اسلام آباد میں تحریک انصاف حکومت کے غیر یقینی مستقبل پر چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں۔ اب اتحادی جماعتوں نے بھی اپنا لب و لہجہ تبدیل کر لیا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اس بات پر غور شروع کر دیا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں شراکت داری سے آخر اسے کیا ملا؟ ایم کیوایم کے سینئر رہنما خواجہ اظہار الحسن نے ہفتہ کو خدشہ ظاہر کیا کہ ملکی اقتصادیات اور مالی وصولیاں کو بہتر نہ کیا گیا تو حکومت کا آئندہ بجٹ تک چلنا بھی مشکل ہے ۔
اقتصادی سدھار کے بغیر ہر گزرے روز کے ساتھ نقصان اٹھاتے چلے جائیں گے ۔ اس کے باوجود بھی ایم کیو ایم میں بے یقینی ہے ۔ رابطہ کمیٹی کی جانب سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت کی حمایت کرکے ایم کیو ایم پاکستان کو کیا ملا؟ خواجہ اظہار الحسن نے شکایت کی کہ تحریک انصاف نے اپنے کئے وعدے پورے نہیں کئے ترقیاتی پیکیج کیلئے وعدے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایم کیو ایم پاکستان کی تحریک انصاف پر یہ بداعتمادی یقیناً عمران خان حکومت کیلئے باعث تشویش ہوگی لیکن کیونکہ مسلم لیگ (ق) کی اعلیٰ قیادت نے بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف کھلے عام اپنا ردعمل ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے وہ عمران خان کی حکومت اور اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے ۔
اس کے خیال میں حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے بیانات نے تحریک انصاف میں اکثر کو چوکنا کر دیا ہے ۔ چند روز قبل چوہدری شجاعت حسین نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ آئندہ تین سے 6 ماہ کے عرصہ میں کوئی بھی وزیراعظم بننا پسند نہیں کرے گا۔
ایک ٹی وی ٹاک شو میں چوہدری پرویز الٰہی نے بھی حکومت پر زور دیا کہ وہ اقتصادیات اور اعتماد سازی کے ماحول کو بہتر کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔ حکومت احتسابی عمل میں اپوزیشن سے نرمی برت رہی ہے ۔ حکومت سیاسی مقدمہ بازیوں سے اجتناب کرے۔
دریں اثناء گجرات ہی سے مسلم لیگ (ق) کے ایک اہم رہنما نے کہا کہ پورے ملک کی صورتحال باعث تشویش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے احتساب کے بجائے حسن حکمرانی اور اقتصادیات پر پوری توجہ دینے کے ہمارے مشورے پر کان نہیں دھرے جبکہ پورا احتسابی عمل متنازع ہے ۔
حکومتی اقتصادی کارکردگی پر تحفظات کے ساتھ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم۔ پاکستان نے نواز شریف کے بیرون ملک جانے کو مشروط کرنے کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم۔ پاکستان کے 7 اور مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان ہیں، ان کی حمایت حکومت کی بقاء کیلئے نہایت اہم ے گو کہ ان جماعتوں نے راہیں جدا کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا لیکن ان کی عدم اعتمادی نے عمران خان حکومت کی بقاء کیلئے سنگین خدشات اور چیلنج کھڑے کر دیئے ہیں۔
دُوسری جانب ایم کیو ایم۔پاکستان کے اعلیٰ رہنما اور وفاقی وزیر خالد مقبول نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ان کی پارٹی ان مشکل وقتوں میں تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔
تاہم انہوں نے ملک کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات میں کٹوتی کے ذریعہ تجارتی خسارے کو کم کیا گیا ہے جس کے ترقیاتی عمل میں منفی اثرات مرتب ہوئے۔
صنعت کاری کے ذریعہ برآمدات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹیکس نظام کے ذریعہ مالی وصولیوں کو بہتر بنانا ہوگا جو معاشرے کے تمام طبقات کا احاطہ کرے۔ ایک کو چھوڑ اور دوسرے کو پکڑنے سے کام نہیں چلے گا۔
ادھر پی ٹی آئی کے ایک رہنما سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر اور اتحادیوں کے درمیان ایسے اختلافات ہوتے رہتے ہیں ، معیشت صحیح سمت میں جارہی ہے ، اتحادیوں کی شکایات بھی جلد دور ہوجائیں گی ، پی ٹی آئی حکومت اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے ۔