشریح کرتے۔ آپا صاحبہ کا بتایا نقطہ بتاتے۔ ایک واقعہ بہت دہراتے، "ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں سورہ توبہ کی آیت، و کونوا مع الصادقین، کبھی خیال نہیں آیا۔ آپا صاحبہ کے سامنے تلاوت کی تو فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ قیامت تک راست باز موجود رہیں گے تبھی تو ان کے ساتھ جڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔” کبھی کہتے، بھائی صاحب کے محاضرات کے سلسلے کا محرک بھی آپا صاحبہ تھیں۔ دیکھیے کیسا صدقہ جاریہ ان دونوں کے لیے تیار ہو گیا۔ اپنی اکلوتی بہن کے لیے ایسی محبت، عقیدت اور والہانہ شیفتگی کا اظہار ہمیں سکھاتا تھا کہ اللہ والے نسوانیت کی تکریم کیسے کرتے ہیں۔ مجھ سے کم و بیش ہر ملاقات میں دریافت کرتے، ابن تیمیہ کا کیا حال ہے؟ تعلیمی سلسلہ کہاں پہنچا؟ قرآن کتنا پڑھ لیا؟ جب بتایا قرآن مجید مکمل کر لیا ہے تو بہت خوش ہوئے۔ تحفے تو یوں تقسیم کرتے تھے گویا شہنشاہ زماں مٹھی بھر کے اشرفیاں بانٹ رہا ہے۔ اس موقع پر ایک قرآن مجید میرے صاحبزادے کے لیے ہدیہ کیا۔
جو نئی کتاب طبع ہو کے آتی، ہدیہ کرتے۔ ساتھ فرمائش کہ اب اس پر تبصرہ لکھ کے لائیے گا۔ کتاب "الاسماء الحسنٰی” کے بارے میں کچھ ٹوٹا پھوٹا کہہ دیا لیکن ان کو توقع تھی کہ لکھ کے دوں۔ پھر الدراسات کا ایک شمارہ نکالا اور ہندوستان سے آیا تبصرہ پڑھایا۔ میں نے کہا، سر! میرا تو یہ مقام نہیں ہے کہ آپ کی کتاب پر تبصرہ کر کے یوں چھپنے کے لیے دوں۔ اس بات کو سخت ناپسند کیا۔ اور ساتھ ہی قرآنِ مجید کے بلاغی اعجاز والی کتاب دے کے کہا، ٹھیک ہے اس کو دیکھیے۔ یہ فلاں باب۔ ایک تو بلاغت قرآنی، پھر عربی بلاغت کا انگریزی میں بیان۔ اور انگریزی بھی غزالی صاحب کی۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ میں نے ایک دو ماہ کا وقفہ دیا کہ شاید بھول جائیں۔ مگر کہاں! جوں ہی ملاقات ہوئی انہوں نے دریافت کیا کہ کیا رائے ہے۔ میں نے کہا سر! اس پر رائے یہ ہے کہ آپ ہم خواتین کو پہلے قرآن پڑھائیں گے اس کے بعد ہم لکھ کے دیں گے۔ کچھ ہنسے کچھ غصہ ہوئے۔ مگر آخر مان گئے۔ ہم نے لگے ہاتھوں کہہ دیا کہ آپ کو خواتین کیمپس میں آنا ہوگا۔ کہنے لگے، آپ کی وجہ سے میرا دس سالہ ارادہ ٹوٹنے کو ہے۔ نصاب تجویز ہوا۔ ان کی رائے تھی کہ آیات قرآنی کے ساتھ تفسیر کا متن بھی پیش نظر رہے۔ عبد الماجد دریابادی صاحب کی تفسیر ان کی پسندیدہ تفاسیر میں سے تھی۔ اس کے وصف گنواتے کہ خود مولانا دریابادی الحاد سے رجوع کر کے مولانا تھانوی کے حلقہ بگوش ہوئے۔ اس لیے انہوں نے جدید ذہن کے سوالات کو ایڈرس کیا ہے۔ ان کا مطالعہ مغربی و مشرقی علوم دونوں کا تھا جس کی جھلک تفسیر میں ملتی ہے۔ ہم اردو بازار جا کے سب کے لیے کئی مجلدات اٹھا لائے۔ اور یوں ہمارے قرآن اسٹڈی سرکل کا اغاز ہوا جس میں مختلف شعبوں کی خواتین اساتذہ نے ان سے قرآن مجید کا درس لینا شروع کیا۔ وہ اپنے سامنے کوئی تفسیر نہ رکھتے۔ ہم تلاوت کرتے اور ادھر وہ دریا رواں ہو جاتا۔ قرآن کے الفاظ کی گہرائی، اعجاز، مفاہیم و تشریحات، سوالات و جوابات۔۔۔ نحوی و بلاغی ہی نہیں جدید و قدیم فلسفہ، کلام، احکام، قوانین، معاشرت۔ بسا اوقات ایک درس میں صرف دو تین لفظ ہی مکمل ہوتے۔ ان کی خواہش ہوتی کہ ہر شریک اپنا فہم سامنے رکھے۔ شریعہ و قانون کی اساتذہ کے سامنے اسلامی شریعت کا انگریزی قانون کے ساتھ تقابل کرتے۔ انگریزی، مینجمنٹ سائنس یا سماجی علوم سے وابستہ کبھی کوئی ٹیچر آتیں تو ان کی خوشی بڑھ جاتی۔ شاید وہ محسوس کرتے کہ "عمرو بن لحی” کی متعارف کردہ لبرل اور اسلامی علوم کی خلیج کو یوں پاٹا جا سکتا ہے۔ اردو یا عربی کی غلطی فوراً درست کرواتے۔ کلاس میں کسی نے کہہ دیا، "وہ مصحف پڑا ہوا ہے۔” فوری گرفت ہوتی۔ "توبہ کیجیے۔ کیا نعوذ باللہ کوئی کچرا ہے کہ پڑا ہوا ہے، یوں کہیے، وہ مصحف رکھا ہے۔ "ہمارے درس میں غیر رسمی سا ماحول ہوتا۔ اگر کسی کا بچہ آ جاتا تو سبحان اللہ۔ وہی ان کی توجہ کا خاص مرکز بن جاتا۔ پورا درس ان کو مخاطب کر کے ہوتا۔ خود ان کی صاحبزادی اور بھتیجیاں بھی شامل ہو جاتیں۔
اس دوران میں جب عدالتی بنچ لگتا تو ہمارے درس میں تعطل واقع ہو جاتا۔ ایک مرتبہ عدالت تین ماہ تک چلی تب ہمیں کہا کہ اب آپ لوگ خود مطالعہ کیجیے۔ میں جب فارغ ہوں گا شامل ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد ہم نے موجودہ پیٹرن متعارف کرایا کہ ہر شریک اپنی تفسیر کا مطالعہ کر کے آئے اور کلاس میں اس پر ڈسکشن کی جائے۔ میں نے تفسیر ماجدی اپنے ذمہ لی۔ حفصہ کو انہوں نے مولانا ادریس کاندھلوی کی تفسیر کے مطالعہ پر لگایا۔ ہمارے استفادہ کا یہ سلسلہ اس وقت موقوف ہو گیا جب فیصل مسجد میں پہلی صف میں کھڑے ہو کے انہوں نے صدر جامعہ کے سامنے سنت فاروقی ادا کی۔ شہنشاہیت کے پروردہ احتساب کجا، اختلاف رائے بھی برداشت نہیں کیا کرتے۔ مگر استاذ غزالی تو غزالی تھے۔ اپنی رائے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اور ان کے ساتھ تعلق کی بنا پر ہم بھی کٹہرے میں کھڑے پیشیاں بھگتتے اور صفائیاں لکھ لکھ کے دیتے رہے۔
میرے ایم فل اور پی ایچ ڈی دونوں مقالہ جات کے ممتحن تھے۔ امتحان کے دوران میں یوں بیٹھتے گویا جانتے تک نہیں۔ ایم فل کے امتحان کے دوران میں شفقت غالب تھی۔ کئی صفحات پر مشتمل مفصل تصحیح نامہ عنایت کیا۔ البتہ پی ایچ ڈی کے امتحان میں وہ ایک جارح قاضی کے روپ میں تھے۔ ایسا ایکسرے کرتا ہوا سلسلہ سوالات۔ ایک ایک صفحے پر تبصرہ۔ کہیں تعریف کہیں تنقید۔ انگریزی کے کئی الفاظ اور اصطلاحات کا سکین کیا کہ یہ درست نہیں ہیں۔ فلاں بات سے آپ کا استنتاج کمزور ہے۔ میرے مقالے کے دو ابواب پر انہیں اعتراض تھا کہ یہ بالکل بے محل ہیں۔ اور عیسائیت کے اس مطالعے کا کوئی فایدہ نہیں ہے۔ میرے منمناتے ہوئے جوابات انہیں قائل نہ کر سکے۔ اور انہوں نے دیگر ممتحنین کی رائے سے اختلاف کرتے ہوے یہی رپورٹ جمع کرائی۔
گھر میں ان کا روپ ایک بہت شفیق باپ، خیال رکھنے والے چچا اور بے حد محبت کرنے والے چھوٹے نانا کا تھا۔ وہاں وہ فیصل مسجد میں قول فیصل ادا کرنے والے غزالی نہیں محسوس ہوتے تھے۔ تحفے بانٹتے ہوئے۔ شفقت لٹاتے ہوئے۔ کسی بچے نے ایک آیت سنائی کسی نے سورت۔ بغیر گنے جتنے پیسے مٹھی میں آئے انعام عنایت ہو گیا۔ نوٹوں کی گڈیاں یوں بانٹ دیتے تھے۔ برجستہ مذاق، ہلکی پھلکی گفتگو کرتے تھے۔ کئی دفعہ میں سوچتی کہ شاید وہ اکسٹنسو پڑھنا پڑھانا گھر میں ممکن نہیں ہو سکتا۔ آپا (والدہ) سے شدت کی محبت تھی جو ان کے پورشن ہی میں رہتی تھیں۔ ان کے ساتھ والہانہ لاڈ پیار کیا کرتے اور فیصل مسجد والے غزالی سے بالکل مختلف ایک معصوم بچے محسوس ہوتے۔ اہلیہ سے تعلق بے مثال تھا۔ اس روز کسی نے چچی جان سے مخاطب ہو کے دریافت کیا، آپ ان کی کوئی خاص بات بتائیں۔ ضبط کی شدت سے رندھی ہوئی آواز میں بولیں، میرے لیے تو ان کا سب کچھ ہی بہت خاص تھا۔ سننے والوں کے دل دھڑکنا بھول گئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر ایک وقفے کے بعد وہ آہستگی سے گویا ہوئیں، اپنی والدہ سے جو تعلق تھا وہ بہت خاص تھا۔ جیسے ان کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔۔ خاص تو وہاں بہت کچھ تھا۔ اچانک اس دائمی رخصتی پر کیسے ضبط کیا جاتا ہے۔ پہلی چوٹ پر صبر کسے کہتے ہیں۔ بیٹا بہو اسی روز عمرے کے لیے گئے تھے جنہیں خود ہوائی اڈے پر چھوڑنے گئے۔ اس حالت میں کہ اپنی تلاوت اور مطالعہ تفسیر کا ناغہ نہیں کیا۔ اس بیٹے نے کس کیفیت میں عمرہ ادا کیا ہوگا۔ چھوٹا بیٹا کاکول سے اسلام آباد تک کیسے آیا ہوگا۔ لاڈلی بھتیجی جو اپنے دیور اور نند کی شادی کے سلسلے میں اس وقت کراچی میں تھی، اسے گھر والوں کی طرف سے کہا گیا، بابا اور چچا نے یہی سکھایا ہے کہ فرض کی ادائیگی اول ہوتی ہے۔ چچا کو دعا کی ضرورت ہے وہ تم وہاں سے کر سکتی ہو۔ نکاح کی تقریب جس طرح طے ہے اس کی تکمیل کرنے کے بعد آنا۔
الٰہی! سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی جدائی سے گھر والوں کو پہنچنے والا صدمہ بڑا ہے، اسلامی یونیورسٹی کا نقصان زیادہ ہے، سپریم کورٹ میں ایک عالم جج کی توانا آواز کی کمی بڑی ہے، پاکستان کا غم بیش بہا ہے یا عالم عربی نے اپنے ایک عجمی سفیر کو کھو دیا، دنیا بھر میں ان کے شاگرد یتیم ہو گئے اور امت مسلمہ اپنے کسی قیمتی اثاثے سے محروم ہو گئی؟ ان کا ہر روپ ہی تو بہت خاص تھا۔
غفراللہ لہ وارحمہ!