پاکستان میں انسداد منشیات کی خصوصی عدالت نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 30 نومبر تک توسیع کر دی۔
رانا ثنا اللہ کو یکم جولائی کو پاکستان میں انسداد منشیات کے ادارے نے ایک شاہراہ پر مبینہ طور پر 15 کلو منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
سنیچر کی صبح رانا ثنا اللہ کو جوڈیشل ریمانڈ کی معیاد مکمل ہونے پر لاہور کی کیمپ جیل سے جوڈیشل کمپلیکس میں قائم انسداد منشیات کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
یہ پہلا موقع ہے جب رانا ثنا اللہ کو ڈیوٹی جج کے بجائے انسداد منشیات کی خصوصی عدالت شاکر حسن کے روبرو پیش کیا گیا۔
رانا ثناء اللہ کے وکلا نے استدعا کی کہ ان کے موکل کے خلاف مقدمے کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ وکیل صفائی کے مطابق اے این ایف نے مقدمے کا مکمل ریکارڈ اور گواہوں کی فہرست فراہم نہیں کی۔
تاریخ پر تاریخ
سابق وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ خان کے خلاف منشیات رکھنے کے الزام میں دائر کیے گئے مقدمے پر چار ماہ گزرنے کے باوجود انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت میں باقاعدہ سماعت شروع نہیں کی جا سکی۔
وزیر مملکت برائے انسدادِ منشیات شہریار آفریدی نے رانا ثنا اللہ کو ’رنگے ہاتھوں‘ گرفتار کرنے اور ایک ویڈیو سمیت دیگر شواہد موجود ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
ان الزامات کے تحت انسداد منشیات فورس کے عدالت میں چالان پیش کرنے کے باوجود ابھی تک رانا ثنا پر فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکی ہے۔
قانونی ماہرین اور رانا ثنا کے وکلا کی رائے
اس حوالے سےجب قانونی ماہرین سے رائے مانگی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ فرد جرم عائد ہونے کے بعد ہی مقدمے کا باقاعدہ ٹرائل شروع ہوتا ہے۔
انسداد منشیات فورس نے سابق صوبائی وزیر سمیت ان کے ساتھ سفر کرنے والے ملازمین کو بھی حراست میں لیا تھا تاہم رانا ثنا اللہ اس مقدمے کے واحد ملزم ہیں جو ابھی سلاخوں کے پیچھے ہیں جبکہ اسی مقدمے کے دیگر شریک ملزمان ضمانت پر جیل سے رہا ہو چکے ہیں۔
اے این ایف کی جانب سے اب تک جو ’ابتدائی شواہد‘ پیش کیے گئے ہیں ان میں سیف سٹی کے کیمروں میں رانا ثنا اللہ کی گاڑی کی ریکارڈ کی گئی ویڈیو شامل ہے تاہم باقاعدہ ٹرائل شروع ہونے کے بعد ہی اے این ایف کی جانب سے مزید شواہد پیش کیے جائیں گے۔
سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ خان کے وکیل سید فرہاد علی شاہ کے بقول انسداد منشیات عدالت میں جج کی عدم دستیابی کی وجہ سے مقدمے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
انسداد منشیات کی جانب سے ابتدائی شواہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے وکیل کا دعویٰ ہے کہ سیف سٹی کی فوٹیج نے استغاثہ کے موقف کی نفی کر دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اے این ایف کے مطابق رانا ثنا اللہ کو ٹول پلازہ پر 3 بج کر 25 منٹ پر حراست میں لیا گیا جبکہ ’فوٹیج کو دیکھا جائے تو تین بج کر 35 پر رانا ثنا اللہ کی گاڑی پنجاب یونیورسٹی کے پاس کینال روڈ پر موجود تھی۔‘
وکیل صفائی فرہاد علی شاہ نے اعتراض اٹھایا کہ ’12 کلومیٹر کا فاصلہ 10 منٹ میں کیسے طے ہو سکتا ہے۔‘
یاد رہے کہ اسی نکتے پر رانا ثنا اللہ کی نئی درخواست ضمانت بھی دائر کی گئی لیکن انسداد منشیات کی عدالت نے درخواست ضمانت کو مسترد کر دیا تھا۔
رانا ثنا اللہ کیس اور ججوں کی تبدیلی
ہر سماعت پر سابق صوبائی وزیر کے جوڈیشنل ریمانڈ میں توسیع ہو رہی ہے لیکن ججوں کی تبدیلی کے باعث ان کے مقدمے پر کوئی باقاعدہ کارروائی شروع نہیں ہو سکی.
اب تک چار مختلف جج اس مقدمے کی سماعت کر چکے ہیں اور حال ہی میں ایک نئے جج کو تعینات کیا گیا ہے۔
رانا ثنا اللہ کی ضمانت کی درخواست پر دو حصوں میں سماعت ہوئی۔ پہلے انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد نے ابتدائی سماعت کی پھر یہ معاملہ ڈیوٹی جج خالد بشیر کے پاس چلا گیا۔
ڈیوٹی جج خالد بشیر نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد رانا ثنا اللہ کی ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی تھی اور یہی وجہ ہے کہ سابق وزیر اب بھی جیل میں ہیں۔
ابتدائی طور پر انسدادِ منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد نے سماعت کی اور انھیں کے سامنے رانا ثنا اللہ نے اپنے وکلا کے ذریعے درخواست ضمانت دائر کی تھی۔
انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد نے 28 اگست کو رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت پر سابق صوبائی وزیر کے وکلا کے جزوی دلائل سنے اور انسداد منشیات فورس کے وکیل کے جوابی دلائل کے لیے کچھ دیر مہلت دی تھی۔
جیسے ہی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو انسداد منشیات کی خصوصی عدالت کے جج مسعود ارشد نے باور کرایا کہ کہ ان کو واٹس ایپ پر یہ اطلاع ملی ہے کہ آُن کا تبادلہ ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے وہ درخواست ضمانت پر مزید کارروائی نہیں کر سکتے۔
28 اگست سے اب تک رانا ثنا اللہ کو انسداد منشیات کی عدالت کے جج کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈیوٹی جج خالد بشیر کے روبرو پیش کیا جا رہا ہے۔
انسداد دہشتگردی فورس کے وکیل نے ڈیوٹی جج کے سامنے رانا ثنا اللہ پر فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی لیکن جج نے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ ڈیوٹی جج کو ہنگامی نوعیت کے معاملات پر سماعت کرنے کا اختیار ہے۔
رانا ثنا اللہ خان کو اُن کی گرفتاری کے بعد سے اب تک 13 مرتبہ عدالت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ پہلی مرتبہ دو جولائی جبکہ آخری مرتبہ 16 نومبر کو پیش کیا گیا ہے۔
حال ہی میں قائم مقام چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شاکر حسن کو انسداد منشیات کی عدالت کا نیا جج مقرر کیا تھا۔
قانونی ماہرین کے مطابق انسداد منشیات کی خصوصی عدالت میں جج کی دستیابی کے بعد ہی رانا ثنا اللہ پر فرد جرم عائد ہو گی جس کے بعد باقاعدہ کارروائی شروع ہو گی لیکن اس میں کتنا وقت لگے اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔