پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جہاں مہلک بیماری ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے بچوں کو عالمی ادارہ صحت کی سفارش کردہ ٹائیفائیڈ کنجیوگیٹ ویکسین (ٹی سی وی) دیے جانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
نئے ویکسین پروگرام کو متعارف کروانے کا فیصلہ اس لیے ہوا ہے کیونکہ گذشتہ تین برسوں میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں ٹائیفائیڈ کے 10 ہزار سے زائد ایسے کیس سامنے آئے جن میں متاثرہ بچوں پر اس بیماری سے حفاظت کے لیے دی جانے والی ویکسین اثر ہی نہیں کر رہی تھی۔
اور یہی وجہ ہے کہ اس پروگرام کا آغاز صوبہ سندھ سے کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ پہلی ایسی ویکسین ہے جو چھ ماہ کی عمر کے بچوں کو بھی دی جا سکے گی جو کہ ایک لمبے عرصے تک ٹائیفائیڈ کے خلاف مزاحمت پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سنہ 2017 میں ٹائیفائیڈ کے باعث ہونے والی مجموعی ہلاکتوں میں سے 70 فیصد ہلاکتیں 15 سال سے کم عمر بچوں کی تھی اور اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ تھا جہاں ٹائیفائیڈ کے 63 فیصد کیس رپورٹ ہوئے۔
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ ’ٹائیفائیڈ اور اس سے متعلقہ پیچیدگیوں سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ ٹی سی وی ہمارے بچوں کو اس مہلک بیماری سے بچائے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی اور مقامی شراکت داروں کی مدد سے اس پروگرام پر پورے ملک میں مرحلہ وار عملدرآمد کی حکمت عملی تیار کی ہے۔
سندھ میں بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ای پی آئی کے پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر اکرم سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ پوری دنیا میں ٹائیفائیڈ کے اتنے زیادہ کیس اتنے مختصر عرصے میں دیکھنے میں نہیں آئے۔
انھوں نے کہا کہ یہ مرض وبائی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے اور اسی لیے سندھ حکومت نے اس سے بچاؤ کے لیے نئی ویکسین استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں بین الا قوامی اداروں سے رابطہ کیا۔
ڈاکٹر اکرم سلطان کے مطابق یہ ویکسین پہلی بار پاکستان میں ہی استعمال کی جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ یہ ویکسین بین الاقوامی ادارے گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ ایمیونائزیشن گاوی سے تقریباً 1.7 ارب روپے میں خریدی گئی ہے اور اس خریداری میں دیگر اداروں کی مدد بھی شامل ہے۔
ٹائیفائیڈ کیسے ہوتا ہے؟
سندھ کی صوبائی وزیر صحت عذرا افضل کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ ایک ایسا مرض ہے جو ایسے علاقوں میں بہت تیزی سے پھیلتا ہے جہاں آبادی بہت زیادہ ہو مگر نکاسی آب کا نظام بہتر نہ ہو۔
اس میں مریض بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
مضر صحت کھانوں، گندے پانی، ہاتھ نہ دھونے اور دیگر کئی وجوہات سے اس مرض کے جراثیم انسان کے منھ کے ذریعے آنتوں میں چلے جاتے ہیں، جس کے باعث آنتوں میں زخم ہوتا ہے اور بخار ہو جاتا ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے ویکسین کا پروگرام
حکومتی حکمت عملی کے تحت ابتدائی طور پر صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں نو ماہ سے 15 سال کی عمر کے ایک کروڑ بچوں کو دس روزہ مہم کے دوران یہ ویکسین دی جائے گی۔
پنجاب اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نئی ویکسین دیے جانے کا آغاز سنہ 2020 سے جبکہ پورے ملک میں سنہ 2021 سے شروع ہو گا۔
ڈاکٹر اکرم سلطان نے بتایا کہ یہ مہم بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حکومت کی جانب سے جاری معمول کے حفاظتی پروگرام کا حصہ ہے۔
یہ ویکسین چھ ماہ تک کی عمر کے بچوں کو انجیکشن کی ذریعے دی جائے گی۔
ڈاکٹر سلطان نے بتایا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں 10 لاکھ بچوں کو یہ ویکسین دی جائے گی جن میں سے تقریباً ساڑھے چار لاکھ سکولوں کے بچے ہیں۔ سکولوں میں نرسیں اور لیڈی ہیلتھ ورکر بچوں کو اس ویکسین کے ٹیکے لگائیں گی۔
انھوں نے بتایا کہ صبح نو بجے سے چار بجے تک عام ہسپتالوں میں جبکہ بڑے ہسپتالوں میں شام کے وقت بھی ویکسین لگوانے کی سہولت میسر ہو گی۔
محکمہ صحت سندھ نے اس مقصد کے لیے موبائل ٹیمیں بھی بنائی ہیں جو شہروں میں گشت کریں گی اور جن بچوں کو یہ ویکسین نہیں لگی انھیں یہ دی جائے گی جیسا کہ سکولوں سے باہر، مدرسوں اور گھروں میں موجود چھوٹے بچے۔
انھوں نے مزید کہا کہ عملے کی تربیت، ٹرانسپورٹ اور معاوضے کا ذمہ ورلڈ بینک نے اٹھایا ہے۔
اس ویکسین کی کیا اہمیت ہے؟
بین الاقوامی ادارہ گلوبل الائنس فار ویکسین اینڈ ایمیونائزیشن، گاوی دنیا کے مختلف ممالک میں بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ویکسین کی تیاری کے لیے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
گاوی کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر سیتھ برکلے کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کی ایجاد سے پہلے ٹائیفائیڈ پانچ میں سے ایک شحض کی موت کا سبب بن جاتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کی ٹی سی وی ویکسین بہت اہم ہے اور اس لیے حکومت پاکستان تحسین کی حقدار ہے جس نے اپنے معمول کے حفاظتی پروگرام میں زندگی بچانے والی اس ویکسین کو متعارف کروایا ہے۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے ایمیونائزیشن پروگرام کے کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر اسامہ کہتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی ویکسین ہے جسے نو ماہ کے بچوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔
انھوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے ٹائیفائیڈ سے بچاؤ کے لیے مہم کی تیاریوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر اسامہ کے مطابق دنیا میں ابھی تک جو ویکسین اس مقصد کے لیے استعمال ہو رہی تھی وہ دو سال سے کم عمر بچوں کو نہیں دی جا سکتی تھی اور وہ بیماری سے فقط تین سال کے لیے تحفظ فراہم کرتی تھی لیکن متعارف کی گئی نئی ویکسین لمبے عرصے کے لیے کافی ہو گی اور اسے چھ ماہ کی عمر کے بچوں کو بھی دیا جا سکے گا۔