جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ سفر منزل پر پہنچنے والا ہے اور حکمرانوں کی کشتی ڈوبنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔
پشاور کے مصروف رنگ روڈ پر حکومت مخالف احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘آپ نے اس ملک میں آئین کی حکمرانی کے لیے جو عَلم اٹھایا ہے، جو سفر شروع کیا ہے وہ منزل پر پہنچنے والا ہے، ہم پہلے کہا کرتے تھے کہ ملکی معیشت کی کشتی ڈانوا ڈول ہے لیکن آج حکمرانوں کی کشتی ڈانوا ڈول ہے اور وہ ڈوبنے کے قریب پہنچ گئی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘آج پورا ملک اور اس کے عوام اضطراب کا شکار ہیں، عوام اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں، مہنگائی نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، آج پاکستان کا نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں اضطراب میں ہے، اسے ایک کروڑ نوکریوں کی نوید دی گئی لیکن 25 لاکھ نوجوانوں کو بیروزگار کردیا گیا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘قوم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق نہیں ہو سکتا کہ بیرونی ایجنڈے پر کارفرما پاکستان کی ریاست کو ڈبونے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے آئے ہوئے یہ حکمران کس طرح پاکستان کے حکمران بن گئے، ہم ایسی ناجائر حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں نہ اسے چلنے دیں گے۔’
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘یہاں تصور تھا کہ اس حکومت کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ ہے، اس کے قدموں کو اکھاڑنا کسی کے بس کی بات نہیں لیکن ہم نے بتا دیا کہ ناجائز حکمرانوں اور ان کی کرسی و اقتدار کو کیسے اکھاڑا جاتا ہے اور کیسے ایسے حکمرانوں کے رعب و دبدبے کو زمین بوس کیا جاتا ہے، ہم نے ان حکمرانوں کی گردنوں سے سریا نکال دیا ہے، ان کے تکبر اور رعونت کو زمین بوس کردیا ہے اور یہ تحریک ان کے خاتمے پر ہی ختم ہوگی۔’
انہوں نے کہا کہ ‘پشاور کے لوگوں سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ ان کے شہر کا بی آر ٹی منصوبہ اس بات کا گواہ ہے کہ پورا پاکستان بی آر ٹی بن گیا ہے، اگر کسی اور شہر میں بی آر ٹی منصوبہ ہوتا جس کا یہ حشر ہوتا اور وہ شہر کھنڈر ہوتا تو مجھ سمیت وہاں کے لوگ اسے ووٹ نہ دیتے، یہ کیسی بات ہے کہ شہر کھنڈر ہوگیا ہے، لوگوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامنا ہے اور پھر بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم جیت کر آئے ہیں، اس کو دھاندلی کہتے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پشاور، ملک اور قوم کے نمائندے نہیں ہیں، قبضہ گروپ ہے جس کا قبضہ ختم کریں گے۔’
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ‘بی آر ٹی منصوبے پر ملک کا پیسہ ضائع کردیا گیا، پورے ملک کا یہ حال کردیا گیا ہے، پاکستان کی تاریخ میں اس حکومت نے ایک سال میں جتنے قرضے لیے وہ ملک کی تاریخ میں تمام حکومتوں کے لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘ملک کی تاریخ میں پہلی بار اسٹیٹ بینک 100 ارب کے خسارے میں جارہا ہے، ہم پہلی بار ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) سے ایمرجنسی کرائسز لون رہے ہیں اور فوری طور پر اس سے ایک ارب ڈالر کا قرضہ لے رہے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک کی خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے، کشمیر بِک چکا ہے، معلوم نہیں انہوں نے کشمیر کے بدلے کیا کچھ حاصل کیا ہوگا، یہ کشمیریوں کے بھی غدار ہیں، یہ پاکستان کے بھی غدار ہیں اور غداروں کو ملک پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔’
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘دوسروں کے احتساب کی باتیں کرنے والوں پر جب غیر ملکی فنڈنگ کیس کا احتساب آتا ہے تو احتساب سے بھاگتے ہیں، جب بی آر ٹی کے حوالے کورٹ تحقیقات کا کہتی ہے تو عدالتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ ‘انہوں نے ماضی کی حکومتوں کو بدنام کیا لیکن ان سے زیادہ کرپٹ حکومت شائد ماضی میں نہ آئی ہو، انہوں نے قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ قرضے صحیح اکاؤنٹ میں آئے اور صحیح طریقے سے استعمال ہوئے، ملک سے باہر جانے والے پیسے سے متعلق بھی ایف بی آر نے رپورٹ دی کہ تمام پیسہ قانونی طریقے سے بیرون ملک گیا۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسی صورتحال میں ہم میدان میں ہیں اور فتح کے قریب پہنچ رہے ہیں، ہم نے اس تحریک کو پوری قومی یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھانا ہے۔’