Te zan ta Nikkal Sayn wayan? (Who do you think you are? Nicholson!)
تاریخ اور جغرافیہ، سیاحت کی آغوش میں سما جائیں تو دلچسپی اور تھرل بن کے نکلتا ہے۔ اور کبھی کبھی کھوج، جستجو اور تجسس نئی دنیاؤں کو دریافت کرتے کرتے ایسٹ انڈیا کمپنی بن جایا کرتے ہیں۔ کمپنی جب برصغیر کے طول و عرض میں اپنے لشکر اتار کے قدم جما چکی تھی تو اس کے دماغ میں شمال کی سرکوبی کا سودا سمایا۔ ادھر اپنی ملکہ معظمہ کے ہاں بھی انڈین سب کونٹنٹ ایک دیومالائی فینٹسی تھا جسے تسخیر کرنا اور اس کی تہ در تہ مسٹری کو کھوجنا سلطنت انگلشیہ کا فیشن تھا۔ پس انیسویں صدی کے اوائل میں شمالی آئرلینڈ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے لڑکے جان نکلسن نے عین ہمارے آٹھویں صدی کے ہیرو جناب محمد بن قاسم کی مانند سترہ سال کی عمر میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج میں شمولیت اختیار کی اور بھاپ کے انجن والے بحری جہاز پر لد کے سرزمین ہند پر اترے۔ کمپنی بہادر نے چھوٹتے ہی انہیں شمال مغرب کی طرف داد شجاعت دینے کے لیے بھیج دیا۔ آتے ہی جناب نے پہلی اینگلو افغان جنگ (1838-1842) میں حصہ لیا۔ غزنی اور کابل میں یہ جنگ جیتی تو نہ گئی الٹا نوجوان افسر قید کر لیے گئے۔ نیز افغانوں نے ہماری سفید فام افواج کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ ہمارے ہیرو کو ناک سکوڑ کے نفرت آگیں لہجے میں انہیں "خوں خوار خون آشام بلائیں” کہنا پڑا۔ انصاف سے بتائیے کیا افغانوں کے لیے روا تھا کہ خود پر چڑھ آنے والے اس سفید لشکر کے کمان داروں کو کابل میں ذبح کر کے ان کی لاشوں کا مثلہ کرتے؟ پھر سولہ ہزار لشکریوں کو واپسی کی اجازت دینے کے بعد درّوں میں قتل کر ڈالتے؟ سراسر بد عہدی ہے۔ یہ سدا سے مشرقی قوموں کا وطیرہ ہے کہ وہ حملہ آوروں کے سامنے مہذب طریقے سے سیاسی و سفارتی ردِعمل ظاہر کرنے کی بجائے وحشیانہ طور پر تیر تلوار توپ تفنگ لے کے ڈٹ جاتے ہیں۔ خیر بنگال رجمنٹ نے کچھ ہی ماہ میں افغانوں سے اس کا بدلہ اس سے کئی گنا زیادہ قتل وغارت گری کر کے لے لیا اور اپنے قیدی چھڑا لیے۔ ہمارے ہیرو نے یقینا اس جنگ میں دیگر کارہائے نمایاں بھی انجام دیے ہوں گے کہ رینک میں ترقی پائی اور شمال سے کمپنی کے لیے خطرہ بننے والی دیگر ریاستوں کا سر کچلنے کے لیے مامور کیے گئے۔ ویسے بھی جس بے دردی سے ان کے چھوٹے بھائی کو درہ خیبر میں ایک حملے میں مارا گیا اس نے انہیں پوری طرح سفید فام مسیحی انگریزی تہذیب کے غلبے کا نقیب بننے کے لیے یکسوئی عطا کی۔ ادھر پنجاب میں سکھ حکومت درد سر بنی ہوئی تھی جس کی سرحدیں آزاد قبائل تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پس آپ پشاور سے نکلے، دریاے سندھ کے کنارے اٹک کے قلعے کو بغیر گولی چلائے فتح کیا۔ ادھر سکھ لشکری راولپنڈی سے حسن ابدال کی طرف بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ آپ نے ان کو مرگلہ کے پہاڑوں میں جا لیا مگر افسوس کسی بے نام و نشان سپاہی کی گولی سے آپ عین مرگلہ کی پہاڑیوں میں زخمی ہوئے۔ یہ پہلی اینگلو سکھ جنگ (1845-46) کہلاتی ہے۔ لمبے تڑنگے نوجوان آفیسر۔۔۔ کمپنی کا تزک و احتشام اور رعب و دبدبہ مقامی گنوار آبادیوں کے دل پر بٹھانے والے جان نکلسن کا زخمی ہونا اس کا مستحق تھا کہ اس مقام پر یاد گار تعمیر کی جائے۔ دو سال بعد پھر نئے سامراجی عزم کے ساتھ سکھوں کی اجڈ حکومت کا قلع قمع کرنے میدان میں اترے (1848-49) اور انہیں کما حقہ سبق سکھایا۔ لہذا بجا طور پر پولیٹکل افسر مقرر ہوئے۔ سانگھڑ اور کشمیر میں جوہر دکھائے۔ پھر جلد ہی ستائیس سال کی عمر میں بنوں (ایڈورڈز آباد / دلیپ گڑھ) کے ڈپٹی کمشنر بنا دیے گئے۔ یہاں وزیر اور محسود قبائل نے ستائے رکھا۔ قاتلانہ حملے تک کیے مگر میجر نکلسن کمپنی سرکار کے ارفع مقاصد کی خاطر بہادری سے ڈٹے رہے اور برابر کی خون آشام بلا بن کے مقامی قبائلیوں کا خون پیتے رہے۔ ان کارناموں کی داد دیتی، سنگ مر مر سے بنی یادگاری تختی بنوں کے چرچ میں آج تک موجود ہے جسے بنوں کے معمار ہربرٹ ایڈورڈ نے نصب کرایا تھا۔
"Gifted in mind and body, he was as brilliant in government as in arms. The snows of Ghazni attest his youthful fortitude; the songs of the Punjab his manly deeds; the peace of this frontier his strong rule. The enemies of his country know how terrible he was in battle, and we his friends have to recall how gentle, generous, and true he was.”
کتاب مقدس کی بلا ناغہ تلاوت ان کے معمولات میں شامل تھی اور باجماعت سروس میں حاضری کا شدت سے اہتمام تھا۔ امانت دیانت کا مرقع تھے مگر مُلا نہیں کہلائے جا سکے۔ جانے کیوں ہمارے ہاں ایک معصوم سا سوال ضرور کیا جاتا ہے بھلا ملٹری، بیوروکریسی اور مذہب کا کیا تعلق ہے؟ سب کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنا چاہیے۔ ہم بھی مانتے ہیں مگر ملکہ معظمہ قیصر ہند ہماری رائے سے اتفاق نہیں رکھتی تھیں۔
روڈیارڈ کپلنگ نے بجا طور پر اس مرد میدان کی سیرت کی روشنی میں نکل سین (Nikkal Sayn) کا کردار تراشا۔ مگر افسوس برطانوی شعور ابھی اس درجے ترقی نہیں کر پایا کہ کپلنگ وغیرہ پر نسیم حجازی ہونے کی پھبتی کس سکے۔ الٹا انیسویں صدی کے ناول نگاروں اور شاعروں کو ایک بنا بنایا ہیرو ہاتھ آ گیا۔
کہانی پشاور سے اپنے انجام کی طرف بڑھتی ہے۔ تیس سالہ بریگیڈیئر جنرل جان نکلسن جہاں اپنے پیارے دوست ہربرٹ ایڈورڈ (کمشنر) کے ماتحت ڈپٹی کمشنر بنا کے بھیجے گئے۔ تاریخ کے اوراق اس بے مثال تعمیر، ترقی اور مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کا ذکر کرنے میں سخت کنجوس واقع ہوئے ہیں جو ہمارے انگلش حکام نے اپنے دور میں پشاور کے باسیوں کی خاطر انجام دیے۔ خیر ہم صرف نظر کیے لیتے ہیں۔ تعصب اور جانبداری سے کسی مورخ کو مفر نہیں ہے۔ اور اکتفا کرتے ہیں سرکش دیسی باشندوں کے ان کٹے ہوئے سروں پر جو ہمارے ہیرو اپنی سلطنت کی دھاک بٹھانے کے لیے اپنی میز پر سجا لیا کرتے تھے یا ان مَشران کے کپڑے جوتے وغیرہ اتارنے اور ان مولویوں کی داڑھیاں مونڈ دینے جیسے امور پر جو جناب کو سلام نہ کرنے جیسے جرم کا ارتکاب کرتے تھے۔ کیا ایسا کرنا ہر زمانے کے فاتحین کے لیے واجب نہیں ہے؟
پنجاب کی فتح کے بعد ابھی سرحدی صوبے میں لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہؤے ہی تھے کہ شمالی ہندوستان میں غدر بپا ہو گیا۔ سو آپ کو ہنری لارنس کے نوجوان فوجیوں کے ہمراہ نکلنا پڑا۔ مقامی پٹھان لشکر بھی ساتھ تھا۔ رستے میں واہ کے حاکم نے اپنی دوستی کی لاج رکھی اور جناب نکلسن کی خاطر خواہ سیوا کی۔ یوں تن فن کے باغیوں کو سبق سکھانے آپ عازم دہلی ہوئے۔ کئی مقامات پر مقامی سپاہیوں کی پوری پوری پلٹن لٹکا دینے جیسے کارناموں نے انہیں وکٹوریائی دور کے عظیم مجاہدین کے رتبے پر فائز کیا اور دہلی کے ہیرو کہلائے۔ وہاں کشمیری دروازے پر ہندوستانیوں کے ساتھ ایک خوف ناک جنگ میں آپ شدید زخمی ہوئے اور نو دن بعد ستمبر 1857ء میں 35 سال کی عمر میں استعمار کی آن پر قربان ہو گئے۔ آپ کا مقدس مزار دہلی کے گورا قبرستان میں واقع ہے۔ جسے ویزہ ملے ضرور دعا خوانی کی سعادت حاصل کرے یا حسب موقع mourning dirge گا آئے۔ آخر ان کی مجاہدانہ حیات کا بڑا حصہ ہمارے خطہ میں گزرا تھا۔
ہماری حیثیت تو یہ نہیں ہے لہذا ہم نے جنوری کی اک سرد دوپہر بھائی صاحب کی معیت میں گھر کے چھوٹے لڑکوں، جو ہماری مقفع مسجع تاریخی کہانیوں پر کم اور پچھلے برس مرگلہ سے اترے تیندوے کے نکلسن کی لاٹ تلے جی ٹی روڈ پر کچلے جانے کے حادثے پر زیادہ متوجہ ہوئے، کے ہمراہ رخت سفر باندھا۔ رضا علی عابدی صاحب نے بی بی سی کے ذریعے دنیا بھر میں جرنیلی سڑک کو متعارف کرایا تھا اور حسن ابدال، ٹیکسلا میں سکھ اور بدھ تاریخ کے تعارف کے بعد نکلسن کی لاٹ کا ڈیڑھ صفحے پر محیط ذکر کیا۔
وہ لندن سے چلے آئے تو ہمارے لیے شرم کا مقام تھا کہ اپنے برابر میں واقع اس تاریخی اثر کی زیارت سے محروم رہ جائیں۔ ہم جرنیلی سڑک کے انگریزی ورژن گرینڈ ٹرنک روڈ پر اپنے دیسی ماحول میں کشاں کشاں ٹیکسلا کی جانب بڑھتے چلے گئے۔ کسی زمانے میں یہاں خطہ پوٹھوہار کی سطح مرتفع نظر آتی تھی، اب پھیلتا ہوا اسلام آباد اور پہاڑوں میں کھدائی کے ٹرک، کرینیں، تعمیراتی سامان، مٹی اور کچرا با افراط ہے۔ جہاں سڑک مرگلہ کو کاٹتی ہے بس وہیں کرینوں کی ورکشاپوں کے بیچ میں لاٹ تلے ہم نے گاڑی روک لی۔ سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی پتھر سے تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کا پون کلومیٹر قطعہ باقی ہے۔ سڑک سے ہٹ کے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کی جانب سے ایک ملگجا سا تعارفی بورڈ لگا ہے۔ چند شکستہ جھولے اور بوگن ویلیا کے جھاڑ بتاتے ہیں کہ یہ کسی باغ کے آثار ہیں۔ اس کہکشاں کو پار کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ڈھلتے سورج کی پھیلی کرنیں قدیم پتھروں سے تراشی شاہراہ پر گھوڑوں کی پیٹھوں پر بیٹھے، شمال مغرب سے آتے شاہسواروں کے سائے تراشتی ہیں۔ یہ درہ صدیوں سے کابل اور سندھ ساگر عبور کر کے آتے لشکروں اور تجارتی قافلوں کو مارگلہ کے پار پہنچاتا ہے۔ ایک گہری سانس لے کے ہم نے ارد گرد پھیلے چیڑھ کے درختوں پر نگاہ ڈالی۔ زمین کا فرش چھدری بیریوں اور گھنی جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ شیر شاہ سوری کی جرنیلی سڑک پہاڑوں کے متوازی جا رہی تھی، ہم اسے چھوڑ کے بائیں جانب اوپر سیڑھیاں چڑھ گئے۔ بچے چند ہی جست میں اوپر پہنچ چکے تھے۔ لشٹم پشٹم پھولے سانسوں کے ساتھ ہم پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے تو وہ گرینائٹ سے بنے چالیس فٹ اونچے چوکور کالم / مینار کے گرد طواف مکمل کر چکے تھے۔ جو مرگلہ کو کاٹتے اور بھنبھوڑتے بارود اور کرشر مشینوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا تھا۔ ایک جانب لوہے کی ایک سیڑھی لگی تھی جس کا سریا کئی جگہوں سے کٹا ہوا تھا۔ خود کو بیس سال قبل کا تصور کرتے ہوے ہم بھی سلاخوں میں پیر پھنسا کے چڑھ گئے۔ 156 سالہ قدیم لاٹ کی نظریں اپنے اطراف میں دور تک دیکھتی ہیں۔ مارگلہ کے دامن میں آباد ہوتی نئی سوسائٹیاں، بل کھاتی ہوئی جی ٹی روڈ جس پر ٹریفک رواں دواں رہتا ہے، قدیم جرنیلی سڑک کے آثار، اس کے متوازی راولپنڈی سے لنڈی کوتل کو جاتی ریل کی پٹڑی، جس نے کتنے سپاہیوں اور کتنے لوگوں کو اپنی پیٹھ پر ڈھویا ہے، اور وہ خوبصورت پہاڑی سلسلہ جس پر ایک نیا دارالحکومت بسایا گیا۔ سڑک کے دوسری طرف یونانی طرز میں کمرے اور اک شکستہ فوارہ موجود ہے جو برطانویوں کے تعمیر کردہ یادگاری کامپلیکس کا حصہ ہوں گے۔ "زخمی ہونے کے بعد نکلسن صاحب کی مرہم پٹی یہاں ہوئی ہوگی”، بچوں نے فوراً قیاس کیا۔ لاٹ کے اندر کسی بے گھر کا ملگجا بستر موجود تھا اور دن کی روشنی میں بھی اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ موبائل کی ٹارچ کی روشنی میں اندر جھانکا، ایک لوہے کی مضبوط سیڑھی اوپر تک جا رہی تھی۔ شاید اس کا فولاد بھی برطانوی راج میں ہی ڈھالا گیا تھا جو اکھاڑے جانے سے بچ رہا۔ مگر یہ کیسی سیڑھی ہے جس کی وجہ سے سیاہ رنگ کی سنگی تختی پر لکھی تحریر پڑھنا مشکل ہو گیا تھا۔ الوؤں کی مانند نیم اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کے بچوں کی مدد سے جس تحریر کو پڑھنے میں کامیابی ہوئی، اس نے وقت کا پہیہ الٹا گھما دیا۔
This column is erected by Friends of British and Natives— Mourned by the Two Races with an equal Grief
وہ نیچے ایک افغان سورما کی بنائی شاہراہ دوڑتی جاتی ہے جہاں مجھے تلواریں سونتے اور توڑا بندوقیں اٹھائے غزنی و کابل کے سپاہی دہلی کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ سامنے پہاڑ کی جانب دیکھا تو چوٹی سے بابا ولی قندھاری نیچے جھک کے تلونڈی سے آئے بابا گرو نانک سے سرگوشی کر رہے ہیں۔ پنجے کا نشان وہیں حسن ابدال میں نصب ہو چکا ہے۔ واہے گرو کی کبریائی کے اکھنڈ پاٹھ کی لے کہیں ان سرد ہواؤں میں سرگوشی کرتی ہے، "Natives کون؟” برابر میں کھڑے ٹکشلا کے کھنڈروں میں راجا کشن مسکراتا ہے۔ جنڈیال اور جوڑیاں کی خانقاہوں سے بھکشوؤں نے سر اٹھا کے دیکھا۔ مغرب کی طرف ڈھلتے سورج کی کرنیں، بی سترہ کے عقب میں سیاہ کولتار سے بنی ایم ون پر بچھتی جا رہی تھیں۔ گرینڈ ٹرنک روڈ واہگہ سے رینگتی ہوئی مشرق کی جانب بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ دہلی میں کشمیری دروازے کے پاس سیاہ فولادی دروازے کے اندر خاک کے فرش میں حرکت ہوئی اور لزبرن کے ایک سبزہ زار میں سرکردہ کھڑے بریگیڈیئر جنرل نکلسن کی بڑی بڑی آنکھیں سوال بن کے گویا ہوئیں:” Mourned by the Two Races with Equal Grief— کیا واقعی؟ کون سی دو نسلیں؟
"Soldier and Civilian, he was a tower of strength, the type of conquering race—"،
فاتح اور مفتوح!!
میں نے قلم تھامے کتاب ہاتھ میں پکڑے سٹوارٹ فلنڈرز کے ڈارک ہیرو سے استفسار کیا، اے ویشنو کے اواتار! تمہارا کیا نام ہے ؟ "لائن آف دا پنجاب” یا "دا گریٹ امپیریل سائیکو پیتھ”؟
مطالعہ پاکستان کی کتاب ابھی لکھی جا رہی ہے ۔
پسِ نوشت: اس تحریر کے ساتھ منسلک تصاویر کامن لائسنس کے تحت انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں۔ جو مختلف آرٹیکلز، اخبارات، آرکائیوز، جنگی عجائب گھروں کی ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ اپنے دورے کی تصاویر خالص اپنی کھینچی گئی ہیں۔